تحریر : ممتاز اعوان ماہ ستمبر کے آغاز میں شدید بارشوں کے بعد پنجاب میں سیلاب آیا جس نے ہر طرف تباہی مچا دی، لوگوں کے مکانات گرے،مال مویشی ڈوب گیا، سامان پانی میں بہہ گیا اور بے یارو مدد گار لوگ مدد کے طلبگار تھے، پاک فوج، ریسکیو1122و دیگر مذہبی جماعتوں کے رفاہی و فلاہی اداروں نے سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدادی کا م کیا لیکن نقصان اتنا ہوا کہ ابھی تک لوگوں کو ریلیف نہیں مل سکا، پاکستان میں جتنی بارشیں ہوئی ہیں ا ن سے اتنا سیلاب نہیں آ سکتا تھا، پاکستان کے ازلی دشمن انڈیا نے بھی اپنے دریائوں کا پانی چھوڑا جس کی وجہ سے دیہاتوں کے دیہات پانی میں ڈوب گئے، انڈیا نے پاکستان پر آبی جنگ مسلط کی لیکن اس پر ہر طرف سے خاموشی نظر آئی، حکمران بھی خاموش رہے،سیاسی جماعتیں، اپوزیشن دھرنوں، مذاکرات میں مصروف ہیں انکو تو سیلاب متاثرین کی ہی فکر نہیں چہ جائیکہ وہ بھارتی آبی جارحیت کے خلاف آواز بلند کریں۔ پاکستان کی سب سے بڑی رفاہی و فلاہی جماعت ،جماعة الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید نے اپنے کارکنان کو سیلاب متاثرہ علاقوں میںفوری امدادی کاموں پر لگایا اور خود بھی علاقوں میں پہنچ کر بھارتی آبی جارحیت پر بات کی۔
حافظ محمد سعید جن پر ممبئی حملوں کا الزام بھارت لگاتا رہا ہے لیکن وہ کسی بھی عدالت میں ثابت نہیں کر سکا ،بھارت کو انکے سیلاب زدہ علاقوں کے دوروں اور وہاں جماعة الدعوة کے ریلیف کے کام سے اتنی پریشانی لاحق ہوئی کہ اس نے پاکستان سے احتجاج کیا تو پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے بھارت کو صاف جواب دیا کہ حافظ محمد سعید ایک آزاد شہری ہیں بھارت صرف الزامات لگا رہا ہے۔ الزامات کی بنیاد پر کسی کو نظر بند نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان میں کسی بھی فلاہی ادارے کوسیلاب متاثرین کی مدد سے نہیں روکا جا سکتا۔پاکستان کے اس پیغام پر بی جے پی نے بھی شدید احتجاج کیا ۔بھارت کی طرف سے الزامات کے باوجود حافظ محمد سعید کے کارکنان سیلاب متاثرہ علاقوں میں سرگرم عمل رہے ۔بدھ کی شام جماعة الدعوة کے نائب ناظم اطلاعات حبیب اللہ سلفی جو میرے بڑے قریبی دوستوں میں سے ہیں کہ طرف سے پیغام ملا کہ مرکز القادسیہ چوبرجی میں امیر جماعة الدعوة کے ساتھ سینئر کالم نگاروں کی ایک نشست ہے آپ نے بھی آنا ہے، اگلے دن جمعرات کو دن ایک بجے مرکز القادسیہ پہنچا، نماز ظہر کے بعد دیگر دوستوں کی آمد بھی شروع ہو گئی،ڈیڑھ بجے کے قریب پروفیسر حافظ محمد سعید کرسی صدارت پر آئے اور ابتدائی گفتگو کی،سینئر کالم نگاروں، اخبارات کے ایڈیٹر و مدیران، اینکرز کا شکریہ ادا کیا۔
Hafiz Saeed
