تحریر : میر افسر امان ملک کے موجودہ حالات کے تناظر ،جس میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو دو دفعہ نا اہل قرار دیا اور نواز شریف نے عدلیہ اور فوج کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ کرپشن میں سزا پانے کے بعد کبھی کہتے ہیں مار شل لا لگنے والا ہے۔ توکبھی کہتے ہیں سازشیں ہو رہی ہیں۔ہم شروع سے لکھتے آئے ہیںکہ ملک میں جمہوریت ہی رہے گی۔ ہاں شاید اللہ نے اس ملک مثل مدینہ پر اپنا کرم کرتے ہوئے کرپشن ختم کو کرنے کا راستہ کھول دیا ہے۔ اب نواز شریف یا اورکسی کی بھی کرپشن نہیں چلے گی۔ عوام ملک میں کرپشن کے وجہ سے پریشان ہیں۔اس وقت کرپشن فری پاکستان کے لیے ملک کے دو اہم اداروں یعنی فوج اور عدلیہ نے اپنا رول ادا کرنا شروع کیا ہوا ہے۔فوج نے چار بار اقتدار پر قبضہ کر کے دیکھ لیا کہ دنیا میں جمہورت کا ہی راج ہے۔ دنیا کے اس جمہوری دور میںمار شل لا کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ فوج کے سیاست میں دخل نہ دینے کا سب سے پہلے(ر)جنرل پرویز کیانی کو کریڈٹ جاتا ہے ۔جنہوں نے اپنے دور سپہ سالاری میں آئی ایس آئی کے چیف کو قومی اسمبلی میں بھیجا تھا۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ آئی ایس آئی نے سیاسی ونگ کو ختم کر دیا ہے۔ فوج ملکی سیاست میں کبھی بھی دخل نہیں دے گی۔ اُس کے بعد فوج کے ہر عمل نے پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کیا۔ہم نے اُس وقت کالم لکھا تھا کہ” ملک کی سیاسی تاریخ کا صحیح فیصلہ” ۔ جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے پاکستان کی عدلیہ کے نظریہ ضرورت کے فیصلوں کو بھی عوام میں حمایت نہیں ملی۔ سیاست دان بھی اس پر مسلسل اعتراض کرتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی میںعدلیہ کے سابق چیف جسٹس صاحب نے پیپلز پارٹی کے خلاف بڑے بڑے فیصلے سنائے۔
پیپلز پارٹی کے دو وزیر اعظموں کو فارغ کیا۔ ملک کی ایک بڑی دہشت گرد ،لسانی ،علاقائی اور فاشست پارٹی ایم کیو ایم نے سیاست کی آڑ میں ملک میں دہشت گردی مچا رکھی تھی۔ کراچی میں ١٢ مئی کی دہشت گردی کا کیس سننے والی عدالت کو ایم کیو ایم نے اپنے دس ہزار دہشت گردبھیج کر گھیر لیا اور مقدمہ نہیں سننے دیا۔کراچی میں قتل و غارت،متشددہڑتالیں کرائیں اور دہشت پھیلائی۔ ١٩٩٢ء کے ایکشن میں حصہ لینے والے سارے کے سارے پولیس اہل کاروں کو ایک ایک کر کے شہید کر ڈالا۔ پولیس اور دیگر اداروں میں اپنے کارکنوں کو داخل کر دیا ۔عدالتوں، ایڈمنسٹریشن، میڈیا اور قانون کو مفلوج کرنے کی کوشش کی۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاسی حکومتوں نے ایم کیو ایم کو کھلی چھٹی دی۔ اس پرسابق چیف جسٹس چوہدری افتخار صاحب نے از خود نوٹس لے کر ایم کیو ایم کو قانون کے شکنجے میں کسا۔ اس کے بعد فوج نے کراچی میں امن قائم کیا۔ کئی دہایوں سے ملک پر حکومت کرنے والی دو سیاسی پارٹیوںپیپلزپارٹی اور نون لیگ نے پاکستان کے اداروں میں اپنے اپنے آدمی داخل کیے۔
انہوں نے عوام کی خدمت کے بجائے اس پارٹیوں کے سربراہوں کی کرپشن سے صرف نظر کیا۔ نیپ کے سابق سربراہ نے زرداری کے کیس یہ کہتے ہوئے داخل دفتر کر دیے کہ فوٹو اسٹیٹ کاغذات پر کیس نہیں چلا سکتے۔ اس پر ہم نے کالم لکھا تھا کہ کیانیب نے کاغذات جلانے والوں کے خلاف مقدمات قائم کیے؟ اسی طرح نواز شریف کے دوران حکمرانی میں پارلیمنٹ کی کمیٹی نے ملک کے کرپشن پکڑنے والے اداروں کے سربراہوں کو بلایا تھا اور کرپشن نہ پکڑنے کی وجہ معلوم کی۔ تو انہوں نے بھی معذوری ظاہر کی تھی۔
