اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا سینیٹ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں عربی زبان کی لازمی تعلیم کا بل 2020ء منظور کر لیا ہے۔
سینیٹ میں یہ بل پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر جاوید عباسی نے پیش کیا تھا اور اس کو قریباً تمام ارکان نے اتفاق رائے سے منظور کیا ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضاربانی نے اس بل کی مخالفت کی اور اس کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اس بل میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے اسکولوں میں پہلی سے پانچویں جماعت تک عربی پڑھائی جائے گی اور چھٹی سے بارھویں جماعت تک عربی گرامر پڑھائی جائے گی۔ اب متعلقہ وزارت تعلیم چھے ماہ کے عرصے میں اس بل پر عمل درآمد کرے گی۔
سینیٹر جاوید عباسی نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’عربی دنیا کی پانچویں بڑی بولی جانے والی زبان ہے اور یہ 25ممالک کی سرکاری زبان ہے۔عربی سیکھنے سے مشرقِ اوسط میں پاکستانیوں کے لیے ملازمتوں کے مزید دروازے کھل سکتے ہیں۔اس طرح ملک میں بے روزگاری میں کمی واقع ہوگی اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوگا۔
انھوں نے کہاکہ قرآن مجید کی زبان عربی ہے اور پنج وقتہ نمازیں بھی عربی میں ادا کی جاتی ہیں۔اگر ہم قرآن مجید کو سمجھتے ہوتے تو ہمیں ان مسائل کا سامنا نہیں ہوتا جو اس وقت ہمیں درپیش ہیں۔
سینیٹر جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ ’’وہ مختلف زبانوں کی تدریس کے حق میں ہیں۔روسی ، ہسپانوی اور انگریزی زبان کی تعلیم کے حق میں ہیں۔کسی نے کبھی انگریزی پڑھانے پر اعتراض نہیں کیا اور یہ کہا ہوکہ انگریزی نہیں پڑھائی جانی چاہیے۔‘‘
پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے سینیٹر جاوید عباسی کے مؤقف کی تائید کی اور کہا کہ حکومت اس بل کی دوٹوک انداز میں حمایت کرتی ہے کیونکہ دستور کی دفعہ 31 میں یہ کہا گیا ہے کہ قرآن وسنت کے مطابق زندگیاں گزارنے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہییں۔
ان کے بہ قول ایک اچھا مسلمان بننے اور اللہ کا پیغام سمجھنے کے لیے عربی زبان سیکھنا ضروری ہے۔جمعیت العلماء اسلام کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’عربی جنت کی زبان ہے،عربی سیکھنے سے قرآن مجید کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘‘
ایوان میں سینیٹر رضا ربانی نے اس بل کے بارے میں اپنے مخالفانہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے ریاست اسلام کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
انھوں نے الزام عاید کیا کہ ’’ریاست پاکستان کے کثیرثقافتی اور کثیرلسانی تنوع کو عربی ثقافت درآمد کرکے ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’عربی کلچر میرا نہیں بلکہ وادیِ سندھ کی تہذیب میرا کلچر ہے۔اس بل کے ذریعے عربی کو علاقائی زبانوں پر ترجیح دی جائے گی۔‘‘ان کے بہ قول ’’عربی کااسلام یا قرآن مجید سے کوئی تعلق نہیں سوائے اس کے کہ قرآن اس زبان میں اُترا تھا۔ہمیں مسلمان ہونے کے لیے کسی سے کوئی سرٹی فکیٹ لینے کی ضرورت نہیں۔‘‘