تحریر : عقیل خان لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے جبکہ میں کہتا ہوں کہ پاکستان تو ترقی یافتہ ملکوں سے بھی کہیں آگے نکل چکا ہے۔ کہنے کو تو ہم لوگ غیر ملکی امداد پر چل رہے ہیں لیکن یہ سفید جھوٹ ہے کیونکہ جس ملک کے سیاستدان سینٹ کے الیکشن میں سیٹ کے لیے صرف ایک ووٹ کی خاطر کروڑوں روپے دے سکتے ہیں تو بھلا وہ ملک دوسرے ممالک کی امداد پر کیسے چل سکتا ہے ؟ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان کی عوام غریب اور مسائل سے دوچار ہے جبکہ پاکستان کے سیاستدان جو عوام سے ہمدردی کا نعرہ لگاتے ہیں، الحمد اللہ یہ سب عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے مالامال ہیں۔ عوام یہ پڑھ اور سن کر ہنستی ہے کہ فلاں سیاستدان کی کوئی جائیداد نہیںیا اس کی جائیداد میں صرف ایک رہائشی گھر ہے۔ ہمارے لیے یہ اس دن کا سب سے مزاحیہ لطیفہ ہوتا ہے۔ اس دور میں جب یونین کونسل کا الیکشن لڑنے کا خرچہ عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا ۔ جبکہ ایم این اے یا ایم پی اے کے الیکشن میں لو گ بڑی بڑی گاڑیاں اور بڑے بڑے قافلے استعمال کرتے ہیں پھر اپنے مخالف کو شکست دینے کے لیے ووٹ خریدنے کے لیے پیسے دینے پڑے تو اس بھی دریغ نہیں کرتے۔بھلا ہم کیسے یقین کرلیں کے اُس ایم این اے کے پاس گھر یا جائیداد نام کی کوئی چیز نہیں۔
حالیہ سینٹ الیکشن میں سرعام میڈیا کے اوپر اسی قسم کا چرچہ رہا ہے کہ سینٹ کے الیکشن میں ووٹ کے لیے کروڑوں روپے تقسیم کیے جارہے ہیں۔ ہر سیاستدان ہارس ٹریڈنگ کا رونا رو رہا ہے مگر یہ نہیں پتہ کہ ہارس ٹریڈنگ کر کون رہا ہے۔کون بک رہا ہے اور کون خریدرہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ اتنی رقم ان تقسیم کرنے والوں کے پاس آئی کہاںسے؟ اگر یہ رقم فلاحی کاموں کے لیے فنڈ کی آڑ میں دی گئی تو پھر اتنے عرصہ سے ان سیاستدانوںنے عوام کے حق پرکیوں ڈاکہ ڈالے رکھا؟ کیا یہ فلاحی کام اب ہی ان لوگوں کو نظر آئے ہیں ؟ پچھلے کئی سال سے ان کو کیوں نظر انداز کیے رکھا ؟ عوام بے چاری اپنے مسائل کے لیے روتی پھر رہی ہے اور یہ سیاستدان صرف زبانی کلامی خرچ کر رہے ہیں۔
پاکستان کے سیاستدان جتنا زیادہ اپنا خرچہ بڑھائیں گے اس کا اتنا ہی زیادہ نقصان عوام کو اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ وہ خرچ عوام کو ٹیکس کی مد برداشت کرنا پڑتاہے۔آپ خود دیکھ لیںپاکستان کے شہروں میں بجلی تو صرف 14سے 16گھنٹے تک نہیں ہوتی مگر بجلی کا بل 24گھنٹے کی بجلی سے بھی کہیں زیادہ آتا ہے ۔ اس کے علاوہ اگر آمدن کی طرف نظر ڈالی جائے تو پاکستان کے ملازمین کے تنخواہ میں اضافہ سال میں ایک بار ہوتا ہے اور وہ بھی 10سے 15فیصد تک اور وہ بھی بنیادی پے سکیل پر جبکہ استعمال کی چیزوں میں اضافہ ہر ماہ کیا جاتا ہے اور اگر اس کی سال کے آخر میں ایوریج نکالیں تو یہ سالانہ اضافہ 50سے 60فیصدتک بنتا ہے ۔اس سے اندازہ لگا لیں کہ اخراجات میں زیادہ اضافہ ہوا یا آمدن میں؟