پاناماکیس سنتے ہوئے پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی ر یماکس دیے تھے کہ ملک کے ادارے کرپشن پکڑنے میں فیل ہو چکے ہیں۔ اللہ کا کرنا کہ آف شور کمپنیاں سامنے آئیں۔ عدلیہ نے ملک کی بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ کوکرپشن میں آئین کے مطابق نا اہل قرار دیا۔دو تہائی اکثریت رکھنے والی پر نون لیگ کے ممبران پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک طرف رکھتے ہوئے آئین پاکستان کے خلاف عمل کرتے ہوئے ایک نا اہل شخص کونا اہل قرار دے کر اپنے پارٹی کا صدر بنا دیا۔
چیف جسٹس نے تو ملک کی سب سے بڑی پارٹی جس کو اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کے خلاف فیصلہ دے کر ملک میں انصاف کا بول بالا کر کے ملک کے غریب عوام کی اکثریت کے دل جیت لیے۔ اس پر نواز شریف نے اپنی کرپشن چھپانے کے لیے ملک میں افواہوں کا بازار گرم کیا۔ کہا کہ ملک میں الیکشن نہیں ہوں گے۔ مارشل لا لگے گا۔ ہمارے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ مگر ان کی نا اہلی کے بعد ان ہی کی جماعت نے نیا وزیر اعظم چن لیا اور جمہوریت چلتی رہی۔ اب ایوان بالا میں اقتدار حاصل کرنے کے کوششیں شروع ہو گئیں۔
وقت پر سینیٹ کے انتخابات ہوئے۔ اس کے کچھ ماہ بعد عام الیکشن بھی ہو جائیں گے۔ جو بھی سیاسی الیکشن جیتے گی وہ حکومت بنائے گی۔ جمہوریت چلتی رہے گی۔ البتہ اب کرپشن نہیں چلے گی۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ اس پر ہر صورت قابو پایا جانا چاہیے۔ جس کی ابتد ہو چکی ہے۔حکمران خاندان کے خلاف نیب میں مقدمے چل رہے ہیں ان کا جلد فیصلہ آنا چاہیے ۔ جس نے بھی عوام کے خزانے سے پیسہ لوٹا ہے۔ اس سے عوام کا پیسہ وصول کر واپس عوام کے خزانے میں جمع کرانے کے لیے سپریم کورٹ کو آڈر کرنے چاہییں۔
کرپشن ثابت ہو تو اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ ملک میں چاہے کوئی کتنے بھی بڑے عہدے پر فائز ہو اور اگر کرپشن کی ہو تو اس کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔ اب بھی سینیٹ کے انتخابات میں سب سے زیادہ ١٧ممبرانِ سینیٹ نون لیگ کے جیتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی نے ١٢ سیٹیں جیتیں۔تیسرے نمبر پر پی ٹی آئی ہے۔فاٹا میں ٤ ممبران سینیٹ جیتے۔اس طرح نون لیگ کا پروپیگنڈ نا کام ہوا۔ سینیٹ کی خالی ہونے والی ٥٢ نشتوں پر ا١٧ امیدوار میدان میں آئے تھے۔صوبہ پنجاب میں ١٢ سیٹوں، صوبہ بلوچستان میں ١١ سیٹوں،خیبر پختونخواہ میں ١١سیٹوں ، سندھ اسمبلی کی١٢ سیٹوں،اسلام آباد کے لیے ٢ سیٹوں اور فاٹا کے لیے ٤ سیٹوں کے لیے ٢٠١٨ء سینیٹ کے انتخابات ہوئے جو احسن طریقے سے مکمل ہو گئے۔
صاحبو! سینیٹ کے ٢٠١٨ء انتخابات میں جس طرح خرید فروخت ہوئی وہ جمہورت کے لیے نیک شگون نہیں۔فارق ستار نے پیپلز پارٹی پر ان کے ١٤ممبران کے ووٹ خریدنے کا الزم لگایا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ ان کو سینیٹ کی ایک سیٹ کے لیے ٤٠ کروڑ روپے پارٹی فنڈ میں دینے کی پیش کش کی گئی۔یہ ہماری سیاست میںاخلاقی زوال ہے۔ عوام نے اپنے نمائندوں فروخت ہوتے ہوئے دیکھے۔ اس لے دوسرے ملکوں کی طرح سینیٹ کے انتخابات بھی برائے راست ہونے چاہییں۔