تحریر : قادر خان یوسف زئی سینیٹ الیکشن کے بعد چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا اہم ترین مرحلہ آ چکا ہے۔ تادم تحریر نومنتخب اراکین بلوچستان کی جانب سے چیئرمین کی نشست کے لئے مطالبہ کیا جاچکاہے کہ اس بار ڈپٹی اسپیکر کے بجائے ایوان بالا کا چیئر مین بلوچستان سے ہونا چاہیے ۔ کیونکہ آج تک بلوچستان سے چیئرمین نہیں بنایا گیا ۔ ایوان بالا میں بلوچستان کا چیئرمین بنانے کے حوالے سے اگر بات اتنی ہی رہتی کہ یہ میرٹ کا معاملہ ہے کہ سینیٹ چیئرمین بلوچستان سے تعلق رکھتا ہو تو اس کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں۔ بلوچستان کو سینیٹ کی چیئرمین شپ سے زیادہ بھی دینا پڑے تو نقصان کا سودا نہیں ہے۔ لیکن ایک خلش سی ہے کہ سینیٹ انتخابات سے قبل جمہوری عمل کے نام پر بلوچستان میں تبدیلی حکومت کا جو کھیل رچا گیا اور منحرف اراکین نے صوبائی حکومت کا تختہ جس طرح اُلٹا اُسے سنجید ہ حلقوں نے پسند نہیں کیا۔ یہ قابل تسلیم ہے کہ اگر قائد ایوان پر عدم اعتماد ہے تو مواخذہ کرنا ایک جمہوری عمل ہے لیکن یہاںیہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جب کو ئی رکن اپنی سیاسی جماعت سے منحرف ہو جاتا ہے اور جمہوری روایات کے برعکس غیر متوقع عمل سر انجام دیتا ہے تو اس کی سیاسی ساکھ کو نقصان ہی نہیں بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ اسی طرح جب ایسی سیاسی مناظر سامنے آتے ہیں کہ کچھ اراکین کی خرید و فروخت میں بھاری رقوم صرف ہوتی ہیں اور پھر سیاسی وابستگیاں فروعی مفادات پر غالب آجاتی ہیں تو ایسے اراکین کی سیاسی وفاداری عوام کے نزدیک قابل اعتماد نہیں ہوتی۔
بلوچستان ایک حساس ترین صوبہ ہے ۔ بلوچی ، بروہوی اور پشتون نسلی تنازعے کے ساتھ ساتھ قوم پرستی و فرقہ وارنہ دہشت گردی کا شکار صوبہ ہے۔ بد قسمتی سے سرحد پار دہشت گردوں کے نیٹ ورک سے شدت پسندی کے سبب جانی نقصانات اور خوف کا شکار بھی ہے۔ سیکورٹی فورسز پر مسلسل حملے بھی بلوچستان کے امن و امان کی سنگین صورتحال کو واضح کرتے ہیں ۔ اسی طرح ملک دشمن ممالک بلوچستان کے چند لوگوں کے ساتھ ملکر نام نہاد علیحدگی پسند مہم چلا کر پاکستان کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں ۔ گیم چینجر منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی ناکامی کیلئے ملک دشمن عناصر نے کمر کسی ہوئی ہے۔ غرض یہ ہے کہ بلوچستان دیگر صوبوں کی با نسبت انتہائی حساس نوعیت کے معاملات سے بیک وقت نبر الزما ہے ۔ سینیٹ انتخابات کے موقع پر بلوچستان کے حوالے سے دنیا بھر کی توجہ مرکوز تھی اور پھر وہی ہوا جس کی توقع تھی کہ آزاد اراکین کی بڑی تعداد ہی منتخب ہوئی۔ اب بلوچستان کی سیاسی گروپ بندی کی مثال فاٹا میں سینیٹ کے لئے کی جانے والی گروپ بندی کی مطابق ہوگئی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ پر تمام سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار بھی کیا اور ایک دوسرے کے خلاف سنگین الزامات بھی لگائے۔ دیکھا جائے تو ہارس ٹریڈنگ کی روش نے ایوان بالا کی شفافیت پر سوالیہ نشان ہی نہیں چھوڑا بلکہ بدترین کرپشن کے الزامات کے نقوش بھی چھوڑے ہیں۔ اب اگر ان تمام معاملات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے کہ بلوچستان کو سینیٹ کی چیئرمین شپ دے دی جائے تو عمومی رائے سامنے آتی ہے کہ موجودہ سینیٹ الیکشن آلودہ ہے اور کرپشن کے سنگین الزامات کی زد میں ہے۔ ایسے میں کسی کا سینیٹر بن جانا اس کے کردار پر شکوک کی انگلی اٹھاتا ہے کہ وہ ملک و قوم کی خدمت کرے گا یا اپنے سرمایئے کی ریکوری ۔ ایسے میں بلوچستان جیسے حساس صوبے کی نمائندگی کے نام پر کوئی ایسا گروپ مسلط ہوگیا جو غیر جمہوری طریقوں سے پورے نظام کو جمہوریت کا کفن پہنا دیتا ہے تو اس سیاسی انتشار کی وجہ سے سی پیک منصوبے سمیت بلوچستان میں نام نہاد قوم پرستوں کی علیحدگی کی مذموم مہم اور مسلسل دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے پوری مملکت کو کڑے امتحانات سے گذرنا پڑ سکتا ہے۔
خیبر پختونخوا کی حکمران جماعت کے سربراہ نے تو باقاعدہ اعتراف کرلیا کہ ان کے اراکین کو خرید ا گیا ،چار کروڑ روپے فی رکن کو ضمیر بیچنے کا مبینہ معاوضہ دیا گیا ۔ فاٹا میں الزام عائد ہوا کہ 15کروڑ روپے سے بولی شروع ہوئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں سب سے زیادہ ریٹ چلا اور ہارس ٹریڈنگ کے ریکارڈ ٹوٹے ۔ پنجاب میں بھی اپنے مینڈیٹ سے زیادہ ووٹ لینے والوں پر چمک کا الزام ملکی سیاسی پر چھائے رہے ۔ سندھ میں سیاسی انتشار کو چمک کی کارستانی قرار دیکر سیاسی نادانیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن معتبر ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ عوامی دبائو سے بچنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے خاص گروپوں نے ہارس ٹریڈنگ کا ماحول پیدا کیا اور اب شوکاز نوٹس بھیج کر دھول جھونکی جا رہی ہے۔ ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تما م عمل مالی خسارے کو پورا کرنے اور آئندہ عام انتخابات میں اخراجات کے لئے کرنا پڑا کیونکہ سونے کی چڑیا کے مزید پَر نوچنا آسان نہیں رہا ہے۔
یہاں بھی پی پی پی کو اس کا فائدہ ملا اور مسلم لیگ فنکشنل کو بھی منحرف اراکین سے فائدہ پہنچا ۔ عمل تو ثبوت دیتا ہے کہ چمک کا استعمال ہوا لیکن دائٹ کالر کرائم کو ثابت کرنا کبھی آسان نہیں رہا۔ اب ان حالات میں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ان نومنتخب اراکین کی مملکت کے ساتھ وفاداری مشکوک ہے ۔ لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گنجلگ نظام میں اس قدر سقم موجود ہے کہ ایسے ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی جاتی۔اور اس نظام کے تحت منتخب ہونے والے عوام کو کم ازکم جواب دہ نہیں ہیں۔ عوام ان سے ، کسی بھی عمل پر باز پُرس کرنے کا حق بھی نہیں رکھتی کیونکہ انہیں عوام نے منتخب نہیں کیا ۔ سیاسی جماعتوں پر دبائو تو ڈالا جاسکتا ہے لیکن سینیٹر پر اخلاقی دبائو بھی نہیں ڈالا جا سکتا ۔ اس کے بعد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو چیئرمین بنانے کا مطالبہ مانا جائے یا ڈپٹی اسپیکر حصے میں آئے اس کا بھی عوام سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یہ اشرافیہ کا ایوان ہے۔ جہاں عوام کے نمائندوں کا داخلہ ممنوع ہے۔
