پاکستانی عوام کی بدقسمتی !

Pakistan

Pakistan

تحریر : اختر سردار چودھری

پاکستانی قوم کی بد قسمتی دیکھیں کہ اسے اول تو مخلص، ایماندار، محنتی ،ذمہ دار، محب وطن لیڈر ہی نہیں ملے اور اگر ملے بھی تو اس نے ان کی قدر نہیں کی لیکن ان کے مرنے کے بعد ان کی قدر کی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مردہ قوم ہے اور مردہ پرست ہے ،بلکہ پاکستان کی عوام کو قوم کہنا ہی درست نہ ہو شائد ایک بے سمت ہجوم ہے ،اس کا کوئی نظریہ نہیں ہے ۔دکھ کی بات یہ ہے کہ جس نظریہ پر اس نے الگ ملک حاصل کیا اس نظریہ پر بھی اب سوال اٹھائے جاتے ہیں اور جو ایسا کرتے ہیں ان کو دانش ور کہا جاتا ہے ۔ہماری عوام کے عقل و شعور کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس قوم کے آئیڈیل محمد بن قاسم ،ٹیپو سلطان،صلاح الدین ایوبی کی بجائے

بدمعاش ،فلمی اداکار ہیرو اور ولن ہوتے ہیں ۔ہماری قوم (لفظ قوم سے معذرت کے ساتھ )اپنے لیڈروں کی تمام تر بد اعمالیوں کو جاننے کے باوجود ان پر (اپنے مفادات،خوف،لالچ یا کسی بھی اور وجہ سے)اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔عوام کو ہمیشہ نعرہ لگا کر کبھی مذہب کے نام پر ،کبھی لبرل ازم کے نام پر ،کبھی پاکستان کے نام پر ،کبھی روشن خیالی کے نام پر،ریاست اور سیاست کا نعرہ لگا کر ،خلافت کے لیے اور کبھی جمہوریت کے لیے بے وقوف بنایا گیا ،ایسا اتنی بار ہوا کہ اب اگر ان کو کوئی مخلص لیڈر مل بھی جائے تو عوام کی اکثریت اس پر اعتبار نہیں کرتی ۔جب تک عوام کو اس کی پہچان ہوتی ہے وہ اس دنیا سے جا چکے ہوتے ہیں ۔ہمارے لیڈروں کی اکثریت کے ظاہر و باطن ،قول و فعل میں منافقت بھری ہوئی ہے اور ان کو اپنے مفادات ہی سے مطلب ہے۔

عوام کے عقل و شعور کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے جس کے اصلی ،سچے ،دنیا کے سب سے بڑے لیڈر ،جس قوم کے رہبر ، رسول ۖ نے فرمایا ہو کہ آپس میں تفرقہ میں نہ پڑو ،مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسا نہیں جاتا،سود اللہ سے جنگ ہے ،مسلمان جھوٹ نہیں بول نہیں سکتا ۔جس کا وعدہ نہیں اس کا دین نہیں ۔یہ اور ایسی بے شمار احادیث ہونے کے باوجود اور سب کا سب کو ان کا علم ہونے کے باوجود ہم عوام ٹکڑوں میں بٹ گے ہیں ،ایک سوراخ سے کئی بار ڈسے جا چکے ہیں ،سودی معشیت میں رہ کر اللہ سے جنگ کر رہے ،اور جھوٹ ہمارا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے وعدوں کی اہمیت نہیں کہ اس بارے میں پوچھا جائے گا ،اور اللہ کے اس واضح فرمان کہ جو جس کی کوشش کرتا ہے اسے وہی ملتا ہے اللہ کسی کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت بدلنے کی جہدوجہد نہ کرے اگر وہ جہدو جہد کر ے تو اللہ نے راستے کھول دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے اور اس میں اتحاد بھی ایک شرط ہے۔

