لاہور : ورلڈ کالمسٹ کلب (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام سینئر کالم نگار و شاعر منصور آفاق، مظہر برلاس، اعتبار ساجد کے اعزاز میں تقریب پذیرائی الحمراء ادبی بیٹھک مال روڈ میں ہو ئی جس میں ورلڈ کالمسٹ کلب سے وابستہ قلمکاروں سمیت بڑی تعداد میں اہل قلم نے شرکت کی۔تقریب کے مہمان خصوصی سینئر صحافی و کالم نگار مجیب الرحمان شامی تھے۔تقریب میںمقررین نے منصور آفاق ،مظہر برلاس،اعتبار ساجدکی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔تقریب میں ورلڈ کالمسٹ کلب کے چیئرمین ایثاررانا،صدر محمد ناصر اقبال خان،جنرل سیکرٹری ذبیح اللہ بلگن،دلاور چوہدری،تاثیر مصطفیٰ ،ناصر بشیر،رابعہ رحمان،ڈاکٹر عمرانہ مشتاق،جاوید اقبال،ممتاز حیدر اعوان،ناصر چوہان ایڈوکیٹ،عابد کمالوی،ملک غضنفر اعوان،میاں محمد اشرف عاصمی ایڈوکیٹ،رقیہ غزل،ممتاز راشد لاہوری،تاثیر مصطفیٰ،شہزاد راشدی،کرنل عبدالرزاق بگٹی،حسین مجروح،آصف عنایت بٹ،محمد راشد تبسم،محمد شاہد محمود،حافظ محمد شکیل،جان محمد رمضان،عامر اسحاق،روہیل اکبر،کاشف سلیمان،عرفان نواز رانجھا،شاہد گھمن،منصور چغتائی،عزیر شیخ،سلطان محمود،عامر بشارت،مرزا رضوان،عقیل انجم اعوان، اظہر ضمیرفاطمہ قمر،صفیہ ملک صابری،ڈاکٹر فرزانہ مشتاق ،انیلہ منیر،ناہید نیازی،ڈاکٹر کوثر اقبال ودیگر نے شرکت کی۔تقریب کے اختتام پر سینئر کالم نگار و شاعر منصور آفاق،مظہر برلاس،اعتبار ساجد ،دلاور چوہدری کو ورلڈ کالمسٹ کلب کی جانب سے اعزازی شیلڈ دی گئیں۔سینئر صحافی و تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مظہر برلاس کے کالم ڈرتے ڈرتے پڑھتا ہوں۔ جمہوریت میں لوگوں کے ووٹوں سے حکومت بنتی ہے۔
میری والدہ کہتی تھی کہ ہنڈیا جب ابلتی ہے تو اپنے ہی کناروں کو جلاتی ہے۔ ملک کے موجودہ حالات آج سے چار پانچ سال پہلے کے حالات سے بہت بہتر ہیں۔ حالات بہتر بھی ہوئے نہیں بھی ہوئے۔ لگتا ہے آج کالم نگاروں کا مشاعرہ ہے۔ کالم نگار کو اپنی بات ایسے کہنی چاہیے کہ جس کے خلاف کہہ رہا ہو اسے بھی غصہ نہ آئے۔ کالم میں نہ تو غصہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کی مذمت ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم جس سوسائٹی میں ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ پاکستانی سوسائٹی دوسرے بہت سے معاشروں سے بہتر ہے۔ ہر معاشرہ میں جیلیں ہوتی ہیں۔ ریپسٹ اور ڈاکو بھی ہیں جو جیلوں کے اندر قید ہوتے ہیں۔ پاکستان میں توانا لوگوں پر قانون لاگو کرنا آسان نہیں۔ ہم اہل قلم پر لازم ہے کہ ہم کمزور کو اس کا حق دلائیں حکمرانوں کو نہ تو ڈرانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ان سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ مظہر برلاس نے کہا کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیشہ کم لوگوں میں رکھا ہے۔آخری فتح حق کی ہوتی ہے۔ہر انسان کے اندر ایک جج بیٹھا ہوتا ہے ہر انسان اپنے بارے میں خود فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس معاشرہ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ملاوٹ کو حرام سمجھتے ہیں۔ اس معاشرہ میں موٹر وے پولیس بھی ہے جو رشوت نہیں لیتی۔
