تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری وزیر اعظم پاکستان اور نئے پاکستان کا قائد اعظم بننے کا خواب دیکھنے والے کپتان خان ان دنوں شب و روز اس جدوجہد میں مصروف رہے ہیں کہ سینٹ کے الیکشن کسی بھی طرح شو آف ہینڈ کے ذریعے کروائے جا سکیں تاکہ انہوں نے اپنی اپنی جماعتوں کی جانب سے نا مزد کئے جانے والے امیدواروں سے جو کروڑوں روپے جن کا ٹوٹل اربوں روپوں تک چلا جاتا ہے لیے ہیں وہ انہیں ہضم ہو سکیں۔
زرداری کا سندھ کے علاوہ دوسرے صوبوں سے ایک بھی سینیٹر منتخب ہونے کا امکان نہیں ہے اس لئے انکو ہارس ٹریڈنگ یا گدھا ٹریڈنگ جو بھی ہو سکے راس آ سکتی ہے ۔غرضیکہ صوبائی اسمبلی کے ممبران کی منڈی”اس بازار کی رنگین رات ”کی طرح سج چکی ہے ہر ضمیر فروش اور حرام مال ہڑپ کرنے والے نے اپنی پیشانی پر اپنی قیمت کا اشتہار لگا ڈالا ہے۔
بے ضمیر انسانوں کی اس منڈی میں سب سے زیادہ قیمت خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور فاٹا کے گھوڑوں یا ہینکتے گدھوں کی ہے ۔چونکہ منتخب ممبران اسمبلی سے بھی مقتدر پارٹیوں نے سابقہ الیکشن میں چندہ کے نام پر بھاری رقوم لے کر ہی ٹکٹ دیئے تھے اس لیے اب ہر قیمت پر کروڑوں آتا دیکھ کر انکی رالیں ٹپک رہی ہیں۔اور وہ اس موقع کو ضائع نہیں کر سکتے ۔چونکہ فاٹا میں صرف تین ووٹوں سے ایک سنیٹر منتخب ہو سکتا ہے اس لیے سب سے زیادہ بولی گھوڑوں اور معزز گدھوں کی وہیں لگ رہی ہے اور ریٹ پچاس کروڑ تک پہنچ چکا ہے اور اس میں بھی آخری لمحے تک مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
آصف زرداری کی چو مکھی چالوں اور گھوم چکریوں کی وجہ سے عمرانی گھوڑے پارٹی کی وفا داری سے بدک رہے ہیں ۔ کیونکہ اگر وہ سندھ کے سات امید واروں کے علاوہ دوسرے صوبوں بالخصوص خیبر پختونخواہ میں سے گھوڑے اور معزز گدھے خرید کر مزید امیدوار کامیاب کروا لیں تو سینٹ کی چئیر مینی کی دوڑ میںشامل ہو سکتے ہیں ۔ سبھی سیاسی رہنماؤں و قائدین کی ایسی حرکات دیکھ کر تو وہی بات ہوئی نا ”نتھا سنگھ اینڈ پریم سنگھ ون اینڈ دی سیم تھنگ”۔ رازداری جمہوریت کا حقیقی حسن اور اسکی عفت و عصمت ہے اگر کسی رائے دہندہ کے بارے میں یہ ظاہر ہو جائے کہ اس نے کس امیدوار کو ووٹ دیا ہے تو یہ جمہوریت کی سفید اجلی چادر پر بد نما دھبہ ہو گا جسے پاکستان کیے پانچ دریاؤں کے پانی بھی مل کر ُاجلا نہیں کر سکتے ۔ ان رہنماؤں کی یہ خواہش سرا سر جمہوریت کے مروجہ اصولوں کی خلاف ورزی تھی کبھی تو ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے نام پر یہ نادراسے مدد حاصل کرکے تمام ووٹروں کے استعمال شدہ بیلٹ پیپروں پر ثبت ان کے انگوٹھوں کے نشان ملا کر انکی رازداری کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
Senate Elections
