آخر احساس ہے کیا

Car and Cycle Accident

Car and Cycle Accident

تحریر: مدثر اسماعیل بھٹی
فجر کی نماز پڑھنے کے بعد میں سیر کرنے کے لیے پارک کی طرف جارہا تھا۔ایک طرف سے کار بڑی تیز رفتاری سے آرہی تھی۔اور دوسری طرف سے سائیکل سوار جارہاتھا۔ کار والے نے سائیکل سوار کو ٹکر مار دی۔اور پیچھے موڑ کر بھی نہیں دیکھا۔کہ جس کو میں نے ٹکر ماری ہے۔وہ کیسا ہوگا۔ ہم نے اس کو اٹھایا اور ہسپتال لیکر گئے۔جہاں پر اس کی مرہم پٹی کروائی اور وہ دردسے رو رہا تھا۔اچانک اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگا۔کہ اس کو تھوڑا سا بھی احساس نہیں جس کو میں نے ٹکر ماری ہے۔کہ وہ زندہ بھی ہے۔کہ نہیں۔کاش اس کو یہ احساس ہوتا تو میں یہاں پر نہ ہوتا میں اس کی یہ باتیں سن کر سوچ میں پڑ گیا۔کہ یار اس نے کتنا قیمتی الفاظ بولا ہے۔جس کی کوئی قیمت ہی نہیں اور نہ ہی کوئی اس کی قیمت ادا کر سکتا ہے۔ کاش اس الفاظ کی ہم سب کو پہچان ہوجائے۔اس کے مفہوم کا پتا چل جائے۔یہ الفاظ آخر کار کہتا کیا ہے۔اس احساس نے کائنات بنانے کو مجبور کردیا۔

اگراس الفاظ کے معنی کا پتا چل جائے۔ہم سب کو تو ہم اس سے آگے نہ جاسکیں۔اگر اس الفاظ کا ہم عوام کوپتا چل جائے۔کہ احساس کیا ہے۔کیا تو کوئی آپس میں لڑائی نہیں کرواسکتا۔ہم سے امانت یعنی ووٹ لینے کے بعد اس ملک پاکستان میں کوئی کرپشن بھی نہ کرسکے۔کوئی ایک دفعہ جھوٹ بولے دوبارہ بول نہ سکے۔ اگر کوئی بولے تو سامنے کھڑا نہ ہوسکے۔لیکن ہمارے نام نہاد سیاستدانوں اوربیوروکریٹس اور ہمارا ملک پاکستان کوکوئی نقصان نہ دے سکیں۔ساری کی ساری بات ہے۔احساس کی۔ہمارے ملک پاکستان کے سیاستدانوں نے ہم کواس الفاظ کی پہچان آج تک نہیں ہونے دی۔اس لیے وہ آج تک جھوٹ بولتے آرہے ہیں۔کسی نے اس کو مذہب اسلام کے نام سے لوٹا اور کسی نے غربت ختم کرنے کے لیے عوام کی غربت توختم نہ ہوئی۔اپنی ضرور کرلی۔اور کسی نے ملک پاکستان کو سنوارنے کے نام پر لوٹا کسی نے آج تک ملک سنوار انہیں۔اپنے آپ کواور اپنے عزیز وآقارب کو ضرورسنوارہے۔کسی نے نہیں سنوارا اپنے محلے کو اپنے علاقے اور اپنے ملک کو کیا خاک سنواریں گے۔صرف اپنے گھر کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔جن لوگوں نے اپنا ضمیر ہمیشہ غیر مسلم کے ہاتھوں فروخت کیا ہو۔کیا وہ اپنی ذات کے علاوہ کچھ اور نہیں سوچ سکتے ہیں۔غیر مسلم ہمیشہ پہلے اپنے ملک اور پھر اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔

Feeling

Feeling

کوئی ایک کام جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بارے میں مخلص ہو کر کیا ثابت کردیں۔جس میں انھوں نے کمیشن نہ کھائی ہوئی ہے۔اپنے عزیزواقارب کو نہ نوازاہو۔پھر یہ ایم این اے۔ایم پی اے اپنے آپ کو کہتے ہیں۔کہ باضمیر ہے۔میں تو کہتا ہوں۔اگر یہ احساس کسی انسان میں نہیں ہے۔تو وہ انسان ہی نہیں۔اس نے خاک اپنے آپ کو بدلنا ہے۔اور پھر اپنے علاقہ کو اوراس طرح اپنے ملک پاکستان۔ان لوگوں کا خیال یہ ہوتا ہے۔کوئی آئے گا ہمارا مقدر کو درست کرئے گا۔جنہوں نے اپنی حالت خود نہیں بدلی۔اس قوم کو مکمل طور پر دنیا سے ختم کردیا جاتا۔اور ان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہوتا۔اس کی ایک زندہ مثال یہ ہے۔کہ ہمارے ملک میں کوئی ایسا کام دیکھا دے۔جو ایک آدمی کے لیے کیاہو یہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ایک عام آدمی ہمیشہ سوچ سوچ کردینا چھوڑ جاتا ہے۔کیا اس کا اس دنیا میں آزاد زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں تھا۔نہ اس کو تعلیم کی سہولت ملی اور نہ علاج ومعالجہ کی سہولت ملی وہ پیدا ہواتواس نے پاکستان کوٹیکس دینا شروع کیا۔اور جب وہ دنیا سے ٹیکس دے کر گیا۔لیکن یہ ملک پاکستان کے سیاستدان پیدا ہوتے ہیں۔ٹیکس لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ہمارا آنے کا کیا دوگئے۔اور جانے کا کیا دوگئے۔اس کی ایک زندہ مثال ہے۔سول ہسپتال جس کو ڈی ایچ کیو کہتے ہیں۔وہاں صرف غریب مریضوں کا علاج ہونا ہوتا ہے۔

لیکن وہاں ایل پی کی مد میں جور قم آتی ہے۔وہ صرف سیاسی اور مخیر حضرات کی نذر ہو جاتا ہے جن کو وہ بجٹ ایل پی کا ملانا ہوتا ہے۔اگر کسی نے یہاں سرکاری طور پر آپریشن کروانا ہوں تو وہ بازارآپریشن کا سامان لیکر دیں تو آپریشن ہوگا ورنہ اسے واپس بھیج دیا جاتا ہے یا اگر 3500روپے دیکر آپریشن کرواسکتا ہے اگر آج سول ہسپتال میں آپ جاکر دیکھے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ڈاکٹرز حضرات صرف صبح چیک کرنے بعد 24گھنٹے بعد ہی آئے گے جھنگ کے سرکاری ہسپتالوں صرف ڈاکٹرز حضرات صرف پیسہ کمانے آتے ہیں اعلی افسران منتھلی وصول کرنے۔ ان کوصرف ہسپتال سے صرف ذلیل ہونا ہوتا یا کسی سیاسی یا وڈیرے کاچٹھی یا فون کروانا پڑتا ہے۔اگر کوئی نہ کرواسکے۔وہ چاہیے مر بھی جائے اس کو پانی تک نہیں ملاتا۔یہ ہے انصاف اور یہاں پر جو ایم ایس بیٹھتے ہیں۔اور ساتھ وہاں کا اکاؤنٹ کلرک رزاق نامی شخص جو اپنے آپکو ایم ایس کا دائیں بازوکہتا ہے۔اس نے پچھلے دنوں تقریبا ایک کروڑ روپے کی رقم خردبردکی تھی۔پریس والوں کو پتا چل گیا۔اور انکوائری بھی ہوئی لے دے کرانکوائری ختم ہوگئی۔اور کچھ رقم بھی واپس جمع کروائی گئی۔ایک تو ہمارے سیاسی اور وڈیرے غریبوں کا حق کھاتے ہیں۔دوسرا اس ادارے کے انچارج ان کو احساس نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔اس ضلع جھنگ میں تین تحصیل ہیڈ کواٹرز ہیں۔ایک ڈی ایچ کیوہے۔اور بارہ آرایچ سی سنٹرہیں۔ایک سٹی ہسپتال ہے۔صرف ایک ڈی ایچ کیو ہسپتال کا صیح طریقے سے آڈٹ کروایا جائے۔توکروڑوں روپے کی کرپشن عیاں ہوگی۔