اسکے بعد المحمدیہ سٹوڈنٹس کے امیر انجینئر محمد حارث نے بھارت کی طرف سے دریائوں میں چھوڑے گئے پانی کے حوالہ سے تفصیلی بریفنگ دی۔ جماعة الدعوة کے رفاہی وفلاہی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف سمیت مرکزی قیادت بھی موجود تھی،حافظ عبدالرئوف نے سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی کاموں پر بریفنگ دی اور علاقوں میں ہونے والے نقصانات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا تو ہال میں موجود تمام دوستوں کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگ گئے۔ ہم لاہور میں بیٹھ کر یقینا سیلاب متاثرین کی مشکلات کا اندازہ نہیں کر سکتے جن کا کچھ نہیں بچا، ساری زندگی کی جمع پونجی چند لمحوں میں آنکھوں کے سامنے بہہ گئی، خیرات و زکووة دینے والے آج پینے کے صاف پانی کے لئے ہاتھ پھیلا رہے ہیں ،حافظ عبدالرئوف نے بڑے دکھ بھرے انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 24ستمبر کو گزشتہ برس آواران میں زلزلہ آیا تھا،25ستمبر کو آج کے ہی دن وہاں لاشیں اٹھا رہے تھے، آواران میں متاثرین زلزلہ کی امدادکا کام جاری تھا کی سندھ میں قحط آنے سے 350بچے مر گئے، جماعة الدعوة وہاں پہنچی امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لئے پروفسیر حافظ محمد سعید نے بھی دورہ کیا، تھر میں گیارہ سو کنویں بنا رہے ہیں، تھر میں مصروف تھے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہوا، آئی ڈی پیز آئے، سات لاکھ لوگ ہمارے مہمان بنے، انکی امداد کے لئے بھی فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکار پہنچے ،وہاں مصروف تھے کہ 5ستمبر کو سیلاب آگیا جس سے شدید تباہی ہوئی، متاثرہ علاقوں میں لوگوں کے پاس رہنے کے لئے خیمہ بستیاں نہیں، گرمی کا موسم اور سیلابی گندہ پانی ہونے کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہو چکی ہے
دودھ پینے والے بچوں سمیت بزرگ بھی سڑک کنارے کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں ،وہ کب گھر جائیں گے؟کھانے کے لئے کچھ ملے گا یا نہیں؟کسی کو کچھ معلوم نہیں۔شدید سیلاب کی وجہ سے علاقوں میںفصلیں تباہ ہو گئی ہیں ،24لاکھ ایکڑ زمین سیلاب سے متاثر ہوئی ہے،22اضلاع میں 36سو دیہات تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔2010کے سیلاب میں سیلاب کی پہلے سے اطلاع ملنے کی وجہ سے لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے تھے لیکن اس سال ایسا نہیں ہوا، ایسے علاقوں میں بھی سیلابی پانی پہنچا جہاں گزشتہ عرصے میں سیلاب نہیں آیا۔ متاثرہ علاقوں میںصرف25فیصد لوگوں کے پاس خیمے ہیں۔75فی صد لوگ خیموں کے بناء ر ہ رہے ہیں۔23لاکھ متاثرین ہیں اور حکومت جس نے سب سے زیادہ لوگوں کو ریلیف دینا ہے اب تین ہفتے کے کام کی وجہ سے تھک چکی ہے اور آرام کر رہی ہے۔پانی کھڑا ہونے کہ وجہ سے شہروں میں وبائی امراض خارش،آنکھوں میں درد و دیگر امراض پھیل رہے ہیں۔
