تحریر : روہیل اکبر مسلم لیگ ن تقریباً 19 برس بعد اتحادی جماعتوں کی مدد سے سینیٹ کا چیئرمین منتخب کرانے جا رہی ہے اس کی تفصیل بعد میں پہلے ایک اہم خبر بتا دوں کہ مارچ میں ہونے والے سینٹ کے الیکشن میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کو ٹکٹیں مریم نواز فائنل کرینگی جبکہ میاں نواز شریف کے قریبی حلقوں نے بھی مریم نواز کو قومی سیاسی دھارے کے لیے لازم وملزم قرار دیدیا ہے سینٹ میں ٹکٹوں کی کامیاب تقسیم کے بعد آئندہ عام انتخابات کی ٹکٹیں دینے کا اختیار بھی مریم نواز کے پاس محفوظ رہے گا جب کہ پارٹی کی مشاورتی کونسل صرف امیدواران کا ڈیٹا اکٹھا کرے گی جبکہ مسلم لیگ (ن) کی اعلی قیادت مریم نواز کی سیاسی بصیرت کو مکمل طور پرفعال بنانے میں ان کو سیاسی طور پر طاقتور بنا رہی ہے، اس ضمن میں سیاسی جلسے جلوس، عوامی رابطہ مہم، لیگی ورکرز کو ذمے داریاں عائد کرنے کیساتھ ساتھ عمران خان کے ساتھ ساتھ قومی اداروں میں بیٹھے ہوئے نواز شریف کو نااہل کرنے والوں کو ہدف تنقید بنانا بھی مریم نواز کے مشن میں شامل ہے تاکہ ان کے سیاسی قد کو قومی سطح پر بڑھایا جا رہا ہے تاہم مریم نواز کے سیاسی فیصلوں پر پارٹی کے اندر اختلافات اپنی جگہ موجود ہیں۔
جبکہ مریم نواز کو بااختیارکرنے سے حمزہ شہباز شریف کا سیاسی مستقبل خطرے سے دوچار ہوچکا ہے اب آتے ہیں سینٹ الیکشن کی طرف جہاں تقریباً19 برس بعد ن لیگ اس حیثیت میں ہے کہ وہ آئندہ ماہ اپنے امیدوار کو اپنی اتحادی جماعتوں کی مدد سے سینیٹ کا چیئرمین منتخب کراسکے گی ۔3مارچ کے الیکشن کے بعد ن لیگ کے تقریباً35سینیٹرز منتخب ہونے کا امکان ہے، جو کہ ظاہر ہے سادہ اکثریت (51ارکان ) سے کم ہے۔لیکن اس کے باوجود ن لیگ یقینی طور پر سینیٹ کی سب سے بڑی قوت بن کر سامنے آئے گی کیونکہ پیپلز پارٹی اس سے آدھی سیٹیں ہی حاصل کرپائے گی۔اکتوبر، 1999میں مارشل لاء کے اطلاق کے بعد ن لیگ نے سینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں کی ہے۔2015میں اس کے پاس اچھا موقع تھا تاہم سابق صدر آصف زرداری کے سبب ایسا نہیں ہواحالاں کہ دونوں جماعتوں کی سیٹوں کی تعداد برابر تھی۔تاہم اب ن لیگ کے حریفوں کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ ن لیگ کے امیدوار کو چیئرمین سینیٹ بننے سے روک سکیں۔2009سے اب تک چیئرمین سینیٹ کا عہدہ مسلسل تین بار پیپلز پارٹی کے پاس رہا(نیر بخاری، فاروق ایچ نائک،رضا ربانی)۔اس سے قبل اور پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ق لیگ سے تعلق رکھنے والے محمد میاں سومرو2003 سے2009تک چیئرمین سینیٹ رہے۔جب کہ ان سے قبل ن لیگ کے وسیم سجاد ، غلام اسحاق خان کے بعد 10برس تک چیئرمین سینیٹ رہے تھے۔