اب اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے بعد منافع کا حصول ہو یا پھر کچھ اور اس کا بھی عوام سے کوئی سروکار نہیں ۔ عدالت عظمیٰ کسی کی رکنیت معطل کرتی ہے یا بحال ، اس کا بھی عوام سے تعلق نہیں۔ جب نمائندے ہی عوام کے جواب دہ نہیں تو کون بنے گا چیئرمین پر بحث کرنا اور عوا م کے تحفظات پر غور کرنے کا مشورہ دینا بھی فضول ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کم ازکم پانچ برس میں اپنا چہرہ ووٹ مانگنے کے لئے تو عوام کے گلی محلوں میں دیکھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں لیکن عوام اگر سینیٹ اراکین سے کسی قسم کی توقعات وابستہ رکھتی ہے تو انہیں خوش فہمی کے گرداب سے باہر آجانا چاہیے ۔ پھر کمیٹیاں بنے گی ، رپورٹیں طلب کی جائیں گی ، بریفنگ دی جائے گی ، مشترکہ سیشن ہوںگے ۔ اربوں روپے کی مراعات دیں جائیں گی ۔ تنخواہوں میں اضافہ ہوگا ۔ مکمل پروکوٹول ملے گا ۔ من چاہا سب ملے گا ۔ لیکن اس میں عوام کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔اگر کسی نے کوئی کارنامہ کربھی دیا تو عوام پر ان کا احسان کہلائے گا ۔ اب ان حالات میں سینیٹ کے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کا فائدہ کسے ہوگا ۔ اس پر اپنے دماغ کو تھکانے کا بھی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے تو سینیٹ کی ویب سائٹ پر جا کر تمام قائمہ کمیٹیوں کی کارکردگی کو دیکھ سکتے ہیں کہ چھ برسوں میں کتنی بار اجلاسوںمیں آئے ، کتنی رپورٹس تیار ہوئی اور عوام کے لئے کون سی دودھ کی نہر نکالی گئی۔
ہم نے سینیٹ انتخابات کو ہوّا بنایا اور اب ہارس ٹریڈنگ کے بگولے کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے کہ کھربوں روپے کا سفید ہاتھی آخر عوام کے کس کام کا ہے ۔ ہم نے اربوں، کھربوں روپوں کے سفید ہاتھی پالے ہوئے ہیں ۔ گنَاکھلا کھلا کر اپنے خزانے خالی کرلئے ہیں ۔ قرضے لے لیکر آنے والی نسلوں کو بھی پیدا ہونے سے قبل قرض دار بنا دیا ہے۔ مقدس گائے پال رہے ہیں ۔ بس یہ سوچ کر نظام کو رکنے نہ دیا جائے ایسے چلتے رہنا چاہیے ۔ اجتہاد جمود کا شکار ہے کہ ہمیں کس نظام کی ضرورت ہے ۔ اس نظام کی جس کی حاکمیت رب کائنات کے پاس ہے یا پھر اُس نظام کی جس میں داخل ہونے کے لئے سونے چاندی کے خزانے ہونا ضروری ہیں ۔ اللہ کے لئے چہرے نہیں نظام بدلو ۔ عبوری دور ہی سہی لیکن اس میں موجود خامیوں کو بدلو ۔۔ آج نہیں تو کل مکافات عمل کے تیز دار سے عمل سے گزرنا پڑسکتا ہے جس سے بچنے کی راہ بھی مشکل ہوگی۔کاش کہ ہم ملکی معاملات پر زیادہ توجہ دی ہوتی ۔ وطن ِ عزیز جس قدر عالمی دبائو و خطرات کا شکار ہے اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ سیاسی ، صحافی اور عوام کو بھی سرخ بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