سینٹ کے الیکشن کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق انتخابات 3 مارچ میں کرانے کا اعلان کر دیا، 48 نشستوں پر سینیٹ الیکشن کیلئے پولنگ 3 مارچ کو ہو گی 11 مارچ کو 52 سینیٹرز ریٹائر ہو جائیں گے، امیدوار 12 اور 13 فروری کو کاغذات نامزدگی جمع کرا سکیں گے جبکہ 15 اور 16فروری تک کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ہوگی، کاغذات نامزدگی پر اپیلیں 17اور 18فروری کو دائر کی جا سکیں گی،21تاریخ کو امیدواروں کی حتمی فہرست آویزاں کی جائے گی جبکہ 22 فروری کو کاغذات نامزدگی واپس لیے جاسکیں گے یہ وہی الیکشن ہیں جس میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی جاتی تھی نواز شریف اور زرداری ہماری سیاست کے رابن ہڈ بنے ہوئے تھے جنہوں نے ایک کونسلر سے لیکر سینٹ تک اراکین کو خریدنے کی منڈیاں بنا کربے دردری سے لوٹا ہوا پیسہ خریدوفروخت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا عوام کی فلاح وبہبود پر لگنے والا پیسہ انہوں اپنی جیبوں میں ٹھونسااور پھر اسی پیسے کو اراکین کی خریدو فروخت پر لگا رکھا تھا یم کیو ایم کے سابق رکن سندھ اسمبلی محفوظ یار خان نے بھی اسی سلسلہ میں انکشاف کیا تھا کہ 2018 میں نوٹوں سے بھرے بریف کیس مل رہے تھے۔
ایم کیو ایم کی ایک رکن نے گاڑی لے کر اپنا ووٹ بیچا جبکہ دوسرے نے پیسے لئے کلفٹن کے ایک ہسپتال سے بریف کیس مل رہے تھے لوگ سمجھ رہے تھے کہ دوائی لینے آئے لیکن نوٹوں سے بھرے ہوئے بریف کیس لے کر ہسپتال سے چلے گئے سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلتا ہے، بلوچستان میں ووٹ کی قیمت 50سے 70کروڑ ہوگئی ہے ارکان اسمبلی ضمیر کی خرید و فروخت میں ملوث ہیں اراکین اسمبلی کے ویڈیو سکینڈل کے بعد سب سے اہم سوال یہ کھڑا ہو گیاہے کہ جو لوگ خود بک جاتے ہیں، وہ عوام کے حقوق کا تحفظ کیسے کریں گے نوٹوں، لوٹوں، بوٹوں اور جھوٹوں کی سیاست ختم ہونی چاہیے ظالم جاگیردار اور کرپٹ سرمایہ دار طبقہ صرف لوٹ اور جھوٹ کے زور پر قوم پربار بار مسلط ہوئے اور پھر ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا ملک قرضوں میں اور عوام غربت کی دلدل میں دھنستی رہی کسی کو کوئی پراہ نہیں تھی کیونکہ ضمیر نام کی کوئی چیزہی نہ بچی تھی کرپشن کی اس بہتی گنگا میں سبھی نے ہاتھ دھوئے وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جن کے ضمیر زندہ ہوتے ہیں کیونکہ انسان کا سب سے بہترین دوست اُس کا اپنا ضمیر ہوتا ہے جو اچھے کام پر انسان کو شاباش دیتا ہے اور برے کام پر ملامت کرتا ہے اگر انسان برا کام کرنے کے بعد بھی شرمندہ نہیں ہوتا تو سمجھ لو اُس کا ضمیر مر چکا ہے۔
آج ہم اپنے سیاہ کارنامے بڑے شوق سے دوسروں کو سناتے ہیں جبکہ بطور مسلمان ہمیں ایک مثال بن کر دنیا کے سامنے آنا چاہیے مگر کیا کریں ہم تو صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں کیونکہ جہاں اپنا فائدہ دیکھا وہی سب کو بیچ اور خاص کرہمارے حکمرانوں نے تو سب کچھ ہی بیچ ڈالا خود دنیا کے امیر ترین انسان بن گئے اور عوام کی پسماندہ ترین شہریوں میں شامل کروادیایہی وجہ ہے کہ حکومت نے جب سے سینٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے زریعے کروانے کا اعلان کیا ہے تب سے اپوزیشن جماعتوں نے شور شرابہ شروع کررکھا ہے کہ سینٹ کے الیکشن خفیہ رائے شماری سے کروائے جائیں تاکہ ووٹوں کی خریدوفروخت کا کام شروع کیا جائے بیماری کا بہانہ بنا کرملک سے فرار ہونے والے میاں نواز شریف اس وقت غریب عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے خریدے گئے لندن فلیٹس میں رہائش پذیرہیں وہ چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر سینٹ الیکشن میں چھانگا مانگا کی سیاست شروع کی جائے۔
خفیہ رائے شماری میں اراکین کو خریدکر اپنے من پسند امیدوار کو ووٹ دلوائے جائے اور پھر چیئر مین سینٹ اپنی مرضی کا بنوالیں جبکہ اوپن رائے شماری میں میں وفاداریاں تبدیل کرنا ناممکن ہوتا ہے جس طرح میاں نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں پنجاب اسمبلی کے اراکین کو مالا مال کردیا تھا اسی طرح وہ چاہتے ہیں کہ سینٹ اراکین کو بھی نوازا جائے کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ سینٹ جیسے مقدس ادارے کو بھی ہارس ٹریڈنگ کا گڑھ بنایا جارہا ہے میاں نواز شریف افراد کو خریدنے کا بڑا وسیع تجربہ رکھتے ہیں کونسلر سے لیکر اراکین اسمبلی اورپھر سرکاری افسران کو جب چاہیں منہ مانگی قیمت دیکر اپنا بنانے میں ثانی نہیں رکھتے اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ سینٹ الیکشن کو بھی خفیہ رکھا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی کا رزلٹ حاصل کرسکیں اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات 2021کے بعد مرکز میں برسر اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف کا 28نشستوں کے ساتھ پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ)کی سب سے بڑی جماعت بننے کا امکان ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی 19 نشستوں کے ساتھ دوسری اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے 18 نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آ سکتی ہے ایوان بالا میں سینیٹر راجہ ظفرالحق، سینیٹر مشاہد اللہ خان، سینیٹر شبلی فراز اور سینیٹر شیری رحمان سمیت 52 سینیٹرز مارچ 2021میں ریٹائر ہو جائیں گے۔ایوان بالا میں بلوچستان عوامی پارٹی کا 12نشستوں کے ساتھ چوتھی بڑی پارٹی بننے کا امکان ہے۔
سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ کے بعد جمعیت علمائے اسلام ف کی 5اور متحدہ قومی مومنٹ پاکستان کی 3نشستیں ہونے کا امکان ہے۔سینیٹرز کے ریٹائرمنٹ کے بعد عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی دو دو نشستیں رہ جائیں گی۔سندھ سے حکومتی اتحادی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی دو اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی بھی دو نشستیں ہونگی جبکہ پاکستان مسلم لیگ(ق) لیگ کو بھی دو نشستیں ملنے کا امکان ہے جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین مدد سے ہی ممکن ہو سکے گا۔امیر جماعت اسلامی سینیٹرسراج الحق کے ریٹائرمنٹ کے بعد جماعت اسلامی کی سینٹ میں ایک نشست رہ جائے گی۔خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد فاٹا کے حصے میں کوئی نشست نہیں آئے گی۔ فاٹا کی 4 نشستوں پر انتخاب نہ ہونے کے باعث ایوان بالا کی کل نشستیں 100رہ جائیں گی، جس میں سے حکومتی اتحاد کے پاس 49سیٹیں جبکہ اپوزیشن کے پاس 51سیٹیں آنے کا امکان ہے۔