یہ جمہوری حکومتوں کے ثمرات ہیں کہ 85میں 15روپے کا ڈالرتھا اس دور میں ایک آدمی کماتا تھا اور اآٹھ دس لوگ کھاتے تھے۔ جن ممالک نے ترقی کی ان کے لیڈرز نے درست راہ کا انتخاب کیا۔ اگر لیڈر رہزن نہ ہوں تو لوگ خوش نظر آتے ہیں۔اعتبار ساجد نے کہا کہ میں نے 36سال کالجز میں پڑھایا ہے اور گورنمنٹ کی کمائی کھائی ہے۔ سفر حیات کا خوشگوار نہیں میں باپیادہ ہوں اور شہ سوار نہیں ہوں۔ چھوٹے چھوٹے مسائل کو ٹھوکر مارنی چاہیے یہ سنگ ریزے ہیں مانند کوہسار نہیں۔ میں ایک سانس بھی مرضی سے نہیں لے سکتا بغیر ازن مجھے اتنا اختیار نہیں۔ منصور آفاق نے کہا کہ اس وقت جو اخبار ہیں ان کی حیثیت پہلے جیسے اخبارات جیسی نہیں رہی۔ اب خبروں کیلئے اگلی صبح تک اخبار کا انتظار نہیں ہوتا۔ برطانیہ کی اخبارات میں تبصرے اور تجزیئے ہوتے ہیں خبریں نہیں ہوتی۔ اب رپورٹر کا زمانہ نہیں رہا اب کالم نگاروں کا زمانہ آگیا ہے۔ ایثاررانا نے کہا کہ مظہر برلاس سے میرا تعلق بھائیوں جیسا ہے۔ مظہر جملہ ضائع نہیں کرتے بندہ چاہے ضائع ہو جائے۔ ہم چھینا چھپٹی کے دور میں زندہ رہے ہیں۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ مظہر ایک بڑا انسان ہے اور نیک نام ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ اعتبار ساجد ہمارے دور کی شناخت ہیں۔ ہم روز لاشیں اٹھاتے ہیں۔ ہم روزانہ مائوں کو بین کرتے دیکھتے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ مشکلیں آتی ہیں ہم سچ لکھنا بھول گئے ہیں۔ ہم پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھیں گے۔محمد ناصر اقبال خان نے کہا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ان کے اعزاز میں تقریب پذیرائی کر رہے ہیںجوہ مزاحمتی کالم نگار اور شاعر ہیں۔ اس دور میں بہت سے لوگ ضمیر فروش ہیں جو قلم کا سودا کر چکے ہیں۔ یہ تینوں حضرات ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق ادا کر رہے ہیں۔ یہ حسینیت کے ساتھ کھڑے ہیں اور یزیدیت کو لکار رہے ہیں۔ذبیح اللہ بلگن نے کہا کہ تقریب پذیرائی کا مقصد یہی تھا کہ اپنے ہیروز کے بارے میں جو باتیں ان کے مرنے کے بعد کی جاتی ہیں ان کی زندگی میں ہی کی جائیں۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کے زیر اہتمام تیسری تقریب پذیرائی کا پروگرام 28اپریل کو ہو گا ۔اگلی تقریب پذیرائی عابد کمالوی،نثار قادری،رابعہ رحمان،تاثیر مصطفیٰ کے اعزاز میں ہو گی۔دلاور چوہدری نے کہا کہہ مجھے کم علمی کا احساس ہے۔ تینوں حضرات انتہائی قابل احترام ہیں۔ ادوار آتے جاتے رہتے ہیں۔ ادب کے حوالہ سے بڑا مایوس کن دور ہے۔ ہر دور میں اپنی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ لفظوں کی جنگ میں آئیڈیاز دب کر رہ گئے ہیں۔ آج کے دور میں لفظوں کا مقابلہ ہے۔قوموں کے درمیان جب تک آئیڈیاز پنپتے رہتے ہیں ترقی کا عمل جاری رہتا ہے۔ ہم ورلڈ کالمسٹ کلب میں رہتے ہوئے زبان وادب کی حفاظت کرتے ہوئے اسے آگے لے کر جائیں گے۔تقریب سے ڈاکٹر عمرانہ مشتاق،تاثیر مصطفیٰ ،عابد کمالوی،رقیہ غزل،میاں اشرف عاصمی ایڈوکیٹ،پروفیسر ناصر بشیر،حسین مجروح،شہزاد راشدی،ممتاز راشد لاہور ی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تینوں مہمان بیک وقت شاعر، ادیب اور کالم نگار ہیں۔ یہ ہر ایوارڈ اور ہر انعام کے مستحق ہیں، تینوں میں کچھ چیزیں مماثلت رکھتی ہیں۔ یہ ایک ہی شخص میں ملنی مشکل لگتی ہیں۔ اعتبار ساجد صاحب مشاعرہ، پریس کلب اور دیگر ادبی تقریبات کیلئے ہر وقت حاضر ہوتے ہیں۔ان کو مدعو کرنا ورلڈ کالمسٹ کلب کیلئے اعزاز ہے۔