نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ ذلیل ورسوا ہو وہ شخص جس نے اپنے ماں یا باپ کو بڑھا پے میں پایا لیکن ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی اور دو گناہ ایسے ہیں کہ انسان مر نہیں سکتا جب تک کہ دنیا میں ہی ان کی سزا نہ کاٹ لے جن میں ایک ماں باپ کو ستانا اور دوسراگناہ فحاشی پھیلانا ہے۔
ماں باپ کے علاوہ بڑوں اور بزرگوں کے احترام کی بڑی احادیث بھی وارد ہیں لیکن ہمارے معاشرے لئے یہ بات باعث ننگ وعار ہے کہ اسلامی ملک ہونے کے باوجود دنیا بھر میں بزرگوں کے برے معیار زندگی میںپاکستان کا تیسرا نمبر ہے اس کی بنیادی وجہ مادہ پرستی ہے کہ جس کے پیچھے بھاگ کر ہم اپنی مذہبی اور معاشرتی اقدار کو بھلا چکے ہیں جو بزرگ گھروں میں ہیں ہمارے پاس ان کے لئے بھی وقت نہیں اور جن بزرگوں کے پاس گھر نہیں یا اولاد ان کو پالنے کے لئے تیار نہیں ان کے لئے ہمارے پاس اولڈ ایج ہائوسز بھی نہیں۔
ایک ماں باپ نو دس بچوں کو تو پال لیتے ہیں مگر نو دس بچوں سے اپنے اکلوتے ماں باپ کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے سعودی عرب میں پچھلے دنوں ایک منفرد مقدمہ دائر ہوا کہ جس میں ایک بوڑھی والدہ کی خدمت کی سعادت حاصل کرنے کے لئے اس ماں کو اپنے ساتھ رکھنے کے اختلاف پر دو بھائیوں نے عدالت میں رجوع کر لیا، عدالت نے چھوٹے بھائی کے حق میں فیصلہ کر دیا تو یہ فیصلہ سن کر بڑا بھائی عدالت میں ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
بزرگ شہریوں کے لئے اولڈ ایج ہائوسز ضرور بنائے جائیں لیکن اس سے زیادہ ضرورت یہ ہے کہ بہ حیثیت ایک مسلمان معاشرہ کے ہم اس سے بڑھ کر اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور وہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ پورے ملک میں ایک بزرگ کو ساتھ رکھنے کی مہم چلائی جائے ،یعنی بزرگوں کو اولڈ ایج ہائوس میں تنہا نہ کیا جائے بلکہ مختلف فیملیاں جن کے بزرگ ماں باپ فوت ہو چکے ہیں وہ ان بزرگوں کو اپنے گھروں میں لے جا کر ان کی خدمت کریں، ان کی دعائیں لیں۔
جیسے بزرگوں کو اولاد کی محبت و شفقت کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ایک معاشرتی اکائی یعنی عام فیملی بھی بزرگوں کے بغیر ادھوری ہے وہ اولاد کو اپنے تجربے کے مطابق مشورے دیتے ہیں، پوتے پوتیوں کو پالتے ہیں سیر کراتے ہیں، وہ بچوں میں خوش ہوتے ہیں اور بچے ان میں خوش ہوتے ہیں، میاں بیوی میں لڑائی ہو تو بزرگ ہی ان کی صلح کراتے ہیں ۔ بے شمار ایسے کیسز ہوتے ہیں کہ میاں بیوی میں لڑائی کی وجہ سے علیحدگی ہوجاتی ہے مگر جس گھر میں بزرگ ہوں وہ ان میں صلح کرا دیتے ہیں، بزرگوں کے پاس جا کر دونوں فریق اپنے گلے شکوے رکھ دیتے ہیں اپنے دلوں کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔
اولڈ ایج ہائوس اول تو بہت کم ہیں ان میں بزرگوں کو گزارے لائق رہائش اور کھانا تو مل جاتا ہے لیکن ان کو ایک چیز کی سخت کمی ہوتی ہے اور وہ چیز ہے فیملی کی خوشیاں… اگر کسی کی اولاد اس کو نہیں سبنھال رہی یا کسی بھی سماجی ،نفسیاتی ،معاشرتی ،مالی وجہ سے وہ تنہارہ گئے ہیں تو کسی دوسری فیملی کو ان کو OWN کرنا چاہئے ، ان کو اپنا بزرگ اور اللہ کی رحمت سمجھ کر ساتھ رکھنا اور ان کی خدمت کرنی چاہیئے۔ان کو ماضی کی تلخ یادوں اور بیماریوں کی پریشانی سے نکالنے کے لئے ان کو فیملی کے ساتھ رکھنا ضروری ہے۔
