تحریر : ساحل منیر پاکستان کے قانون ساز اداروں میں طویل عرصے سے زیرِ التوا ہندو میرج بل بالآخر کار منظور کر لیا گیا۔ہندو برادری کی شادی اور اس حوالے سے دیگرخانگی معاملات میں درپیش مختلف قانونی و سماجی مسائل کے تناظر میں یقینناً یہ ایک مثبت پیش رفت ہے جس کا ہندو کمیونٹی نے بھر پور خیر مقدم کیا ہے۔پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سینیٹ سے منظوری کے بعداب ملک بھر میں ہندو برادری کے شادی بیاہ کی باقاعدہ رجسٹریشن و تحفظ کا پہلا قانون متعارف کرادیا گیا ہے جو صدرِ مملکت کے دستخط کے بعد پورے ملک میں نافذ العمل ہو جائے گا۔اس قانون کی رو سے ہندو کمیونٹی کی شادی کی دستاویز پرپنڈت کے دستخط ہونگے اورحکومت کا متعلقہ محکمہ اس کو باقاعدہ رجسٹر کرنے کا پابند ہو گا۔لہذا اس قانون کے نفاذ سے ہندو مرد و خواتین کو شادی کا دستاویزی ثبوت حاصل ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ہندوئوں کی شادیوں کو رجسٹر نہیں کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے ہندو برادری میں شدید عدمِ تحفظ پایا جاتا رہا ہے۔
پاکستان میں ہندو برادری کی شادی و نکاح کی باقاعدہ رجسٹریشن سے متعلق قوانین نہ ہونے کی وجہ سے ان کو کسی قانونی دستاویز سے ثابت نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اگر کوئی شادی شدہ ہندو عورت اپنے پہلے نکاح کے باوجود کِسی دیگر شخص کی زوجیت میں چلی جاتی یا اغواء و جبری تبدیلیء مذہب کا شکار ہوکراپنی آزاد مرضی کے بغیرکِسی کی منکوحہ بنا دی جاتی تو اس کے پہلے شوہر کے پاس کوئی ایسا قانونی ثبوت نہ ہوتا جِس سے وہ اس عورت کو اپنی بیوی ثابت کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کر سکتا۔۔
علاوہ ازیں کمپیوٹر شناختی کارڈ میں زوجیت کے اندراج،نادرا میرج سرٹیفیکیٹ اور دیگر لاتعداد مواقع پرلازمی شادی و نکاح ثبوت مہیا کرنے میں ناکامی پر پاکستان کی ہندو برادری کو جِس اذیت و پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا اسے صِرف یہ محروم و پسماند ہ مذہبی اقلیت ہی محسوس کر سکتی ہے۔کِسی بھی حکومت نے ملک کی ایک قابلِ ذکر اقلیت کو درپیش اِس سنگین مسئلہ کے حل کے بارے میں کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا۔
Pakistan Senate
عدالت عظمیٰ نے بھی ہندو شادیوں کی رجسٹریشن کے بارے میں بارہا احکامات صادر کئے۔ چنانچہ اِس حوالے سے ہندو برادری نے ہمیشہ اپنے تحفظات کا اِظہار کرتے ہوئے مناسب قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔اِس سِلسلہ میں سال 2014ء میں ہندو اراکینِ قومی اسمبلی کی طرف سے ایک پرائیویٹ بِل پیش کیا گیا جو التواء کا شکار ہو گیا۔بعد ازاں موجودہ حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں ہندو میرج بِل 2015ء کی پیش رفت ہوئی جِسے منظور کر لیا گیا ۔اِس بل میں ہندو شادی کی لازمی رجسٹریشن ، علیحدگی ، دوبارہ شادی اور شادی کی عمرکم ازکم 18 سال کرنے کی حوصلہ افزاء شقیں شامل ہیں۔
قبل ازیں ہندو کمیونٹی کی طرف سے اکثر و بیشتر ملک بھر بالخصوص سندھ میں ہندو عورتوں کے جبری تبدیلیء مذہب کے واقعات کی شکایات سننے کو مِلتی رہی ہیںاوراِس بابت 2014ء میں پیش کئے جانے والے پرائیویٹ بِل میں اِس امر کی خصوصی طور پر نشان دہی کی گئی تھی۔ ایک طویل جدوجہد کے بعدایوانِ بالا سے اس بل کی منظوری پرہندو برادری کے سرکردہ رہنما ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے پارلیمینٹیرینز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون زبردستی تبدیلیء مذہب کی حوصلہ شکنی کرے گا اور ہندو کمیونٹی کے لئے کار گر ثابت ہو گا۔
کیونکہ اس بل کی منظوری سے قبل ایک ہندو عورت کے لئے دشوار تھا کہ وہ اپنے شادی شدہ ہونے کا کوئی ثبوت پیش کر سکے جو کہ جبری تبدیلیء مذہب کے معاملات پر اثر انداز ہوتا تھا۔ڈاکٹر رمیش کمار سمیت ملک بھر کی ہندو برادری کی جانب سے ہندو میرج بل 2017ء کی منظوری پر اظہارِ مسرت بلا شبہ ایک حوصلہ افزاء امر ہے اور امید کی جاتی ہے کہ اس مثبت پیش رفت سے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے مسائل و مشکلات کے حوالے سے ایک صحت مندانہ مکالمہ فروغ پائے گا۔