اگر ان کے پیٹ سے رقم نکالی جائے۔تو ایک یا دو کروڑ کی کرپشن تو کی گئی ہو گی۔رزاق نامی شخص جوایک سینئر کلرک ہے۔اس نے بھی بہت زیادہ کرپشن کی ہوئی ہے۔یہاں آپ کوایک مثال سٹی ہسپتال کی دیتا ہوں۔جو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس کا بجٹ 3کروڑ56لاکھ22ہزارروپے ہے۔جو صورتحال آج سے تقریبا 15سال پہلے تھی۔اب بھی وہی ہے۔اس طرح کے جتنے بھی آر ایچ سی سنٹر ہیں۔ان کی حالت زار اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔اور ان کی حالت زار اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔اور ان کو بھی اتنا ہی بجٹ ملتا ہے۔لیکن جاتا کہاں ہے۔جس طرح ڈی ایچ کیو کا بجٹ جاتا ہے۔اس طرح سٹی ہسپتال کا بجٹ بھی جاتا ہے۔سمجھ یہ نہیں آتی بجٹ استعمال بھی نہیں ہوتا تو پھر یہ جاتا کہاں ہے۔اور آڈٹ بھی OKہوتا ہے۔کیا ان کوپوچھنے والا کوئی نہیں یا پھرکسی میں احساس نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہی۔صرف آپ سٹی ہسپتال کے کلرک کواٹھا کر اس کی تفتیش کر کے اس سے پوچھ گچھ کی جائے۔اگر اس ہسپتال میں آپ لوگوں کی ماں۔بہن۔بیٹی۔بیوی۔بیٹا۔یاکوئی عزیزواقارب ہو اور اس کا علاج نہ کیا جائے۔اور وہ مرجائے۔تو تمہارے دل پر کیا بیتے گئی۔لیکن مرد ضمیر کے مالک جو لوگ اللہ پاک کو نہیں مانتے ان کو ان باتوں کا کوئی اسر نہیں ہونے والا۔ایسے لوگوں کو سخت سزا دینا چاہیے۔جو انسان کی قدر نہیں کرتے۔وہ میری نظر میں انسان ہی نہیں سٹی ہسپتال کے ایس ایم اواور کلرک کی داستان بھی ہر زباں پر عام ہے۔جنہوں نے سٹی ہسپتال کو ایک ڈسپنسری کی شکل دے رکھی ہے۔

Hospital

Hospital

اس ادارے کے ایس ایم او کا ایک معمول ہے۔9/15یا9/30پرہسپتال کے اندار آنا15منٹ یا20منٹ کرسی پر بیٹھنا اور پھر وارڈ میں مریضوں کو چیک کرنے کے لیے چلے جانا۔مزے کی بات تویہ ہے۔کہ وہ وہاں پر ڈیڑھ دو گھنٹے بیٹھے رہتا ہے۔اوراس سے مزے کی بات تو یہ ہے۔کہ وارڈ میں مریض داخل کوئی نہیں ہوتا۔عرصہ 10سے15سال کے عرصہ میں ڈاکٹر سائزہ کنول نے ہی مریضوں داخل بھی کیا۔اور آپریشن بھی کئے تھے۔لیکن اب ڈیڑھ سال سے وارڈ میں کوئی مریض بھی داخل نہیں ہوتا۔اور سٹی ہسپتال کے ایس ایم او ڈیڑھ گھنٹے وہاں پر کون سے مریض چیک کرتے ہے۔اورپھر اٹھ کر کلرک کے کمرے میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔12بجے یہاں سے اٹھ کر تھوڑی دیر اپنے کمرے میں جا کر مریضوں کو چیک کیا۔روزانہ مریضوں کوذلیل کرنا سٹی ہسپتال کے انچارج کی عادت میں شامل ہوچکا ہے۔کلرک کے کمرے میں ایس ایم او کا کیا کام ہوتا ہے۔ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ بوگس بلوں پر سائن کرنے کے لیے اور اس سے اپنا حصہ وصول کرنے جاتاہے۔جو کلرک کل تک چوکیدار تھا آج ایک کلرک ہے۔عملے کا کوئی کام ہو وہ پیسے لیکر کردیتا ہے۔کیا یہ کلرک سٹی ہسپتال سے تنخواہ نہیں لیتا۔ایس ایم او تنخواہ نہیں لیتا سٹی ہسپتا ل سے۔سروس بک کس نے تیار کرنی ہوتی ہے۔کیا کیسی کو کوئی احساس ہے۔سب کے سب تعلیم یافتہ ہیں۔علم رکھنے والے ہیں۔یہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی یہ لوگ اللہ پاک کی عدالت عظمی سے بری ہوجائیں گئے۔صاحب علم اگر یہ جانتے ہوئے بھی سود خوری۔کرپشن کرناحرام کسی کا حق کھانا حرام اور یہ ان پڑھ کرے علم کو نجانے والا کرئے۔

