صوبہ خیرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، اس حکومت نے ابتک عوام کو کیا دیا یا کیا نہیں دیا اس مضمون کو لکھنے کا مقصد اس پر تجزیہ کرنا قطعی نہیں ہے، اس موضع پر بھی لازمی لکھونگا، لیکن اس مضمون کا مقصداسلام آباد کے دو دھرنوں کے مخالف جوپارلیمینٹ میں بیٹھے ہیں اورجن میں سے ایک مولانا فضل الرحمان ہیں اُنکی سیاست کا تجزیہ کرنا ہے۔ ہمارئےملک میں ہر شخص جانتا ہے کہ مولانا ایک چالاک اور خودغرض سیاست دان ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے بارئے میں پاکستان میں صرف ایک رائے پائی جاتی ہے کہ مولانا جمہوریت پسندقطعی نہیں بلکہ مفاد پرست ہیں، جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف دونوں ڈکٹیٹر تھے
مولانا کےمفادات اُن سے پورئے ہوئے تو کیسی جمہوریت۔ مرحومہ بینظیربھٹو، سابق صدر پرویز مشرف، سابق صدر آصف علی زرداری، موجودہ وزیراعظم نواز شریف، دو سابق امیر جماعت اسلامی مرحوم قاضی حسین احمد اور سید منور حسن، مرحوم شاہ احمد نورانی کے ساتھ مولانا نے جب بھی سیاسی اتحاد کیا اُس میں جمہوریت کو نہیں اپنے،اپنی جماعت ، اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے مفادات کو مقدم رکھا۔
تحریک انصاف کےمخالفین کی جانب سےصوبہ خیرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لی جارہی ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک لانے کے قائد مولانا فضل الرحمان تھے جنہیں وزیراعظم نوازشریف کی اجازت کی ضرورت تھی اور وزیراعظم جو خودابھی تک پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کی حمایت کی آکسیجن پر چل رہے ہیں ابھی اس پوزیشن میں نہیں کہ مولانا کے اس اقدام کی حمایت کریں ، لہذا انہوں نے ملک کو درپیش سیاسی بحران اور آئی ڈی پیز سمیت بعض دوسرئے عوامل کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا کواپنی خواہش کی تکمیل کرنے کی اجازت نہیں دی۔
میں فضل الرحمان کو “مسٹر مولانا فضل الرحمان” کہکر بھی پکارتا ہوں، جسکی وجہ یہ ہے کہ آپنے ایسے ٹیپ ریکارڈ تو دیکھے ہونگےجن میں ریڈیو اور آڈیوپلیرہوتے تھے جو “ٹو ان ون” کہلاتے تھے، خبروں کے وقت خبریں اور گانوں کے وقت گانے، فضل الرحمان بھی ہمارئے وہ سیاست دان ہیں جنہیں ہم “ٹو ان ون” کہہ سکتے ہیں یعنی مسٹر مولانا فضل الرحمان، مولانا الیکشن لڑتے ہیں تو وہ مولانا ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اسلام کے نام پر ووٹ مانگتے ہی۔ الیکشن ختم ہونے کے بعد مولانا مسٹر بن جاتے ہیں، پھر مولانا کو اسلام کی فکر کم اور اسلام آباد کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔
چونکہ وزارت، حکومت اور اقتدار سے دوری مولانا کے شرعی نظریئے کے خلاف ہے، لہذا موجودہ حکومت کے بننے کے کچھ ہی عرصے میں مولانا نواز لیگ کے اتحادی بن کر وزارتیں کمانے میں کامیاب ہوگئے۔ اُن کی جماعت کے دو اہم ارکان اکرم درانی اور مولانا غفور حیدری جن کا شمار مسٹر مولانا فضل الرحمان کے انتہائی قابل اعتماد اور قریبی رفقاء میں ہوتا ہے ، انہوں نے وفاقی کابینہ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھائے، مولانا تو ہیں ہی سدا بہار کشمیر کمیٹی کے چیرمین، جسکو ایک وزیر کا درجہ حاصل ہے۔ مولانا فضل الرحمان اس سے پہلے بھی کشمیر کمیٹی کے چیرمین رہے ہیں لیکن صرف اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے انہوں نے کچھ نہیں کیا۔
Elections