موجودہ الیکٹورل کالج یعنی صوبائی اسمبلیوں کی عددی صورتحال دیکھیں تو پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد کم ہوکر 15تک پہنچ سکتی ہے۔پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی کے مقابلے میں دو سیٹیں کم لے کر تیسری پوزیشن پر آسکتی ہے۔سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ کے باعث ن لیگ پنجاب سے 8ارکان اور خیبر پختونخوا سے 1رکن سے محروم ہوجائے گی۔جب کہ بلوچستان اورسندھ سے اس کا کوئی سینیٹر نہیں ہے۔ا س تعداد میں سے 9سینیٹرز نکالنے کے بعد ، ان کی عددی تعداد 18ہوجائے گی۔ان کے کل سینیٹرز کی تعداد 27ہے، جس میں نااہل ہونے والے نہال ہاشمی بھی شامل ہیں ، ان کی خالی ہونے والی سیٹ پر لازمی پنجاب سے ضمنی انتخاب میں سینیٹر منتخب ہوجائے گا۔آئندہ سینیٹ انتخابات میں ن لیگ پنجاب سے 12سیٹیں حاسل کرلے گی۔2015میں اس نے پنجاب سے تمام 11سیٹیں جیتی تھیں۔خیبر پختونخوا سے ایک سینیٹر کے ریٹائر ہونے پر ن لیگ کے دو ارکان کے منتخب ہونے کا امکان ہے۔وفاقی دارالخلافہ سے پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے سینیٹرز کے ریٹائر ہونے پر ن لیگ ہی کے ارکان سینیٹر منتخب ہوں گے کیوں کہ قومی اسمبلی میں ان کی اکثریت ہے۔فی الحال ، بلوچستان میں ن لیگ کا کوئی سینیٹر نہیں ہے۔
اس مرتبہ وہ اپنے دو سینیٹرز یہاں سے منتخب کراسکتے ہیں گو کہ ان کے معزول ہونے والے وزیر اعلیٰ نواب ثنااللہ زہری کے خلاف بغاوت سے قبل ان کی یہاں سے 5سیٹیں یقینی تھیں۔ن لیگ کے سندھ اسمبلی میں 7ارکان ہیں ، جس سے واضح ہے کہ انہیں یہاں سے سینیٹر کی کوئی سیٹ نہیں مل سکتی۔تاہم، اگر ان کے ارکان اسمبلی مسلم لیگ(فنکشنل)کی حمایت کریں تو پیر پگاڑا کا امیدوار یہاں سے ایک سیٹ حاصل کرسکتا ہے۔پیپلز پارٹی جس کی فی الحال 25سینیٹرز ہیں ، اسے سندھ سے 7سینیٹرز کا خسارہ ہوگا، جب کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے اسے چار چار سیٹیں کم ملیں گی ، اسی طرح وفاقی دارالخلافہ سے ایک اور پنجاب سے ان کے دو سینیٹرز کم ہوجائیں گے۔یعنی پیپلز پارٹی کو کم از کم 18سینیٹرز کا خسارہ ہوگا۔پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 8ہے، جس کے واضح معنی یہ ہیں کہ ان کا یہاں سے کوئی سینیٹر منتخب نہیں ہوسکتا۔اسی طرح خیبر پختونخوا کا حال ہے ، جہاں ان کے ارکان اسمبلی کی تعداد 6ہے۔تاہم اگر وہ اے این پی سے اتحاد کرلے ، جس کے پاس 5سیٹیں ہیں ، تو ان دونوں میں سے کسی ایک پارٹی کا امیدوار سینیٹر منتخب ہوسکتا ہے۔پیپلز پارٹی کا بلوچستان اسمبلی میں کوئی ایک سینیٹر بھی نہیں ہے، اگر وہ یہاں سے کوئی ایک سیٹ بھی حاصل کرتی ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ یہاں کچھ نہ کچھ غلط ہوا ہے۔