تو اللہ پاک سے معافی مانگے وہ بھی رو رو کر معاف کرنے والا معاف کردیتا ہیں۔اگر علم رکھنے والا ہواور سب کچھ جانتا ہواور پھر بھی کرئے تو کیا معافی ہے۔ نہیں یہ جتنیے بھی ہیں۔اور جانتے سب کچھ ہیں۔لیکن باز پھر بھی نہیں اور پھر کہتے ہیں۔کہ اللہ پاک معاف کرنے والے ہیں۔اللہ پاک کی رحمت دیکھیں اور ان کے کرتوت دیکھیں۔اس کو مانتے ہیں۔اسی پر اپنا ایمان رکھتے ہیں۔اور ایمان سے خارج ہونے والے کام بھی کرتے ہے۔لیکن میں تویہی کہوں گا۔جس نے اللہ پاک سے دوکھا کیا۔اس کی کوئی بخشش نہیں۔اور جس نے اس کے پیارے نبی ? کے ساتھ دوکھاکیا۔امتی کا دل دکھایا یا تنگ کیا۔اس کی تو معافی نہیں ہے۔ان کرپشن کے بادشاہ گرگس ان کو اتنا بھی احساس نہیں ہے۔یہ حرام کی کمائی ہوئی دولت جب دولت ان کی اولاد کے پیٹ میں جائے گئی۔اور وہ حرام کھانے کے بعد کیا تیرے ساتھ اخلاق اور پیار سے پیش آگئی۔جب تم اس عہدے سے فارغ ہوجاؤگے۔کیا تم کو اس بات کا احساس ہے۔جس اولاد کے لیے میں نے جھوٹ بولتا تھا۔کرپشن کرتا تھا۔لوگوں کوناجائز تنگ کرتا تھا۔

حرام اورحلال میں تمیز بھول چکا تھا۔اور آج وہی ایک گھونٹ پانی بھی دینے کو تیار نہیں۔جو دنیا میں کروگا۔وہی کاٹوں گا۔یہ ایمان ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے یہ میرے اللہ پاک کا فرمان ہے۔اتنا برا نہ کرکہ کل برداشت بھی نہ کرسکے۔ہمارے ملک پاکستان میں سزا جزا کا نظام صیح ہوجائے۔تو کسی کی جرات نہیں پاکستان کے کسی ادارے میں کرپشن کرسکے۔جو طاقت وار ہے۔اس ملک میں جوچاہیے کرسکتا ہے۔اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔تعلیم ایک کاروبار بن چکا ہے۔اگر تعلیم کو صیح طریقے سے استعمال کرتے آج یہ کرپشن کا نام بھی نہ ہوتا۔استاد کوروحانی باپ کادرجہ دیا گیا ہے۔لیکن اب استاد کی جتنی عزت ہے۔ آپ کو بھی پتہ ہے۔اور مجھ کو بھی ہراستاد نے کلاس میں کچھ بھی نہیں پڑھنا اور بچوں کومجبور کردینا کہ تم ٹیوشن پڑھ کرپاس ہونا ہے۔ورنہ فیل ہو جاؤگئے۔کیا خاک ہو گی۔آج استاد کی عزت۔اس نے تعلیم کو کاروبار سمجھکر پڑھنا ہے۔اگر اس ملک کے استاد۔ڈاکٹرز۔سیاسی۔بیوروکریٹس۔اللہ پاک سے ڈرنے لگ جائیں۔تو اس ملک کو خوش حال ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔اے میرے اللہ پاک ان لوگوں کے اندار احساس پیدا فرما دے۔کہ اپنے ملک کے ساتھ اور ان کے اداروں کے ساتھ اچھاسلوک کریں۔اللہ پاک قانون اور آئین جوان لوگوں نے خود بنایا ہے۔یہ اس پر قائم دائم نہیں ان کو ہدایت دے۔آمین
تھا یقین کہ خوشحال ہوگا میرا پاکستان
ٹوٹا پھر بھروسہ پہلے کی طرح ان لٹیروں سے

Mudasar

Mudasar

تحریر: مدثر اسماعیل بھٹی