اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سینیٹ الیکشن کی 37 نشستوں کیلئے قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں صبح 9 سے شام 5 بجے تک پولنگ ہوئی جس کے بعد نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے۔
قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں خفیہ بیلٹ کے ذریعے ووٹنگ ہوئی۔ اسلام آباد کی 2 نشستوں، سندھ اسمبلی کی 11، خیبر پختونخوا اور بلوچستان اسمبلی کی 12،12 نشستوں پر امیدوار مدمقابل تھے۔
سنیٹ کی 48 نشستوں پر انتخاب ہونے تھے لیکن پنجاب کی 11 نشستوں پر تمام امیدوار پہلے ہی بلامقابلہ منتخب ہوگئے جس کی وجہ سے 37 نشستوں پر انتخاب ہوئے۔ پنجاب سے تحریک انصاف نے 5، ن لیگ 5 اور ق لیگ نے ایک نشست جیتی تھی۔
اب تک کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق 37 میں سے 33 نشستوں کے نتائج سامنے آچکے ہیں جن میں سے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 11 نشستیں جیتی ہیں، ان میں سے خیبر پختونخوا سے 8 ، سندھ سے 2 اور اسلام آباد سے ایک نشست جیتی ہے۔
پیپلز پارٹی نے 8 سیٹیں جیتی ہیں جن میں سے 7 سندھ سے اور ایک اسلام آباد کی نشست شامل ہے۔
ایم کیو ایم نے دو نشستیں جیتیں اور یہ دونوں نشستیں سندھ سے حاصل کیں۔
اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام نے 2 نشستیں حاصل کیں اور یہ دونوں نشستیں بلوچستان سے جیتیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے ایک نشست بلوچستان سے حاصل کی۔
بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے 6 نشستیں جیتیں اور یہ تمام سیٹیں بلوچستان سے جیتیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی نے سینیٹ کی دو نشستیں جیتیں اور یہ دونوں نشستیں بلوچستان اسمبلی سے حاصل ہوئیں۔
بلوچستان اسمبلی سے ایک آزاد امیدوار عبدالقادر بھی کامیاب ہوئے ہیں جنہیں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی۔
جنرل نشست پر یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوگئے ہیں۔ ریٹرننگ افسر کے مطابق 340 ووٹ کاسٹ ہوئے جن میں سے یوسف رضا گیلانی نے 169 ووٹ حاصل کیے جبکہ حفیظ شیخ نے 164 ووٹ حاصل کیے یوں یوسف رضا گیلانی حفیظ شیخ کو پانچ ووٹوں سے شکست دے کر اسلام آباد سے سینیٹر منتخب ہوگئے۔ ریٹرننگ افسر کے مطابق 7 ووٹ مسترد ہوئے۔
اسلام آباد کی جنرل نشست پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہوئی جس میں اپوزیشن امیدوار سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کامیاب قرار پائے۔ حکومت کی جانب سے دوبارہ گنتی کرائی گئی تاہم دوبارہ گنتی میں بھی یوسف رضا گیلانی کامیاب قرار پائے۔
اسلام آباد سے خواتین کی نشست پر ن لیگ کی فرزانہ کوثر اور تحریک انصاف کی فوزیہ ارشد کے درمیان مقابلہ تھا۔ اس مقابلے میں تحریک انصاف کی فوزیہ نے ارشد نے 174 ووٹ حاصل کیے اور سینیٹر منتخب ہوئیں۔
قومی اسمبلی میں ڈالے گئے ووٹوں کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی کے کہنے پر دوبارہ گنتی کی جارہی ہے۔
بلوچستان میں تمام 65 ارکان نے ووٹ ڈالے، خیبرپختونخوا میں پولنگ سست روی کا شکار رہی اور ایک گھنٹہ تاخیر سے تمام 145 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیے۔ سندھ اسمبلی میں 168 میں سے 167 اراکین نے ووٹ ڈالا، جماعت اسلامی کے رکن عبدالرشید نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔
قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبرچترالی کے سوا تمام 340 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیے۔ بیلٹ پیپر پر دستخط کی وجہ سے شہریار آفریدی کا ووٹ ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔
سینیٹ الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن کے اسٹاف نے اسمبلیوں کا کنٹرول سنبھالا ہوا تھا، قومی اسمبلی کے عملے کا ایوان میں داخلہ بند تھا اور ہال میں صرف الیکشن کمیشن کے عملے اور ارکان ووٹر کو داخلے کی اجازت تھی جب کہ میڈیا کے بھی پریس گیلری میں فون لے جانے پر پابندی عائد تھی۔
پولنگ کے آغاز پر قومی اسمبلی میں ریٹرننگ افسر نے ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق اعلان کیا اور ووٹ مسترد تصور ہونے سے متعلق بھی بتایا۔
ریٹرننگ افسر ظفر اقبال نے کہا کہ خفیہ ووٹنگ کے ذریعے انتخاب ہو رہا ہے ، کوئی بھی شخص ووٹ پر نشان درج نہ کرے ورنہ ووٹ مسترد ہو جائے گا جب کہ دو لوگوں کو پہلی ترجیح دینے پر بھی ووٹ مسترد ہو جائے گا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے ارکان قومی اسمبلی کے لیے ہدایت نامہ لگایا گیا جس میں کسی کو بھی پولنگ اسٹیشن میں موبائل یا کیمرا لے جانے سے منع کیا گیا۔
ہدایت نامے میں کہا گیا کہ پابندی کا اطلاق ووٹر، امیدوار اور پولنگ ایجنٹ سمیت سب پر ہو گا۔
ہدایت نامے میں بتایا گیا ہےکہ ارکان کو بیلٹ پیپر حاصل کرنے کے لیے اسمبلی سے جاری شدہ کارڈ دکھانا ہو گا، عام نشست کیلیے بیلٹ پیپر سفید اور خواتین کی نشست کے لیے گلابی بیلٹ پیپر جاری ہو گا۔
ہدایت نامے کے مطابق بیلٹ پیپر پر ووٹر کی شناخت کا نشان لگنے پر ووٹ مسترد تصور ہو گا۔