پی ٹی آئی کے موجودہ سینیٹرز کی تعداد 7ہے ، جو سب کے سب خیبر پختونخوا سے منتخب ہوئے ہیں۔تاہم آئندہ انتخابات کے بعد اس کے سینیٹرز کی تعداد 13تک پہنچ سکتی ہے۔پی ٹی آئی جو کہ پنجاب اسمبلی کی دوسری بڑی جماعت ہے ، اور اس کے کل ارکان کی تعداد 30ہے، اس طرح اگر وہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے بھی تمام ووٹ حاصل کرلے وہ پنجاب اسمبلی سے بھی سینیٹ کی ایک سیٹ جیت سکتی ہے، جو کہ مشکل نظر آرہا ہے۔سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 4ارکان ہیں اس لیے یہاں سے کسی کو سینیٹر منتخب کرانا ان کے لیے ناممکنات میں سے ہے۔بلوچستان میں ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کی بغاوت کے باعث یہ ممکن ہے کہ ان کے ارکان آزاد امیدواروں کو ووٹ دیں۔اے این پی کے 6سینیٹرز میں سے 5ریٹائر ہوجائیں گے ، جب کہ وہ اس حیثیت میں نہیں ہے کہ خیبر پختونخوا سے کوئی ایک سیٹ بھی جیت سکے۔ق لیگ کے بھی 6سینیٹرز ہیں ، جو سب ریٹائر ہوجائیں گے۔ان کے پنجاب اسمبلی میں ارکان کی تعداد 8ہے جو کامل علی آغا کو سینیٹر منتخب کراسکتے ہیں۔تاہم، بلوچستان میں ان کے 5ارکان اسمبلی ہیں ، جس میں نو منتخب وزیر اعلیٰ بھی شامل ہیں، جو غالباًاپنے ارکان کی حمایت سے ایک سینیٹر منتخب کرا لیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹرز کی تعداد 8 ہے ، جس میں سے 4ریٹائر ہوجائیں گے۔وہ سندھ اسمبلی سے چار سینیٹرز منتخب کراسکتے ہیں ، جس سے ان کی عددی قوت متاثر نہیں ہوگی۔جے یو آئی(ف)کے سینیٹرز کی تعداد 5ہے۔جس میں سے3 ریٹا ئر ہوجائیں گے۔تاہم بلوچستان اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد بالترتیب 16 اور 8ہے ، جس سے وہ با آسانی 3سینیٹرز منتخب کراسکتے ہیں۔حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد 3ہے، جن میں سے کوئی ایک بھی ریٹائر نہیں ہورہا، جب کہ وہ بلوچستان میں اپنی عددی قوت کی بنا پر مزید 2سینیٹرز منتخب کراسکتے ہیں۔محمود اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی ، جس کے موجودہ سینیٹرز کی تعداد 3ہے ، جن میں سے کوئی بھی ریٹائر نہیں ہورہا۔بلوچستان اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد 14ہے ، جس کی وجہ سے وہ اس حیثیت میں ہیں کہ اپنے سینیٹرز کی تعداد 6تک پہنچا دیں۔فاٹا کے 8میں سے 4سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے۔جب کہ ان کی جگہ قومی اسمبلی میں ان کے 12ارکان کے ووٹوں سے سینیٹرز منتخب ہوں گے۔کل 52سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے ، جس میں سندھ اور پنجاب سے 12، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 11، وفاقی دارالخلافہ سے 2 اور فاٹا سے 4سینیٹرز ریٹائر ہو جا ئیں گے اگر ایسا ہوتا ہے تو آئندہ بننے والے ایوان بالا میں چیئرمین سینٹ مسلم لیگ ن کا ہوگااور وہی چیئرمین بنے گا جسے مریم نوازشریف فائنل کرینگی۔