کبھی شو آف ہینڈز یا بیلٹ پیپروں پر رائے دہندگان کے نام تحریر کرکے اس رازداری کو مجروح کرنا چاہتے ہیں کیا انہوں نے کوئی نئی جمہوریت گھڑ لی ہے؟ یا پاکستانی عوام اور اراکین پارلیمنٹ کو بھیڑ بکریاں اور اپنا زر خرید غلام سمجھ لیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو انکی یہ سوچ انتہائی متکبرانہ ہے ، تکبر تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کو زیبا دیتا ہے اسی لیے تو ہم نعرہ تکبیر اور جواباًً اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہیں ، تکبر والوں کے انجام سے تاریخ بے شمار لوگوں کے جو ان سے بھی بڑے شہنشاہ تھے کے الم ناک تذ کروں سے بھری پڑی ہے۔ جمہوریت میں رائے شماری خفیہ ہوتی ہے اور اسے خفیہ ہی رکھا جانا چایئے ۔ یہ کسقدر بے شرمی اور ڈھٹائی کی بات ہے کہ خود بڑے دھڑلے سے پیسے لے کر پارلیمانی و سینٹ کے ٹکٹ جاری کرتے ہیں اور پھر ووٹروں سے کہتے ہیں کہ انہیں ہی ووٹ دیا جائے ووٹروں کی اپنی بھی تو کوئی پسند یا نا پسند ہوتی ہے۔ سبھی ووٹر بے ضمیر اور جمہوریت کش نہیں ہوتے کیونکہ انہوں نے بطور ارکان پارلیمنٹ جمہوریت سے مخلص رہنے کا حلف اٹھایا ہوا ہے ۔یہ لیڈر اپنے ایمان سے بتائیں کہ انہوں نے جن لوگوں کو سینٹ کے ٹکٹ دئیے ہیں انکا جمہوریت کی بحالی ، جمہوریت کے استحکام اور جمہوری اقتدار کے فروغ میں کیا کردار ہے۔
انکی پہلی اور آخری صفت ، خوبی یا کوالیفیکیشن صرف اور صرف یہ ہے کہ انہوں نے بڑی پارٹیوں کے راہنمائوں کو منہ مانگے دام دیکر سینٹ کے ٹکٹ خریدے ہیں اور جمہوریت کی شرح میں ووٹ کو نوٹ سے تولنے کی حرکت کو انتہائی کبیہ قرار دیا گیا ہے۔ پارٹیوں کے رہنما اگر خود کو گنگا نہایا ہوا سمجھتے ہیں تو بکاؤ گدھوں ، گھوڑوں ، لگڑ بگھڑوں اور شیر کی کھال پہنے ہوئے بزدل کرپٹ گیدڑوں کو پارٹی سے باہر کیوں نہیں نکال دیتے ؟بھلا کوئی مال کما کر لانے والے پوتروں کو بھی گھر بدر کر سکتا ہے ؟ مال لے کر ہڑپ کیا جا چکا ہے اب اگر کوئی مال سپلائی کرنے والے امید وار یعنی ٹکٹ ہولڈر جیت نہ سکے تو وہ تو ”لتروں اورچھتروں” سے رقوم وصول کر لیں گے۔ اسلئے موجودہ اور سابقہ برسر اقتدار ٹولوں شریف برادران، زرداری اور عمران خان کی پارٹیوں میں موجود لالچی و سود خور سرمایہ دار ٹولوں اور سامراج اور انگریز کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے ہوئے گروہ کے سبھی افراد (ممبران اسمبلی) مالکوں یعنی پارٹی سر براہوں کے کتے جتنے بھی وفادار نہیں ہیں، جبکہ کتا تو بہر حال بھوکا رہ کر بھی وفا داری کرتا ہے۔
جو لوگ آج پیسے دیکر ایوان میں نمودار ہونگے کیا وہ اتنے ہی حاتم طائی ہیں کہ وہ اپنے خرچ کیے گئے پیسے واپس حاصل کرنے کے لیے مختلف مذموم ذرائع اختیار نہیں کرینگے ۔ سیاست کو تجارت بنا دیا گیا ہے پہلے تو تجارت 4اور 4 آٹھ کی ہوتی تھی اب انہوں نے 8اور8 ساٹھ کی بنا دی ہے انکے دور میں جتنی سڑکیں ، جتنے پل، جتنے شفاخانے جتنے سکول تعمیر ہونگے وہ سب ریت کے گھر دندے ہونگے ۔ کیونکہ ان تعمیراتی کاموں میں سے انہوں نے کروڑوں روپیہ اپنے بنک کے کھاتوں میں منتقل کروا لیا ہوگا تاکہ آئیندہ پھر اپنے رہنماؤں کو پیسے دیکر ٹکٹ خرید سکیں۔ یہ تمام حرکات غیر جمہوری ہیں اور جمہوریت کے نام پر بر سر اقتدار آنے والوں کے منہ پر طمانچہ ہیں ۔ اور یہ تھپڑ ہمیشہ بے حس چہروں کا ہی مقدر ہوتے ہیں۔اور بقول شورش کاشمیری ہمارے ملک کی سیاست کا حال مت پوچھ ۔ گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں۔