سال 2020 گذر گیا سووچنا صرف یہ ہے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا حاصل کیا پرانی باتوں، رنجشوں، ناکامیوں اور پچھتانے والی باتوں کو درگذر کرکے ہمیں نئے جوش،جذبے اور ولولے کے ساتھ کام کرکے آگے بڑھنا ہوگا اور اس وقت ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اپوزیشن نے پہلے دن سے ہی تہیہ کیا ہوا تھا کہ انہوں نے حکومت کو کام نہیں کرنے دینا بلکہ کہیں نہ کہیں الجھائے رکھنا ہے اور وہ کوشش میں ہیں کہ اداروں کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہو عوام بے بس ہوجائے سڑکیں ویرانی کا منظر پیش کریں اور ہر طرف صرف دنگے فساد ہی نظر آئیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ملک کو استحکام دینے میں جتنا ٹاپ لیڈر شپ کا کمال ہے اس سے بڑھ کر ہمارے اراکین اسمبلی کا بھی کردار ہے جو اسمبلی کے اندر اور باہر ملک میں خوشحالی کی کوششوں میں مصروف ہیں اس وقت پی ٹی آئی کے پاس واضح اکثریت نہیں ہے کہ وہ اپنے طور پر فیصلے کرسکے پنجاب اور مرکز میں عمران خان اپنے اتحادیوں کو بھی ساتھ لیکر چل رہے ہیں۔
آجکل سینٹ الیکشن کا بڑا زور شور ہے جو اسی سال ہونے جارہے ہیں اس سال کون کون سینٹر اپنی مدت پوری کررہا ہے اور پارٹی پوزیشن کیا ہوگی ان الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کتنی مستحکم ہوجائیگی اسکی تفصیل بعد لکھوں گا پہلے ان اراکین اسمبلی کا بتا دوں جنہوں نے آج بھی اداروں کو مذاق سمجھا ہوا ہے جن کی وجہ اسمبلیاں اپنا کام مکمل نہیں کرپارہی یہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے 469 وہ ارکان ہیں جنہوں نے ابھی تک اپنے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کے پاس جمع نہیں کروائیں الیکشن کمیشن15جنوری تک اثاثوں کی تفصیلات جمع نہ کرانے والے ارکان کی رکنیت 16 جنوری کو معطل کر دے گا۔
اب تک 1195 میں سے717ارکان نے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرائیں،سینیٹ کے104 ارکان میں سے77 نے تفصیلات جمع کرادیں جبکہ 26 نے نہیں کرائیں،ایک نشست خالی ہے،قومی اسمبلی کے 342 ارکان میں سے209 نے تفصیلات جمع کرائیں،131اراکین نے تفصیلات جمع نہیں کرائیں،2نشستیں خالی ہیں،پنجاب اسمبلی کے371ارکان میں سے206 نے تفصیلات جمع کرادیں،163 اراکین نے تفصیلات جمع نہیں کرائیں،2 نشستیں خالی ہیں، سندھ اسمبلی کے 168ارکان میں میں 104ارکان نے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرا دیں جبکہ 62ارکان نے تفصیلات جمع نہیں کرائیں، 2نشستیں خالی ہیں،خیبر پختونخوا سمبلی کے145 میں سے86 نے تفصیلات جمع کرائیں ہیں 58 نے جمع نہیں کرائیں،1 نشست خالی ہے،بلوچستان اسمبلی کے65 ارکان میں سے35 نے تفصیلات جمع کرادیں 29 نے جمع نہیں کرائیں،1 نشست خالی ہے اور اب سینیٹ انتخابات 2021کے بعد مرکز میں برسر اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف کا 28نشستوں کے ساتھ پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ)کی سب سے بڑی جماعت بننے کا امکان ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی 19 نشستوں کے ساتھ دوسری اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے 18 نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آ سکتی ہے، نجی ٹی وی رپورٹ کے مطابق ایوان بالا میں سینیٹر راجہ ظفرالحق، سینیٹر مشاہد اللہ خان، سینیٹر شبلی فراز اور سینیٹر شیری رحمان سمیت 52 سینیٹرز مارچ 2021میں ریٹائر ہو جائیں گے۔ایوان بالا میں بلوچستان عوامی پارٹی کا 12نشستوں کے ساتھ چوتھی بڑی پارٹی بننے کا امکان ہے۔
سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ کے بعد جمعیت علمائے اسلام ف کی 5اور متحدہ قومی مومنٹ پاکستان کی 3نشستیں ہونے کا امکان ہے۔سینیٹرز کے ریٹائرمنٹ کے بعد عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی دو دو نشستیں رہ جائیں گی۔سندھ سے حکومتی اتحادی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی دو اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی بھی دو نشستیں ہونگی جبکہ پاکستان مسلم لیگ(ق) لیگ کو بھی دو نشستیں ملنے کا امکان ہے جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین مدد سے ہی ممکن ہو سکے گا۔امیر جماعت اسلامی سینیٹرسراج الحق کے ریٹائرمنٹ کے بعد جماعت اسلامی کی سینٹ میں ایک نشست رہ جائے گی۔خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد فاٹا کے حصے میں کوئی نشست نہیں آئے گی۔ فاٹا کی 4 نشستوں پر انتخاب نہ ہونے کے باعث ایوان بالا کی کل نشستیں 100رہ جائیں گی، جس میں سے حکومتی اتحاد کے پاس 49سیٹیں جبکہ اپوزیشن کے پاس 51سیٹیں آنے کا امکان ہے۔سینیٹ کے 11مارچ کو 52 سینیٹرز ریٹائر ہو جائیں گے۔
سندھ اور پنجاب سے 11، گیارہ اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 12 بارہ سینٹرز ریٹارئر ہو جائیں گے۔مسلم لیگ(ن) کے سب سے زیادہ 17سینٹرز ریٹائر ہوں گے۔ مسلم لیگ(ن) کی پنجاب سے 11اسلام آباد، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے 2 دوسینٹرز ریٹائر ہوجائیں گے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے 7سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے جن کا تعلق سندھ سے ہے۔ایم کیو ایک کے سندھ سے 4سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے، جمعیت علما اسلام ف کے 2سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے جن میں سے1کا تعلق بلوچستان اور 1کا خیبر پختوانخوا سے ہے۔رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے ریٹائر ہونے والے تمام 7 سینٹرز کا تعلق خیبر پختوانخوا سے ہے۔ جماعت اسلامی کے 1، نیشنل پارٹی کے2، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 2 سینیٹرز ریٹائر ہو جائیں گے۔بلوچستان عوامی پارٹی کے 3، بی این پی مینگل کا 1،عوامی نیشنل پارٹی کا 1 سینیٹر ریٹائر ہو جائے گا۔ بلوچستان سے ایک آزاد رکن یوسف بادینی ریٹائر ہو جائیں گے۔فاٹا سے 4 آزاد ارکان اورنگزیب اورکزئی، مومن آفریدی، ساجد طوری اور تاج آفریدی ریٹائر ہو جائیں گے۔
اسلام آباد سے 2 سینٹرز راحیلہ مگسی اور یعقوب ناصر ریٹائر ہو جائیں گے۔مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق، مشاہد اللہ خان، پرویز رشید، یعقوب خان ناصر، راحیلہ مگسی، آغا شاہزیب درانی، عائشہ رضا فاروق، چوہدری تنویر، اسد اشرف، غوث نیازی، کلثوم پروین، صلاح الدین ترمزی، عبدالقیوم، جاوید عباسی، نجمہ حمید، پروفیسر ساجد میر اور سلیم ضیا ریٹائر ہو جائیں گے۔پیپلز پارٹی کے سینیٹرز رحمان ملک، فاروق ایچ نائیک، گیان چند، اسلام الدین شیخ، سلیم مانڈوی والا، سسی پلیجو اور شیری رحمان ریٹائر ہو جائیں گے۔پاکستان تحریک انصاف کے کینتھ ولیمز، لیاقت ترکئی، محسن عزیز، نعمان وزیر، ثمینہ سعید، شبلی فراز اور ذیشان خانزادہ ریٹائر ہو جائیں گے۔ایم کیو ایم کے عتیق شیخ، خوشبخت شجاعت، محمد علی ایف اور نگہت مرزا جبکہ جمعیت علما اسلام ف کے مولانا عطا الرحمان اور مولانا غفور حیدری ریٹائر ہو جائیں گے۔بلوچستان عوامی پارٹی کے خالد بزنجو، سرفراز بگٹی، منظور کاکڑ اور پی کے میپ کی عثمان خان کاکڑ اور گل بشری ریٹائر ہو جائیں گے۔بی این پی مینگل کے جہانزیب جمال دینی، نیشنل پارٹی کے میر کبیر، اشوک کمار جبکہ فاٹا سے اورنگزیب اورکزئی، مومن آفریدی، سجاد طوری اور تاج آفریدی ریٹائر ہو جائیں گے۔اے این پی کی ستارہ ایاز جبکہ جماعت اسلامی کے سراج الحق ریٹائر ہو جائیں گے حکومت کی کوشش ہے کہ الیکشن مارچ میں کروادیے جائیں تاکہ اگلے دو ڈھائی سال حکومت سکون سے عوامی فلاحی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