صرف بزرگ ہی نہیں کچھ دیگرکم عمر افراد یا مریض بھی بے شمار وجوہات کی وجہ سے تنہا رہ جاتے ہیں ان کو بھی اولڈایجز ہائوسز میں ایڈجسٹ کرنا چاہئے، جن کے رشتہ داراور اولاد بیماری ،مالی یا کسی اور وجہ سے ان کو نہیں سنبھال پاتے۔
میں شام کو واک کرنے نکلتا ہوں تو چوبرجی چوک کی سڑک کے کنارے جگہ جگہ بزرگ شہریوں کوکسمپرسی کی حالت میں دیکھ کر شرم اور دکھ سے کلیجہ پھٹ جاتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو کس منہ سے مسلمان معاشرہ کہتے ہیں ،جہاں ہمارے بزرگ سختی سردی گرمی پیاس میں بھوکے ،پیاسے اور بیمارحالت میں سڑکوں پر گرے پڑے ہیں اور ان کے منہ میں پانی اور روٹی کے دو لقمے ڈالنے والا کوئی نہیں، پانی تو دور کی بات ہے ان کو نشئی سمجھ کر لوگ ان پر دوسری نظر ڈالنا گوارا نہیں کرتے اور انتہائی بے حسی سے ان کے پاس گزر کر آگے چلے جاتے ہیں، یہ بزرگ بھیک بھی مانگنا پسند نہیں کرتے اگر ہم انہیں اپنے گھر ،ہسپتال یا اولڈ ایج ہائو نہیں لیجا سکتے توہم کم از کم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اپنے جیب سے سو پچا س روپے نکال کر ان کی جیب میں ڈال دیں تاکہ جب وہ اٹھیں تو کم از کم دو وقت کی روٹی ہی کھا سکیں ۔
Lahore
جین مندر چوک لاہور میں اکبری سٹور کے سامنے دیگربے سہارا افراد کے ساتھ ایک بوڑھی بزرگ خاتون سخت سردی میں پھٹی پرانی چیتھڑا نما رضائی میں لپٹی پڑی ہوتی ہیں ، شاید وہ بھی کسی اچھے گھرانے کی فرد رہی ہوں لیکن حالات نے انہیں یہاں تک پہنچا دیا۔
تھوڑا سا آگے چلنے پر میٹرو پل کے نیچے ایک سفید داڑھی والے بزرگ نیم بیہوشی کے عالم میں گرے نظر آتے ہیں، میں نے ان کو کئی دفعہ ہلا جلا کر پوچھا کہ آپ نے پانی پینا یا کھانا کھانا ہے مگر وہ میری طرف دکھ بھری نظروں سے دیکھ کر انکار کرد یتے ہیں اور پھر زمین پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیںتب میرا دل تو کرتا ہے کہ ان کو اٹھا کر کسی جگہ پر لے جائوں مگر میرے پاس ایسی کوئی جگہ نہہیں، ایسے بے شماردل سوزمناظر روزانہ دل کو چیر دیتے ہیں۔
مجھے مسجد میں ایک باریش ، عالم قرآن و حدیث نہایت نیک نمازی مئوحد بزرگ بھی ملتے ہیں وہ کسی وجہ سے اپنی فیملی سے بچھڑ گئے ہیں لیکن اب ان کے پاس کوئی رہائش کی جگہ نہیں وہ رات گنگارام ہسپتال میںکرسی پر بیٹھ کر گزارتے ہیں ،میں نے ان کے لئے رہائش کا وعدہ تو کیا ہے لیکن میرے پاس وسائل نہیں اگر کوئی صاحب ان کے لئے مناسب رہائش وماہانہ اخراجات کا انتظام کرکے اپنے والدین کو ثواب پہنچانا چاہیں تو رابطہ کر سکتے ہیں۔
فلاحی و رفاہی تنظیمیں جو رفاہ عامہ و دیگر فلاحی کاموں میں پیش پیش ہیں اس معاملے میں انکو بھی سرگرم کردار ادا کرنا چاہیے، امیروں سے امداد لے کر معاشرے کے بزرگ، بے سہارا، مریض مردوں اور عورتوں کے لئے اچھی رہائش ،خوراک ، طبی سہولتوں،مصروفیت اور فیملی و بچوں کی خوشیوں کا انتظام کرنا چاہیے اگر ان کی اپنی اولادان کے پاس نہیں تو ان کو خوش رکھنے کے لئے ان کے پاس چھوٹے بچوں کو بھی رکھنا یا ملوانا چاہئے جن میں وہ مصروف ہو کر اپنی اولاد کا غم بھلا سکیں۔
اس معاملے میں بڑی جماعتیں بہت کوتاہی کا مظاہر کر رہی ہیں صرف چھوٹی این جی اوز اپنے محدود وسائل سے بزرگ و بیمار شہریوں کے لئے کام کر رہی ہیں لیکن ظاہر ہے ان کے پاس وسائل نہیں وہ تنہا کتنا کام کرسکتی ہیں۔دیگر تنظیموں میں ہیلپ ایج پاکستان، سہارا اولڈ ایج ہائوس وغیرہ بزرگوں کے حقوق کے لئے کام کر رہے ہیں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعتوں سمیت صاحب حیثیت افراد کوبھی رفاہ عامہ کے کاموں میں آگے آنا چاہئے۔