انتخابی جلسوں میں مولانا سادہ لوح عوام کو بتاتے ہیں کہ “تمہارے پاس دو راستے ہیں، ایک راستے پر مختلف چیزیں ہیں، بلا ہے، تیر ہے، شیر وغیرہ ہیں اور دوسری طرف کتاب ہے، قرآن ہے۔ بتاؤ تم کس کے ساتھ ہو۔ یاد رکھو کبھی کتاب اللہ کو مت چھوڑنا۔(مولانا کی جماعت کا انتخابی نشان کتاب ہے، جسے وہ قرآن مجید کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ مئی 2013ء کے انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے کوشش کی کہ اس کتاب کو کھول کر اس کے صفحات پہ 2+2=4 لکھ کے بلٹ پیپر پر چھاپا جائے تو مولانا نے وہ ہنگامہ کیا کہ یہ فیصلہ واپس لینا پڑا اور کتاب کھل نہ سکی)۔
مولانا کا مزید یہ فرمانابھی ہے کہ ہمارے خلاف کسی اور جماعت کو ووٹ دینا حرام ہے، ہمارے مقابلے میں امیدوار سامنے لانا گناہ ہے اور جو جمعیت کے مقابلے میں آتا ہے وہ دین کے مقابلے میں آتا ہے۔ مئی 2013ء کے انتخابات میں مولانا کو عوام نے زیادہ لفٹ نہیں کرائی اور مولانا کی جماعت کو صوبہ خیبر پختونخوا میں صرف 16 سیٹیں ملیں اور 16 ہی نون لیگ کی ہیں جبکہ تحریک انصاف کی 45 سیٹیں ہیں اور اُس نے جماعت اسلامی کو ساتھ ملاکرصوبہ میں اپنی حکومت بنائی ہوئی ہے لیکن انتخابات کے بعد سے ہی خیبر پختونخوا میں اتحادی حکومت بنانے کے لیے مولانا نے نون لیگ سمیت امریکی سفیر کے دروازے تک بھی دستک دی مگر شنوائی نہیں ہوئی۔
جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی خیبرپختونخوا میں تبدیلی لانے کی تمام کوششیں اس وقت بےثمرثابت ہوئیں ہیں۔ رواں ہفتے مولانا نے پوری سیاسی توانائیوں اور وضع کردہ حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کو تبدیل کرنے کے لئے تیاری کی، مگر کامیاب نہ ہوسکے۔کوئٹہ میں کھڑئے ہوکر 23 اکتوبر کو ایک مرتبہ پھر مسٹر مولانا فضل الرحمن اپنے مفادات کے حاصل کرنے کےلیے بلبلا رہے تھے، وہ فرمارہے تھے کہ عمران خان کچھ نہیں، وہ کسی کی ڈگڈگی پر ناچ رہا ہے، اسلام آباد میں طویل ترین دھرنے کا نہیں مجرے کا ریکارڈ بنا، ملک چالیس سال کی کرپشن سے اتنا تباہ نہیں ہوا جتناچالیس دن کے دھرنے سے ہوگیا۔
اسے کہتے ہیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار، مولانا نے آصف زرداری اور نواز شریف کی کرپشن کو دھرنوں کی آڑ میں چھپا دیا۔ نواز شریف کی نمک حلالی میں سرگرم مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ پاکستان میں مغربی تہذیب کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں، دھرنوں میں رات کو مجرے ہوتے ہیں لیکن اس کو بڑے فخریہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ مولانا کے اصل الفاظ تھے کہ” دھرنے دن میں ہوتے ہیں ، رات کو مجرئے ہوتے ہیں”۔ مولانا کے اس ناشاستہ جملے کو صرف چند منٹ ٹی وی اسکرین پر دکھایا گیا
اُس کے بعد اس بیان کو نہ ٹی وی اسکرین پر دیکھا گیا اور نہ ہی نیٹ پر آنے والے اخبارات میں، اس لیے کہ شاید میڈیا کو یہ احساس ہوا کہ یہ بیان گھروں میں دیکھا اور سنا جائے گا، لہذا اسکو نہ دکھایا جائے اور نہ ہی سنایا جائے۔ مولانا صاحب آپسےایک گذارش ہے کہ اپنے عزیزوں اور دوست احباب میں معلوم کروایں کہ ان میں سے کتنے اسلام آباد کے مجروں میں شامل تھے، یقینا سب آپکی جماعت میں نہیں ہونگے، آپکو ضرور مل جاینگے پھر اُن سے اپنے اس ناشاستہ جملے کے ساتھ اپنے خیالات کا ضرور اظہار کریں جو جواب ملے اپنی اگلی کسی تقریر میں ضرور بیان فرمایں۔اب تو آپکی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ فضل الرحمان ہمارئے وہ سیاست دان ہیں جنہیں ہم مسٹر مولانا فضل الرحمن “ٹو ان ون” کہہ سکتے ہیں۔