بارشیں بھی برس رہی ہوں ،کھانا بھی نہ ہو اور پینے کا صاف پانی بھی میسر نہ ہو تو سیلاب متاثرین کی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،لوگ اپنا سامان چھوڑنے کو تیار نہیں ڈوب کر مرنے کو تیار ہیں۔ حافظ عبدالرئوف کی بریفنگ کے بعد امیر جماعة الدعوة حافظ محمد سعید نے اپنی گفتگو میں کہا کہ بھارتی آبی دہشت گردی کونہ روکا گیا تو آئندہ چند برسوں بعد پینے کا پانی ملنا بھی مشکل ہو جائے گا۔سندھ طا س سمیت انڈیا سے کئے گئے تمام معاہدے پاکستان کے حق میں نہیں ہیں۔ چناب میں پانی چھوڑ کرانڈیا نے باقاعدہ ریہرسل کی ہے۔ وہ باقی دریائوں پربھی ڈیم بنا کر پاکستان کو مکمل طور پر ڈبونے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ بھارتی آبی جارحیت کے مسئلہ پر حکومت پر دبائو بڑھانے اور قومی سطح پر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ شہ رگ کشمیرپر سے بھارت کا غاصبانہ قبضہ چھڑانا بہت ضروری ہے۔ ہمیں بے بسی کی موت نہیں مرنا بلکہ انڈیا کی جارحیت کو بے نقاب کرنا ہے۔ اس مسئلہ کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے’ آبی جارحیت کو روکا نہ گیا تو آئندہ پانیوں کے مسئلہ پربھارت سے جنگ کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔
Pakistan Flood
اس موسم میں ہر سال بارشیں ہوتی ہیں مگر ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ ہماچل پردیش کے پہاڑوں کے ایک طرف سے راوی اور دوسری جانب سے چناب شروع ہوتا ہے لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ چناب میں تو آٹھ سے نو لاکھ کیوسک کا ریلا نکل کر شدید تباہی پھیلا دیتا ہے مگر راوی میں پانی کیوں نہیں آیا؟اور اسی طرح بارشوں کی وجہ سے کسی اوردریا میں سیلاب کیوں نہیں آیا؟حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔چناب پر انڈیانے سب سے زیادہ ڈیم بنائے ہیں۔ بگلیہار اور پھر سلال ڈیم جہاں پانی جمع کیا گیا اور پھر اسی سلال ڈیم سے آٹھ لاکھ کیوسک کا ریلا اچانک چھوڑ دیا گیا ۔ اس میں صرف ایک لاکھ کیوسک پانی بارشوں کا شامل ہوا اور ہیڈمرالہ سے نو لاکھ کیوسک پانی گزرا اور پھر ہر طرف تباہی پھیلاتا چلا گیا۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں ہم ہر جگہ ثابت کر سکتے ہیں اور اس مسئلہ پر چیلنج کرنے کیلئے بھی تیار ہیں۔
حافظ محمد سعید کی گفتگو کے بعد ہال میں موجود تما م کالم نگاروں نے انکی بات سے اتفاق کیا اور جماعة الدعوة کے سیلاب متاثرہ علاقے میں امدادی کاموں کو سراہتے ہوئے کہا کہ سیلاب متاثرہ ہر دیہات میں جماعة الدعوة کے رضاکار پہنچے اور انکا کام پاک فوج کے بعد پرائیویٹ سیکٹر میں سب سے زیادہ ہے ۔پاکستان میں ہزاروں این جی اوز موجود ہیں جو مغربی ممالک سے اربوں ڈالر لیتی ہیں وہ کہیں نظر نہیں آئیں ،ہمیں فخر ہے کہ قوم سے ہی امداد لے کر قوم کو دی جا رہی ہے ،بھارت کی طرف سے پانی چھوڑنے اور پاکستان کو سیلاب کی صورتحال میں مبتلا کرنے کے حوالہ سے منصوبہ بندی کرنی ہو گی ۔حکومت کو چاہئے کہ اسکے لئے کام کرے کیونکہ بھارت ہر سال آبی حملہ کر سکتا ہے اس پانی کو روکنے اور بھارتی آبی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے سیاسی و مذہبی جماعتوں کو امیر جماعة الدعوة کا بھر پور ساتھ دینا چاہئے کیونکہ یہ سیاست کا وقت نہیں ،پاکستان شدید خطرات میں گھرا ہوا ہے اور ان خطرات سے بچائو کے لئے قومی وحدت و یکجتی ضروری ہے۔