اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ سے جمعہ کو منظور کیے گئے ترمیم شدہ سائبر کرائم بل کے مسودے میں اگرچہ حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے تجویز کردہ 50 سے زائد ترامیم شامل کی گئیں لیکن اب بھی اس مجوزہ قانون کے بارے میں بعض حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکن اس بل کے حوالے سے حزب مخالف کی جماعتوں سے مسلسل رابطے میں رہےاور اُن کے ذریعے وہ اپنی تجاویز قانون سازوں کے سامنے رکھتے رہے۔
مسودہ قانون میں شامل کی جانے والی ترامیم کے تحت سائبر کرائم قانون کے تحت خصوصی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف 30 دن میں ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔
مجوزہ قانون کے تحت انٹرنیٹ کے ذریعے منافرت پر مبنی تقاریر اور فرقہ واریت پھیلانے پر سات سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے جب کہ دہشت گردی سے متعلق سائبر جرائم پر 14 سال تک قید اور پچاس لاکھ روپے تک جرمانہ کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ کسی کی رضامندی کے بغیر تصاویر شائع کرنے اور بچوں سے زیادتی سے متعلق مواد بھی انٹرنیٹ پر جاری کرنے والوں کے خلاف سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم “بائیٹس فار آل” کے ایک عہدیدار ہارون بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نئے مجوزہ قانون میں یہ تجویز کیا گیا کہ مقدمہ درج کرنے سے قبل خصوصی عدالت الزامات کی سماعت کرے گی۔
اُن کے بقول اس کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ جج عالمی سطح پر سائبر جرائم سے متعلق قوانین اور اُن کے نفاذ کے طریقہ کار سے آگاہ ہوں۔
ہارون بلوچ کا کہنا تھا کہ منافرت پر مبنی تقاریر کو اس بل کا حصہ نہیں ہونا چاہیئے۔
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے ان خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ مجوزہ قانون سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔
تاہم وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن نے پاکستان کے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل” دنیا نیوز” سے گفتگو میں کہا کہ اس قانون کی وضاحت کا اختیار کسی ایک شخص کو نہیں دیا گیا بلکہ یہ اختیار عدالت کے پاس ہو گا۔
’’اس قانون کے تحت شکایت درج ہونے کے بعد پہلے عدالت کے سامنے (انکوائری) افسر جائے گا۔۔۔۔۔ عدالت ہی نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ جرم سر زد ہوا ہے یا نہیں، اُس کے بعد ہی ورانٹ جاری کیے جائیں گے۔‘‘
قومی اسمبلی جہاں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے وہاں سے سائبر کرائم بل کا مسودہ رواں سال اپریل میں منظور کروایا گیا تھا لیکن سینیٹ میں اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی سمیت بعض دیگر جماعتوں کے اراکین کی طرف سے پرانے مسودے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
جس کے بعد اس بل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بھیج دیا گیا جہاں طویل بحث کے بعد ترمیم شدہ مسودہ تیار کیا گیا۔
سینیٹ میں اس ترمیم شدہ بل پر ووٹنگ سے قبل رواں ہفتے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے حزب مخالف اور انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں کی طرف سے تجویز کردہ لگ بھگ 50 ترامیم مسودہ قانون میں شامل کی تھیں۔
کمیٹی کی طرف سے تجویز کردہ ترامیم کو حکومت نے منظور کر لیا تھا۔
قومی اسمبلی سے منظور ہونے کی صورت میں یہ بل صدر مملکت کے پاس جائے گا اور اُن کے دستخطوں کے بعد ہی یہ قانون بن سکے گا۔
انٹرنیٹ صارفین اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ابھی اس بل کو قومی اسمبلی سے پاس ہونا ہے اور اُن کی کوشش ہو گی کہ جو ترامیم اس وقت تک اس میں شامل نہیں ہیں انھیں بھی اس بل کا حصہ بنایا جائے۔
وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن کا کہنا ہے کہ مسودہ قانون میں اس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے کہ اس کا غلط استعمال نا ہو سکے۔