قندھار (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں حکومت سازی کے معاملے پر طالبان کے دو سینیئر رہنماؤں کے درمیان تلخ کلامی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
طالبان ذرائع نے برطانوی نشریاتی ادارے کی پشتو سروس کو بتایا کہ طالبان کے شریک بانی اور عبوری نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر اور کابینہ کے ایک رکن کے درمیان صدارتی محل میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں ملا برادر کے منظر عام سے غائب ہوجانے کے بعد یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں کہ تنظیم میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں تاہم ان کی طالبان کی جانب سے تردید کردی گئی تھی۔
تاہم اب ایک طالبان ذرائع نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ نائب وزیر اعظم ملا برادر اور وزیر برائے مہاجرین خلیل الرحمان حقانی، جو حقانی نیٹ ورک کے سرکردہ رہنما بھی ہیں، کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا جب کہ صدارتی محل میں موجود دونوں رہنماؤں کے پیروکاروں نے بھی ایک دوسرے سے تکرار کی۔
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے رکن اور جھگڑے میں ملوث رہنماؤں میں سے ایک کے قریبی شخص نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ جھگڑا گذشتہ ہفتے ہوا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بحث طالبان کی نئی حکومت کے ڈھانچے سے متعلق شروع ہوئی کیوں کہ ملا برادر عبوری حکومت کے اسٹرکچر سے خوش نہیں تھے۔
کہا جارہا ہے کہ یہ جھگڑا افغانستان میں طالبان کی فتح کے کریڈٹ کے معاملے پر پائی جانے والی تقسیم کی ہی ایک کڑی ہے۔
مبینہ طور پر ملا برادر سمجھتے ہیں کہ طالبان کی فتح کا سہرا ان جیسے رہنماؤں کی سفارتکاری کے سر باندھنا چاہیے جبکہ حقانی گروپ کے سینیئر ارکان کی رائے ہے کہ افغانستان میں طالبان کی فتح لڑائی کے ذریعے حاصل کی گئی۔
خیال رہے کہ ملا برادر پہلے طالبان رہنما ہیں جنہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے براہ راست بات کی تھی۔ ٹیلی فون پر ٹرمپ سے ان کی گفتگو 2020 میں ہوئی تھی اور اس سے قبل انہوں نے افغانستان سے امریکی انخلا کے معاہدے پر بھی طالبان کی جانب سے دستخط کیے تھے۔
دوسری جانب حقانی نیٹ ورک حالیہ برسوں میں افغانستان کے اندر افغان اور غیر ملکی افواج پر خطرناک حملوں میں ملوث رہی ہے اور امریکا نے اس گروپ کو دہشتگرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی طالبان کی عبوری حکومت میں وزیر داخلہ ہیں۔
طالبان رہنماؤں کے درمیان اختلاف کی خبریں گذشتہ ہفتے ہی سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں جب ملا برادر اچانک منظر سے غائب ہوگئے تھے۔ یہ افواہ بھی پھیلائی گئی کہ وہ شاید مارے جاچکے ہیں لیکن طالبان کی جانب سے اس کی تردید کردی گئی تھی۔
طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ جھگڑے کے بعد ملا برادر کابل سے قندھار چلے گئے تھے۔ پھر گذشتہ روز ملا برادر نے مبینہ آڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ بیرونی دورے پر ہیں اور جہاں بھی ہیں ٹھیک ہیں۔
اس آڈیو پیغام کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ طالبان کا اصرار ہے کہ کوئی جھگڑا نہیں ہوا اور ملا برادر محفوظ ہیں تاہم وہ اس وقت کیا کررہے ہیں اس حوالے سے طالبان کوئی ٹھوس جواب نہیں دے پارہے ہیں۔
ایک طالبان ترجمان نے بتایا کہ ملا برادر طالبان کے رہبر اعلیٰ سے ملاقات کیلئے قندھار گئے ہیں لیکن بعد میں بی بی سی پشتو کو بتایا کہ وہ تھگ گئے ہیں اور کچھ آرام کرنا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل 2015 میں طالبان نے اپنے بانی رہنما ملا عمر کی موت کو بھی تقریباً 2 سال تک خفیہ رکھا تھا اور ان کے نام سے پیغام جاری کرتے رہے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملا برادر جلد ان قیاس آرائیوں کا خاتمہ کرنے کے لیے کیمرے کے سامنے آئیں گے۔
دوسری جانب طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے حوالے سے بھی کافی افواہیں گرم ہیں جو کبھی منظر عام پر نہیں آئے۔ وہ طالبان کے سیاسی، عسکری اور مذہبی امور کے سربراہ ہیں۔