تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری سینٹ ممبران کے انتخابات میں جس طرح بھاری رقوم کا استعمال ہوا وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ہر سیاسی قوت نے اپنے اپنے زیادہ سے زیادہ امیدوار کامیاب کروانے کے لیے بھاری سرمایہ خرچ کیا اس سیاسی دنگل میں وہی فاتح ٹھہرے جنہوں نے مہنگے ترین داموں سے”مال خریدا”پہلے بھی ایسے انتخابات میں پیسہ چلنا کوئی اچنبھا بات نہ تھی مگر اس دفعہ تو سیاسی تالاب کی مچھلیوں کا جو ریٹ لگا وہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتااظہر من الشمس ہے کہ سبھی نے دوسرے سے دھوکہ دہی فراڈ سے زیادہ قیمت ادا کی تاکہ” متاع مطلوبہ “حاصل ہو جائے جب سینٹ کے چئیر مین اور ڈپٹی چئیر مین کا انتخابی طبل جنگ بجا تو جناب زرداری اور ان کے اتحادیوں نے تو خوب بھاگ دوڑ کرنا ہی تھی کہ چھ ماہ قبل ہی وہ بلوچستان کی منتخب قیادت کو ہٹا چکے تھے۔ن لیگیے ابھی بلوچستان میں ان کی حکومت ختم ہوجانے کے زخم چاٹ رہے تھے اور ادھر مقدمات کا سامنا اور روزانہ پیشیاں بھگتنی پڑ رہی تھیںاس لیے اس قدر تگ و دو نہ کرسکے جو کہ کانٹے دار مقابلہ کی ضرورت تھی اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ عمران خاں کے لیے اپنی ساکھ بچانے کے لیے بہت راستے موجود تھے مگر وہ چونکہ سیاسی دائو پیچوں سے نا واقف ہیںاس لیے ان کے ساتھ دھوکہ ہو گیااولاً تو جب ان کے 13ممبران سینٹ جیت چکے تھے تو انہیں جلد بازی میں انہیں لے جا کر چیف منسٹر بلوچستان کے حوالے کیے جانے کی کہاں ضرورت پڑ گئی؟وہ سکون آرام سے گھر بیٹھتے کہ انہیں تو کے پی کے اندر مخالفین نے 16ممبران صوبائی اسمبلی خرید کر بڑا نقصان پہنچایا تھاان کے لیے بدلہ چکانے کا موقع آن پہنچا تھا مگر وہ جلد بازی میں سبھی پتے شوکرکے اپنے سیاسی موقف کابھاری نقصان کر بیٹھے ہیں اگر وہ 13ممبران سینٹ کو سنبھال کر بیٹھے رہتے تو سبھی اپوزیشنی قوتوں پر واضح تھاکہ اگر یہ13ووٹ انہیں نہ ملے تو ہار یقینی ہو گی ساری پارٹیاں /گروہ بشمول زرداری صاحب وغیرہ براہ راست یا بالواسطہ رابطہ کرتے تو وہ سبھی کو” ٹھونگا” دکھاتے رہتے۔بالآخر سخت موقف اختیار کرنے کی وجہ سے زرداری صاحب ہوں یا کوئی دوسرا انہیں کہتے کہ بھائی کہ اگر آپ ہمیں ووٹ نہیں دینا چاہتے تو شریفوں کو ہرانے کے لیے ہم ہی آپ کو ووٹ دے ڈالتے ہیںاگر ایسا نہ ہو سکتا تو جب عمرا ن خان صاحب نے بنی گالہ میں اپنے تمام صوبائی اور مرکزی عہدیداروں/راہنمائوں اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ کرکے یہ متفقہ طور پرطے کرلیا تھاکہ پی ٹی آئی نہ تو ن لیگ نہ ہی پی پی پی کا ساتھ دے گی تو کچھ وقت تو اس پر سٹینڈ لیتے کہ اب ان کی بال زرادری اور ان کے ساتھیو ں کی کورٹ میں جا چکی تھی اب انہوں نے اپنی جیت کو لازمی بنانے کے لیے پھر عمران خان کی”ترلے منتیں “کرنا تھیںبالآخراگر وہ پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں کے حق میں فیصلہ نہ کرتے تو بھی چئیر مینی اور ڈپٹی چئیر مینی بلوچستان اور فاٹا کے آزاد امیدواروں کو دینا پڑتیں سب ملکر انہیں ووٹ دیکر کامیاب بنا لیتے اس فیصلہ کو پی ٹی آئی اور زرادری کو قبول کرنا پڑتا وگرنہ سارا “بھان متی”کا”اپوزیشنی کنبہ “اکٹھا ہو کر بھی ہار جاتا ان حالات میں پی ٹی آئی کے دیرینہ سیاسی موقف کے مطابق دونوں امیدواروں کو ووٹ دینے والی قباحت نہ ہوتی ایسا ممکن مرحلہ بھی عمران خان صاحب نے گنوا دیاخود ہی بلوچستان پہنچ کر چیف منسٹر کے ساتھ مشترکہ بیان جاری کر ڈالاکہ ہم بلوچستان کے آزاد امیدوار چئیر مین اور اسی طرح پی پی پی کے امیدوار ڈپٹی چئیر مین کو ووٹ دیںگے تو اس وقت عمران خان “سیاسی خود کشی”فرما رہے تھے ان کے حامی اور پیرو کاروں پر کیا بیتی شاید ان کو توکانوں کان بھی خبرنہ ہوئی ہو گی؟ اگرعمران صاحب دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کو ووٹ نہ دینے کے پارٹی کے متفقہ فیصلے پر قائم رہتے تو آج رسوائی کے دن نہ دیکھنے پڑتے جب یہ اعلان کر چکے کہ ہم بلوچستانی اور پی پی پی کے دونوںامیداروں کو ووٹ دیں گے تو سیاسی کھیل ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا زرداری صاحب جیسے شاطر کھلاڑی نے اس کا بھرپورفائدہ اٹھایاجس کا اظہار سینٹ کے چئیر مین کے انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی”ایک زرداری سب پر بھاری “اور “بھٹو دے نعرے وجن گے”سینٹ کے ہال کی اوپر والی گیلریوں میں گونجے تو عمران صاحب کے لیے”نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن “والا معاملہ تھا۔پی ٹی آئی کے واحد موجود ممبر قومی اسمبلی نے عمران خان کا نعرہ لگانے کی کوشش کی تووزیر اعظم خاقان عباسی کے بیٹے نے ان کا گلہ ہی دباڈالا زرداری کے نعرے گونجتے رہے اور عمران خان نہ تین میں نہ تیرہ میں رہے پھر ساری رات تو زرداری ہائوسز میں جشن منائے جاتے رہے مگر کسی جگہ سے بھی عمران خان کے کارکنوں کو سنگل نعرہ بلند کرتے بھی نہ دیکھا گیا عمران صاحب “اپنی پیڑھی نیچے سوٹا پھیرو”کہ تم نے کیسی بلنڈر کی ہے اب عوام میں “زرداری ایک بیماری”اور “زرداری تمہارے دن ختم ہیں”جیسے نعرے کس زمین پر لگائو گے مزید پاگل پن کا مظاہرہ اب پھر پی ٹی آئی کرنے چلی ہے کہ اخلاقاً قانوناً آئینی طور پرتو قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلاف جن پارٹیوں کے ووٹ سب سے زیادہ یا دوسرے نمبر پر ہوں انہی کا بنا کرتا ہے “سیاسی گندے تالاب” سے جلد بازی بغیرسوچے سمجھے و مشاورت کے مچھلیاںپکڑنے چلے ہیںنتیجہ حق میں نہ نکلا تو مزید وقار مجروح ہوگااپنے شدید چاہنے والے کارکنوں کو اتنا تو مایوس نہ کرو کہ وہ سبھی گھر بیٹھ جائیں اور آمدہ2018کی انتخابی جنگ کا آپ نہ چاہتے ہوئے بھی نقصان کر بیٹھیں ایم کیو ایم نے تو نچلا ووٹ نہ دیکر اپنی رہی سہی ساکھ بچالی مگر آپ ایسا بھی نہ کرسکے مگر “سمجھے ہوئوں کو کون سمجھائے۔