سینیٹ کے 11مارچ کو 52 سینیٹرز ریٹائر ہو جائیں گے۔ سندھ اور پنجاب سے 11، گیارہ اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 12 بارہ سینٹرز ریٹارئر ہو جائیں گے۔مسلم لیگ(ن) کے سب سے زیادہ 17سینٹرز ریٹائر ہوں گے۔ مسلم لیگ(ن) کی پنجاب سے 11اسلام آباد، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے 2 دوسینٹرز ریٹائر ہوجائیں گے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے 7سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے جن کا تعلق سندھ سے ہے۔ایم کیو ایک کے سندھ سے 4سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے، جمعیت علما اسلام ف کے 2سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے جن میں سے1کا تعلق بلوچستان اور 1کا خیبر پختوانخوا سے ہے۔رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے ریٹائر ہونے والے تمام 7 سینٹرز کا تعلق خیبر پختوانخوا سے ہے۔ جماعت اسلامی کے 1، نیشنل پارٹی کے2، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 2 سینیٹرز ریٹائر ہو جائیں گے۔بلوچستان عوامی پارٹی کے 3، بی این پی مینگل کا 1،عوامی نیشنل پارٹی کا 1 سینیٹر ریٹائر ہو جائے گا۔ بلوچستان سے ایک آزاد رکن یوسف بادینی ریٹائر ہو جائیں گے۔فاٹا سے 4 آزاد ارکان اورنگزیب اورکزئی، مومن آفریدی، ساجد طوری اور تاج آفریدی ریٹائر ہو جائیں گے۔ اسلام آباد سے 2 سینٹرز راحیلہ مگسی اور یعقوب ناصر ریٹائر ہو جائیں گے۔مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق، مشاہد اللہ خان، پرویز رشید، یعقوب خان ناصر، راحیلہ مگسی، آغا شاہزیب درانی، عائشہ رضا فاروق، چوہدری تنویر، اسد اشرف، غوث نیازی، کلثوم پروین، صلاح الدین ترمزی، عبدالقیوم، جاوید عباسی، نجمہ حمید، پروفیسر ساجد میر اور سلیم ضیا ریٹائر ہو جائیں گے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹرز رحمان ملک، فاروق ایچ نائیک، گیان چند، اسلام الدین شیخ، سلیم مانڈوی والا، سسی پلیجو اور شیری رحمان ریٹائر ہو جائیں گے۔پاکستان تحریک انصاف کے کینتھ ولیمز، لیاقت ترکئی، محسن عزیز، نعمان وزیر، ثمینہ سعید، شبلی فراز اور ذیشان خانزادہ ریٹائر ہو جائیں گے۔ایم کیو ایم کے عتیق شیخ، خوشبخت شجاعت، محمد علی ایف اور نگہت مرزا جبکہ جمعیت علما اسلام ف کے مولانا عطا الرحمان اور مولانا غفور حیدری ریٹائر ہو جائیں گے۔بلوچستان عوامی پارٹی کے خالد بزنجو، سرفراز بگٹی، منظور کاکڑ اور پی کے میپ کی عثمان خان کاکڑ اور گل بشری ریٹائر ہو جائیں گے۔بی این پی مینگل کے جہانزیب جمال دینی، نیشنل پارٹی کے میر کبیر، اشوک کمار جبکہ فاٹا سے اورنگزیب اورکزئی، مومن آفریدی، سجاد طوری اور تاج آفریدی ریٹائر ہو جائیں گے۔اے این پی کی ستارہ ایاز جبکہ جماعت اسلامی کے سراج الحق ریٹائر ہو جائیں گے حکومت کی کوشش ہے کہ الیکشن مارچ میں کروادیے جائیں تاکہ اگلے دو ڈھائی سال حکومت سکون سے عوامی فلاحی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