اسلام آباد (جیوڈیسک) سینیٹ میں حکومت کے کچھ اتحادیوں نے بدھ کے روز حزبِ اختلاف کے ساتھ ہم آواز ہوتے ہوئے وفاقی بجٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کل سینیٹ میں زیادہ تر مقررین نے بجٹ کو غریبوں کے لیے مایوس کن قرار دیا۔ تین جون کو پیش کیے جانےوالے بجٹ پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے ان سینیٹروں نے مطالبہ کیا کہ اس کی منظوری میں پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کو بھی اہم کردار دیا جانا چاہیٔے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حاجی محمد عدیل نے سوال کیا ’’اگر پارٹی کی فہرست پر قومی اسمبلی میں آنے والی ساتھ خواتین کو بجٹ پاس کرنے کا حق دیا جاسکتا ہے تو آخر ہمیں یہ حق کیوں نہیں دیا جاتا؟‘‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ پنجاب خیبر پختونخوا کا پانی غیرقانونی طریقے سے استعمال کررہا تھا، اور یہی نہیں بلکہ پنجاب کے حکام نے 76 ارب روپے بطور آبیانہ بھی وصول کیا تھا۔ حاجی عدیل نے کہا کہ پچھلی حکومت نے خیبر پختونخوا کے عوام کے لیے انکم ٹیکس میں چھوٹ کی اجازت دی تھی، جسے موجودہ حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی دشمنی کی وجہ سے واپس لے لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے کے عوام کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران سب سے زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔ اگر ہم جنگ ہار جاتے ہیں، ہم بھی داڑھیاں بڑھا کر طالبان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے یا آئی ڈی پیز بن کر نقلِ مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔
انہوں نے وزیرخزانہ سے کہا کہ پشاور میں پانی کی فراہمی کی اسکیم کے لیے رقم مختص کی جائے۔ اس شہر کے پانی میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔ جب آپ اس صوبے میں آئیں گے تو ہم آپ کو یہ زہریلا پانی پیش کریں گے۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹى کے عبدالرؤف نے کہا کہ بجٹ میں غریبوں کے آرام کے لیے کچھ بھی شامل نہیں کیا گیا، باوجود اس کے کہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے یہ تسلیم کیا تھا کہ ملک کی نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
’’اس بجٹ سے امیروں کو ہی پھل میسر آئے گا، جبکہ اس میں غریبوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ یہ بات سینیٹر عبدالرؤف نے کہی جن کی پارٹی حکمران اتحاد میں شریک ہے۔ انہوں نے خبرادر کیا کہ بلوچستان میں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے مستقبل میں بڑے پیمانے پر عوامی انخلاء عمل میں آسکتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے صوبے کے ہر ضلع میں کم از کم دو ڈیم تعمیر کیے جائیں۔