اسلام مخالفین کی نظر میں سب فرقے مسلمان ہیں

Newspapers

Newspapers

تحریر: محمد یاسین صدیق
میرا مشاہدہ ہے کہ شوشل میڈیا، اخبارات و رسائل پر اور دیگر ذرائع ابلاغ پر دہریوں،غیر مسلموں، قادیانیوں ،ہندووں وغیرہ کی طرف سے اسلام کو تضحیک کا نشانہ بنانے اور عوام الناس کو دین اسلام سے دور کرنے کیلیے جو سب سے زیادہ کارگر ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے وہ قرآن یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بلکہ صرف اور صرف ہمارے مذہبی رہنماوںکے بیانات ہوتے ہیں۔ ان کی کتابیں ،ان کے اپنے اپنے مسلک کے تراجم، تفسیریں ہوتی ہیں۔ اسلام مخالفین کی جانب سے یہ کام بہت سائینٹیفک طریقے سے ایک مہم کے طور پر کیا جا رہا ہے کام کرنے والوں کو تربیت دی جاتی ہے اور ان کو تنخواہ دی جاتی ہے۔

ان کا مقصد ہماری نئی نسل کو گمراہ کرنا م ان کے عقائد میں تشکیک پیدا کرکے اسلام سے بدظن کرنا ہے ان کا شکار عام طور پرکم علم مسلمانوں بنتے ہیں ۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ ان کے خلاف اللہ لی۔۔ خوشنودی کے لیے بہت سے گمنام افراد ایک مشن بنا کر کام کر رہے ہیں ۔لیکن ان کی تعدا بہت کم ہے اور ان میں سے اکثریت ان کی ہے جو میری طرح کے ہیں عام مسلمان ہیں۔کوئی قرآن پر اعتراض کرے تو میرے جیسے یہ بھائی اس کا آسانی سے جواب دے لیتے ہیں۔اگر پیغمبر اسلام ۖکی سیرت یا احادیث پر اعتراض کیا جائے تو بھی میں کسی حد تک دفاع کرلیا جاتا ہے لیکن سب سے زیادہ شرمندگی ،پریشانی و مشکل ہمارے علما ء کی کتابوں ، اقوال و افعال کا دفاع کرنے میں ہوتی ہے۔

اصل پریشانی (کہ مولویوں کی بات کا دفاع کرنے میں پریشانی) کا سبب شخصیت پرستی ہی ہے جس سے اسلام نے ویسے ہی منع کیا ہے ۔ ہم کسی کی رائے قبول کرنے کے پابند نہیں ہیں جو قرآن و سنت کی غلط تشریح پر مبنی ہوچاہے وہ کوئی بھی کرے اس طرح ایک مسلمان کا موقف ٹھوس، مضبوط اور فرقہ پرستی سے بالاتر ہو جاتاہے.لیکن اس کا فیصلہ کون کرے کہ ہم نے جو موقف اپنایا ہے وہ کتنا درست ہے۔ہمارے ہاں تحقیق کرنے کو فساد سمجھا جاتا ہے اور جو سچ کی تلاش میں ایسا کر لیتا ہے اس کا انجام بھی ایک نئے مکتب فکر ،فرقے ،گروہ پر ہوتا ہے اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں تازہ ترین مثال جماعت اسلامی ،دعوت اسلامی اور ڈاکٹر طاہر القادری کی تحقیق ہے

مولانا پرویز ہیںغامدی صاحب کا نام لے سکتے ہیں ایسے اور بہت سے علما ء ہیں ڈاکٹر نصیراحمد ناصر ،پروفیسر حسن علی مظفر ،مولانا حبیب الرحمن کاندھلوی ،وغیرہ۔ اب مسلمانوں میں اتنے فرقے بن گئے ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے ایک میگزین میں ان کی تعداد 110 سے زائد لکھی گئی ہے یہ تو ایک بات ہے دوسری طرف جو غیر مسلم ہیں ان کی نظر میں ہم سب مسلمان ہیں۔یہ الگ بات کہ ہم ایک دوسرے کو مسلمان خیال نہیں کرتے۔

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں

اسلام مخالفین کی نظر میں سب فرقے مسلمان ہیں ہماری اسی فرقہ فرقہ ہو جانے والی خامی ،کمزوری ،کو ہمارے مخالفین حدف تنقید بناتے ہیں ۔ایسا کیوں ہے ہم اس فرقہ پرستی میں کیسے مبتلا ہو جاتے ہیں اس کے اسباب کیا ہیں ان میں سے چند ایک کا ذکر کر رہا ہوں یہ عام مشاہدے کی بات ہے ہمارے بچوں میںجو سب سے نالائق ہو ، معذور ہو ،اسے کو ذہنی یا جسمانی بیماری ہو ۔نابینا ہو اسے ہم (سب ایسا نہیں کرتے ) قرآن کا حافظ بنانے کے لیے مسجد یا مدرسے میں داخل کر ا دیتے ہیں ۔اسے عالم بناتے ہیں (وہ بھی صرف ایک فرقے کا) وہ بچہ ہمارا مذہبی رہنما بنتاہے۔دوسری طرف ذہین اور تندرست بچوں کو ہم انگریزی تعلیم دلاتے ہیں۔

میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم بچوں کو انگریزی تعلیم نہ دلائیں ۔کہنا یہ ہے کہ ہم جب ایسے بچوں کو جو معذور ہیں ان کو مذہبی تعلیم دلائیں گے۔تو پھرسوچیں کہ رہنما کیسے پیدا ہوں گے دوسری بات ہمارے مدرسوں میں عام طور پر بچوں کو مدرسوں میں کھانا وغیرہ دیا جاتا ہے وہ عام طور پر مانگ کر دیا جاتا ہے ،خیرات ،چندے ،یا کسی صاحب حثیت کی مدد کا ہوتا ہے ۔ان بچوں کو اس بات کا احساس بھی ہوتا ہے دیکھنے میں یہ بات بھی آتی ہے کہ ان بچوں میں اکثریت غریب گھروں کے بچوں کی ہوتی ہے ۔مزید دیکھیں تو ایسے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیںاس کا سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کو معاشرے میں کوئی اعلی عہدہ نہیں ملتا ،وہ معاشرے میں انتظامی امور ،سیاسی عہدے ، اونچا مقام ، وہ عہدے جو خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں ان سے یہ بچے دور ہوتے ہیں اسی طرح ہمارے ہاں مولوی کو نوکر رکھا جاتا ہے اسے خیرات دیتے ہیں اس کی پوری زندگی تنگی میں بسر ہوتی ہے۔

Muslims

Muslims

جو مولوی خود خودی سے دور ہو وہ دوسروں کو کیا خودی کا درس دے گا ۔وہ خود احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے نفسیات کے علم کی شد بد رکھنے والے اس با ت کو آ سانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ احساس کمتری والے عام طور پر رد عمل احساس برتری کا کرتے ہیں جس میں شدت ہوتی ہے۔ اس بات سے ہم سب واقف ہیں کہ ہمارے معاشرہ جو کہ مغربیت کا ذہنی غلام بن چکا ہے اس میں انگریزی کو علم سمجھا جاتا ہے زبان نہیںجو انگلش جانتا ہوں وہ علم والا سمجھا جاتا۔اب ان سب حالات میں جو بچے تعلیم حاصل کریں گے وہ فرقہ پرست ہوں گے ان میں شدت ہو گی یہ اور ایسی بہت سی باتوں کو سوچنا چاہیے ۔مجھے مسلمانوں کے زوال پر بہت دکھ ہے اس زوال کے بے شمار اسباب ہیں ان میں سے ایک سبب ہمارا درس نظامی کا کورس بھی ہے جو مدرسوں میں کروایا جاتا ہے اور اس کو کرنے کے بعد عالم بنا دیا جاتا ہے

اس کا سبب یہ بھی ہے کہ ہر جماعت ،مسلک ،مذہب کا الگ الگ علماء بنانے والے نصاب ہے ان کو فرقہ کہلوانا پسند نہیں ہے ۔کون سا عالم بنانا ہے ،اس کے علاوہ ہمارا نصاب بھی حصہ دار ہے اب ایک اور دکھ بھری بات سنیں ہمارے علما نے قرآن کو دین اسلام کو سمجھنا بہت مشکل بنا دیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے قرآن پاک کی عربی عبارت پڑھتے ہوئے ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پڑھنا چاہیے ۔اب یہ فیصلہ اس سے بھی مشکل ہے کہ ترجمہ کس عالم کا پڑھنا چاہیے؟(اس پر ایک الگ سے کالم لکھا جائے گا ان شا اللہ)میں کہہ رہا تھا کہ ہم مسلمانوں نے قرآن اور اسلام کو سمجھنا مشکل ترین بنا دیا ہے میرے جیسا عام مسلمان جو سچائی کی تلاش میں ہو اور جنت میں جانے کا خواہاں وہ سچائی کہاں سے پائے گا۔

حالانکہ قرآن میں ایک ہی سورت میں سورت قمر میں ارشاد ربانی ہے کہ ۔ہم نے دین اسلام کو سمجھنا آسان کر دیا ہے ،ہے کوئی سمجھنے والا ۔لیکن آپ مدرسے و مسجد میں ہمارے مذہبی رہنما وں کی تقاریر سنیں یا مختلف مکاتب فکر کی کتابیں پڑھیں تو یہ محسوس ہو گا سچائی کا ملنا مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔ اس وجہ سے ہماری نئی نسل کو ایک تو دین اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات کا علم نہیں ہے دوسرا وہ جب سچائی پانے کی کوشش کرتے ہیں تو الجھ جاتے ہیں اور اسے بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ہم نے فرقہ پرستی میں پڑ کر اپنے فرقوں کو مکمل اسلام و دین سمجھ لیا ہے ۔اپنے اوپر تحقیق کے دروازے بند کر لیے ہیں ۔حتی کہ ہم دوسرے مکتبہ فکر کی کتاب نہیں پڑھتے ،ان کی مسجد میں نماز نہیں پڑھتے ۔تو پھر کیسے آخر کیسے ہم سب مل کر اللہ کی رسی کو تھامیں گے ۔کیسے ہم متحد ہو سکتے ہیں۔کیسے ہم شوشل میڈیا ہو یا دیگرذرائع ابلاغ ہوں ان میں غیر مسلم عقائد و نظریات کا بھر پور مقابلہ کر سکتے ہیں۔

Mohammad Yaseen Siddiq

Mohammad Yaseen Siddiq

تحریر: محمد یاسین صدیق