اس ملک کے عوام کی بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں ایک جماعت 70 سال سے اسلامی نظام کا نعرہ لگاتی رہی ،اس کے لیے قربانیاں دیتی رہی ،اس جماعت پر پیسے لے کر اسلام نافذ کرنے کا الزام بھی لگایا گیا اس نے ماضی میں ہمیشہ ان کا ساتھ دیا جن کے خلاف اسے جہاد کرنا تھا لیکن یہ عوام اس کو ابھی تک نا پہچان سکی جو اب بندوں کے بنائے ہوئے نظام حکومت جمہوریت کو سپورٹ کر نا شروع کر دیں ،حق سچ کا ساتھ اس لیے نا دیں کہ ایسا دوسرا کر رہا ہے ان کا نام نہیں بن رہا ان کو کریڈٹ نہ ملے گا ،وہ اتنے برسوں میں جمہوریت کے برعکس اسلامی نظام حکومت کا منشور و قانون نہ بنا سکی ہو جسے نافذ کرنے لیے جہدو جہد کرے ۔اور اس جماعت کا اصرار ہو کہ اسے نیک سمجھا جائے ۔صالح کہا جائے۔

Democracy

Democracy

اس ملک کی عوام کی اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ مذہب کے نام پر ،عوامی حقوق کے لیے ،شہدا کے خون کا بدلہ لینے کے لیے ،جعلی جمہوریت کے خاتمے کے لیے 70 دن تک ہزاروں کارکنوں کو بارش میں ،طوفان ،آندھی میں ،بھوک پیاس میں ڈٹے رہنے والے ،مخلص ایماندار ،جان قربان کرنے والے افراد سے مشورہ کیے بناں اس جماعت کا لیڈر ڈیل کر لے اور پھر اس کو مانے بھی نا جب کارکنوں کو اپنی ضد پر قربان کر ناہو تو تو عوامی پارلیمنٹ لگائے اور جب جہدوجہد کو تبدیل کرنا ہو ختم کرنا ہو تو پھر عوامی پارلیمنٹ کیوں نا لگائے جبکہ اس ڈیل کی باتیں کئی روز پہلے سے ہو بھی رہی ہوں کہ اندر کھاتے ایسا ہو رہا ہے پھر اتنی جلد بازی میں یہ قدم اٹھا لے۔ اور اس کا کہنا یہ بھی ہو کہ ہم سچ بول رہے ہیں ہم مخلص ہیں ،ہم پر اعتبار کیا جائے ۔اس کے باوجود عوام اس کے لیے اب بھی جان قربان کرنے کو تیار ہو۔

اس ملک کی عوام کی بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں کئی ایک جماعتیںجن کی ایک ایک صوبے میں 30 سال حکومت بھی رہی ہو اور وہ کہے ہم کو وقت نہیں ملا کام کرنے کا عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کرنے کاہماری اگلی نسل کو بھی حکومت کا موقع دیا جائے تاکہ وہ آپ کی اچھے طریقے سے خدمت کر سکے اور عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت اس کے ساتھ اٹھ کھڑی ہو یہ ہے عوام کو ملنے والا شعور یہ ہے عوام جس کو اصرار ہے کہ اسے قوم کہا جائے اور دنیا کی سب سے بہتریں قوم کہا جائے جس کا کوئی وژن ہی نہیں ہے کوئی اصول ہی نہیں ہے

جس کے پاس اچھائی اور برائی ناپنے کا پیمانہ (قرآن و حدیث )ہونے کے باوجود وہ ابھی تک اپنی سمت طے نہ کر سکے۔ میرے ملک کے حکمرانوں ،سیاست دانوں ،دانشوروں ،نقادوں ،صحافیوں ِاینکر پرسنوں تم کو اللہ کا واسطہ جھوٹ کے پردوں میں سچ کو نہ چھپاو ۔اپنی نسل کے لیے ،اس ملک کے لیے ،اسلام کے لیے اور سب سے بڑھ کر اپنی آخرت کے لیے سچ بولیں ،سچ کا ساتھ دیں ،سچ لکھیں ۔اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے (اورتوفیق کوشش سے ملتی ہے )

Akhtar Sardar Choudary

Akhtar Sardar Choudary

تحریر : اختر سردار چودھری