Senate
اس وقت سینٹ الیکشن کے لیے سیاسی پارٹی بڑی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے پیکج کررہی ہیں۔ سیاستدان صبح شام ایک دوسرے سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اتحاد بن رہے ہیں۔ کل تک ایک دوسرے کے خلاف بولنے والی جماعت ایم کیو ایم اور پی پی نے درمیانی راہ (سمجھدار کے لیے اشارہ کافی) نکال کر اپنے اپنے دو ،دو سینٹر بلا مقابلہ منتخب بھی کرا لیے ہیں۔ اب کوئی ان جماعتوں سے پوچھے کل تک تو سندھ حکومت چھوڑ کر ایک دوسرے کے خلاف محاذ تیار کررکھے تھے اور آج ایک دوسرے کے گلے لگ کر اپنا الو سیدھا کرلیا۔ پاکستان کی آبادی تو کروڑوں پر مشتمل ہے اس سے کرپشن ختم کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں مگر یہ سیاستدان پہلے اپنے اندر سے تو کرپشن ختم کرلیں جو ایک ووٹ کے لیے کروڑوں روپے کا سودا کرتے ہیں۔ یہ انگلیوں پر گنتی کے ممبرز ہوتے ہیں مگر پھر بھی کرپشن کا رونا رویا جارہا ہے۔ جو سیاستدان اپنے اندر کی کرپشن ختم نہیں کرسکتے وہ ملک کے اندر کیسے کرپشن ختم کرسکتے ہیں؟
اے حکمرانو ذرا سوچو ! عوام تو ہر حال میں تمھارے ساتھ چلتی ہے اور تمھارے دکھائے ہوئے خوابوں کو حقیقت سمجھ بیٹھتی ہے اور ایک نئی امید لگا کر تمھارے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے مگرتم لوگ ہمیشہ اس کے ساتھ دھوکہ کرجاتے ہویہاں تک کہ جب ملک پر کوئی برا وقت آیا تو اس عوام نے دل کھول کرتمھار ا ساتھ دیا ۔ قرض اتارو ملک سنوارو پروگرام ہو یا شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر ،سیلاب زدگان کی مدد ہو یا زلزلہ زدگان کا دکھ ، پاکستان کی عوام نے دل کھول کر اس میںنہ صرف چندہ دیابلکہ ہماری ماں بہنوں نے اپنے زیور تک ان کو دے دیے۔
کیا یہ حکمران کبھی عوام کی طرف سچے دل سے سوچیں گے؟ کیا عوام کی پریشانیاں حکمران سمجھ سکیں گے؟ کیا یہ سیاستدان عوام کے دلوں میں اپنا اعتبار ، بھروسہ اور اعتماد پیدا کرسکیں گے؟ کیونکہ اب تو سیاست کا مطلب ہر شخص جھوٹ سمجھتا ہے بلکہ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کسی سے وعدہ کرتا ہے تودوسرا شخص اس سے کہتا ہے کہ یہ سیاسی بیان تو نہیں؟اس بات سے آپ اندازہ لگالیں کہ سیاست کو لوگ کس طرح سمجھتے ہیں؟ میں تو یہ ہی دعا کروں گا کہ اللہ پاکستان کے حکمرانوں کو ہدایت دے کہ وہ اپنی عوام کے حالات کو سمجھ سکیں اور ان کے دکھ کواپنا دکھ سمجھ کر ان کی خدمت کر سکیں۔