تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم بڑے ایوان کی بڑی سیٹ کے لئے بڑا مقابلہ بڑی پارٹیوں کے درمیان بڑا دلچسپ، بڑا کانٹے داراور بڑا اپ سیٹ رزلٹ لے کر سامنے آیا تو بڑے بڑوں کی بولتیاں بند ہو گئیں کیونکہ حکمران جماعت کے بڑے بڑے رہنما ئوں کے بڑے بڑے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ایک طرف حکمران جماعت کے پینل کو بڑی شکست اور خفت کا سامنا کرنا پڑ اخواب چکناچور ہوئے انتخابات سے قبل حکومتی درباری اپنے پینل کی کامیابی و کامرانی کے لئے بہت پر امید تھے لیکن پاناما لیگ اور سلطنت عباسیہ کے پینل کے چاروں شانے چت ہونے پر ان کے جھوٹے اور کھوکھلے دعووں کی قلعی کھول دی اور ان کے کیمپ میں صف ماتم بچھ گئی دوسری جانب ”مفاہمتی جادو گر” آصف علی زرداری نے اپنی جادو گری کے کارڈ بڑی خوبصورتی اور مہارت سے کھیلتے ہوئے پی پی پی کے حمایت یافتہ پینل کو جتوا کر ثابت کردیاکہ” ایک زرداری ،سب پہ بھاری”ہے الیکشن سے قبل ہی زرداری نے واشگاف الفاظ میں بتادیا تھا کہ ہم کسی صورت حکمران جماعت کو سینیٹ چیئر مین کی نشست جیتنے نہیں دیں گے بڑا معرکہ سر کرنے کے لئے مفاہمت کے شہنشاہ نے ایک عمدہ حکمت عملی سے سیاسی چالیں چلیں سینیٹ انتخابات سے قبل بلوچستان کی حکومت کی تبدیلی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختون خواہ سے پی پی کی کامیابی نے جہاں حکمرانوں کی نیندیں اڑائیں وہاں دن میں تارے بھی دکھا دیئے۔
نمبر گیم کے کھیل می ںشطرنج کے مہرے اپنے ہمنوا بنا لئے یہی وجہ تھی کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا نام بطور نئے چیئرمین حمایت کا اعلان کرکے پی پی پی میں انتشار پھیلانے کا کارڈ کھیلنے کی کوشش کی لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اگر حکومت کے ہاتھ میں نمبر گیم ہوتی توکبھی بھی ”ربانی کارڈ”نہ کھیلتے ۔۔ سابق صدرپاکستان جسے چیئر مین سینیٹ کی نشست پہ دیکھنے کے خواہش مند تھے وہ صاحب اس نشست پہ تو براجمان نہ ہو سکے البتہ ڈپٹی چیئر مین ضرور بن گئے زرداری نے ترپ کا جو پتہ کھیلا اس کا فائدہ وفاق کو ہوا انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ”مفاہمتی سیاست ”کے داعی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جہاندیدہ لیڈر بھی ہیں ملکی حالات اور بلوچستان کی احساس محرومی کے تناظرمیں چھوٹے صوبہ سے سینیٹ چیئرمین کی حمایت کرکے بلوچستان کے باسیوں کے لئے ایک اچھا پیغام دیا اس کے اثرات آنے والے انتخابات میں نظر آئیں گے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بلوچستان سے سینیٹ کا چیئر مین لاکر ایک نئی تاریخ رقم کی گئی نئی تاریخ رقم کرنے میں پی پی پی ،پی ٹی آئی ،ایم کیو ایم ،آزاد اور فاٹا اراکین نے اہم کردار ادا کیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں سینیٹ کے اہم اجلاس میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہوا۔ چیرمین سینیٹ کے عہدے کے لئے سابق آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کے اوپننگ بلے باز مسلم لیگ (ن) اور ان کے اتحادی جماعتوں کے امیدوار راجہ ظفرالحق اور اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار صادق سنجرانی میں مقابلہ ہوا جب کہ ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کے لئے مسلم لیگ (ن) اور ان کی اتحادی جماعتوں کے امیدوار عثمان کاکڑ اور اپوزیشن جماعتوں کے سلیم مانڈوی والا آمنے سامنے تھے اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار صادق سنجرانی نے مسلم لیگ (ن) اور ان کے اتحادی جماعتوں کے امیدوار کے مقابلے میں 57 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جب کہ راجہ ظفر الحق کو 46 ووٹ ملے۔دوسری جانب ڈپٹی چیرمین کے انتخاب کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار سلیم مانڈوی والا نے 54 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔
جب کہ مسلم لیگ (ن) اور ان کے اتحادیوں کے امیدوار عثمان کاکڑ کو 44 ووٹ ملے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی کو پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، فاٹا اراکین اور ایم کیو ایم کی حمایت حاصل تھی خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہونے والے انتخاب میں 103 سینیٹرز نے اپنے ووٹ کاسٹ کیے صادق سنجرانی کو 57 جبکہ ان کے مدمقابل حکومتی اتحاد کے امیدوار راجا ظفر الحق صرف 43 ووٹ حاصل کر پائے اپوزیشن پینل کی کامیابی سے ایوان بالا بھٹو ،بے نظیراور زرداری کے نعروں سے گونج اٹھابلوچ قبیلے سنجرانی سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی 14 اپریل 1978 کو بلوچستان کے قیمتی معدنیات سے مالامال ضلع چاغی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم آبائی علاقے نوکنڈی سے حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے اسلام آباد منتقل ہوگئے جہاں سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی سیاسی کیریئر کا آغاز پاکستان مسلم لیگ (ن)کے پلیٹ فارم سے کیا اور 1998 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے معاون کے طور پر کام کیا اور 1999 میں جنرل مشرف کے مارشل لا ء تک اسی عہدے میں رہے۔
بعد ازاں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے قریب آئے اور پارٹی کے شکایات سیل کے انچارج مقرر ہوئے جہاں وہ پانچ سال تک عہدے میں رہے بعد ازاں 2008ء میں اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا صادق سنجرانی نے بلوچستان کے سابق وزیراعلی نواب ثنااللہ زہری کے ساتھ خصوصی اسسٹنٹ کے طور پہ بھی کام کیا نومنتخب چیئرمین سینیٹ کا عوامی سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا سابق صدرمملکت سے آصف علی زرداری سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔
سینیٹ کے بڑا معرکہ کی بڑی شکست نے حکمران جماعت کے درباری ،حواری اور اتحادی جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار ہیں ہواس باختہ ہوگئے رونا دھونا شروع کر دیا گیا شکست کے زخم اتنے گہرے لگے کہ نیندیں اڑگئیںمریم نوازاس شکست پہ سیخ پا ہوتے ہوئے فرماتی ہیں ”تم جیتے نہیں، تمہیں بدترین شکست ہوئی ہے،ذراعوام کے سامنے تو آو”۔مزید کہتی ہیں ”زرداری اور امپائر کی انگلی کا بیوپاری،تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے”۔مریم اورنگ زیب تلملا اٹھیں”آج کچھ لوگوں کابھیانک چہرہ کھل کرسامنے ا یا ہے، ایک دوسرے کو چورکہنے والے گلے مل رہے ہیں”ناہلی کے قریب ترین پہنچنے والے طلال تو جلال میں لال پیلے ہو رہے ہیں”چہروں سے نقاب ہٹ گئے ہیں۔
اصول پرستی،تبدیلی اور انقلاب لانے کی باتیں آج عمران خان کی جانب سے سنجرانی کوووٹ دینے کے بعد واضح ہو گئی ہے”سینیٹر میر حاصل بزنجو نے تو تمام حدیں پھلانگ دیں سینیٹ میں بولتے وقت ان کے منہ سے آگ برس رہی تھی” آج عملی طور پر ثابت ہو چکا کہ بالا دست طاقتیں پارلیمنٹ سے طاقتور ہیں آج پارلیمنٹ عملی طور پر ہار چکی ہے اور مجھے یہاں اس ہاؤس میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے”نااہل کی بیٹی بڑا کہتی تھی ”روک سکتے ہوتو روک لو ”مفاہمی جادوگر نے ”روک” کر ہی نہیں ”ٹھونک”کر بھی دکھا دیا جنہیں ایوان بالا میں بیٹھنے سے شرم آتی ہے ان کے سر اس وقت ندامت سے کیوں نہیں جھکے جب انہوں نے ایک سابق آمر کے اوپننگ بلے باز کی حمایت کی اور اسی آمر کے منہ بولے بیٹے کے ہر ناجائز و ناجائز عمل کی اندھی تقلید کی حکمران جماعت رونے دھونے اور کوسنے کی بجائے اپنی صفوں میں چھپے ہوئے میر جعفروں کو تلاش کریں کیونکہ سینیٹ الیکشن نے اس حقیقت کے بے نقاب کیا کہ ن لیگ کے اتحادیوں نے تو وفاداری نبھا ئی لیکن خود ن لیگ کے ارکان نے اپنے امیدوار سے بغاوت کرکے حکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے نومنتخب چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور سینیٹرز ملک میں جمہوریت کے استحکام ، آئین و قانون کے بالادستی اورپاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