بٹ ویسے تو لاہور سمیت پنجاب میں بسنے والا ایک بڑا قبیلہ ہے مگر آج میں یہاں ذکراسی قبیلے کے تین لاہوری نوجوانوں کا کروں گا جنہوں نے مجھے زندگی میں کچھ لمحے کیلئے سوچنے پر مجبور کر دیا۔َََ ٭سلمان بٹ: سلمان بٹ 07 اکتوبر 1984ء کو لاہور میں پیدا ہوئے اس کا نام پہلی دفعہ اس وقت سنا جب 3 ستمبر 2003ء کو پاکستان اور بنگلہ دیش کے خلاف ملتان ٹیسٹ میں اس نے انٹرنیشنل کرکٹ کیریئر کا آغاز کیا پھر 22 ستمبر 2004ء کواس نوجوان نے سائوتھ ہمپٹن میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنے ون ڈے کیریئر کا آغاز کیا۔بائیں ہاتھ کے بلے باز اور دائیں ہاتھ کے آف اسپنر کے طور پر اس نوجوان نے بہت جلد کرکٹ کے حلقوںمیں اپنا لوہا منوایا۔
بہت کم دنوں میں یہ نوجوان مجھ سمیت کئی نوجوانوں اور بوڑھوں کا پسندیدہ کھلاڑی بن چکا تھاپھر وہ دن بھی آیا جب 17 جولائی 2010ء کوہمارے اس پسندیدہ کھلاڑی کو قومی ٹیسٹ ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا مگر ہماری یہ خوشی ذیادہ دیر تک نہیں رہی کیونکہ اگلے ہی مہینے انگلینڈ کے خلاف لارڈز ٹیسٹ میں دو اور کھلاڑیوں سمیت سلمان بٹ پر اسپاٹ فکسنگ کا الزام لگاکہ ایک بکی مظہر مجید سے ان کے تعلقات ہیں اور انہوں نے اس سے پیسے لئے ہیں جس کی وجہ سے پر انہیں کھیل سے روک دیا گیا۔
کئی سماعتوں کے بعد بالاخر 05 فروری 2011ء کو تین رکنی جیوری نے اپنا فیصلہ سنا کر سلمان بٹ پر 10 سال کیلئے کرکٹ کھیلنے پر پا بندی عائد کردی۔ اس روز جب میں نے یہ خبر سنی تو اس لاہوری نوجوان نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر کیوں ؟؟؟ کیا ضرورت تھی؟؟ کیا پیسے کی کمی تھی یا کوئی مجبوری تھی؟؟؟ اور اس نوجوان کے پاس پیسہ نہیں تھا تو اس نے بکی سے پیسے لئے اگر ایسا نہیں تھا تو پھر کیوں اس نے چند پیسوں کی خاطر اپنی کیریئر دائو پر لگا دی اور پوری دنیا میں پاکستان کا نام بدنام کیا؟؟
Farhan Butt
فرحان بٹ: فرحان بٹ کی پیدائش تو لاہور کی تھی مگر اب رہائش کراچی میں تھے اور ان کے والد محترم کراچی کے ایک نجی یونیورسٹی میں لیکچرار تھے ان سے ملاقات اس وقت ہوئی جب ہم نے کراچی کے ایک نجی کالج میں داخلہ لیا تو وہاں وہ ہمارے ہم جماعت تھے اس کی خوش مزاجی کی و جہ سے ہم بہت جلد ہی گھل مل گئے اور ہمارے حلقہ یاراں (gathering)کا ایک اہم رکن بن گیا۔ درمیانی قد کے مالک عینک پہنے فرحان بٹ کو خوش مزاج اور ہنس مک ہونے کی وجہ سے سب دوست پیار سے” عینک والا جن” پکارتے تھے۔ فرحان بٹ پڑھائی کے معاملے میں بہت حساس تھے اس وجہ سے وہ پڑھائی میں اچھے تھے جس کے وجہ سے وہ ہمارے حلقہ یاران کے لاڈلہ ہونے کے ساتھ ساتھ تمام اساتذہ کے بھی لاڈلہ تھے۔ ”عینک والا جن” جہاں پڑھائی میں بہت اچھے تھے وہیں فٹ بال کے بہت اچھے کھلاڑی بھی تھے۔
وہ عالمی شہرت یافتہ فٹبالر پیلے سے بہت متاثر تھے ہر قت پیلے ہی اس کا موضوع بحث رہتا۔ خوش اخلاقی، خوش مزاجی، محنتی اور اساتذہ کے احترام کے ساتھ ساتھ کئی اور خوبیوںکے مالک فرحان بٹ میں ایک بری عادت بھی تھی کہ وہ موٹرسائیکل پر ون ویلنگ کے حدسے ذیادہ شوقین تھے (کراچی کے اکثر نوجوانوں میں یہ عادت پائی جاتی ہے) فرحان کے گھر والے اس کے اس عادت سے سخت پریشان تھے اس بات کا پتہ ہمیں اس دن چلا جس دن فرحان نے کہا کہ آج تمام دوستوں کا کھانا ہمارے گھر ہے اس دن جب ہم گھر پہنچے توآنٹی(فرحان کی امی) نے رورو کر ہم سب سے درخواست کی کہ آپ فرحان کے دوست ہیں آپ فرحان کو سمجھائیں کہ وہ اپنی یہ عادت چھوڑدیں اس دن کے بعد ہم دوستوں نے فرحان پر زور دیا کہ وہ اپنی یہ عادت چھوڑ دیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے ہم تمام دوستوں سے وعدہ کرلیا کہ آندہ وہ ون ویلنگ نہیں کریں گے۔
مگر عادت پختہ تھی کہاں ختم ہونے والی تھی لیکن اس دن کے بعد یہ ضرور ہوا کہ فرحان سب دوستوں سے چھپ کر ون ویلنگ کرتا تھا اور ہم سمجھ رہے تھے کہ اس نے ون ویلنگ چھوڑدی ہے۔پھر کالج ختم ہوئی ہم بھی ادھر ادھر ہوگئے فرحان سے فون پر رابطہ تھا جب کراچی جانا ہوتا تو ملاقات بھی ہوجاتی مگر ایک دن ایک دوست کا فون آیا کہ فرحان بھائی کا ون ویلنگ کرتے ہوئے حادثہ (accident)ہوگیا ہے اور وہ اب ہم میں نہیں ہے ہیں پہلے تو مجھے یقین نہیں آرہا تھاپھر بار بار مجھے آنٹی کے آنسو یاد آرہے تھے۔
میں خود کو معاف نہیں کر پا رہا تھا کیونکہ بحیثیت دوست میں فرحان کو اس غلط راستے سے نہیں ہٹا سکا تھااور اسی غلط عادت نے اس کی جان لی تھی۔ جب کراچی جاکر ہم فرحان کے گھر تعزیت کیلئے پہنچے تو اس روز آنٹی کے آنسو دیکھ کرمجھے پھر سے وہی دن اور اس دن کے آنٹی کے آنسو یاد آگئے میں خود کو ہی اس حادثے کا ذمہ دار سمجھ رہا تھا اور مجھے خود سے گویا نفرت ہورہی تھی وہ میری زندگی کا انتہائی اہم دن تھا وہ آنٹی کے آنسو آج بھی مجھے یاد ہے اور جب کبھی مجھے یاد آتے ہیں تومیں خود کو کوستا ہوں میں آج تک خود کو معاف نہیں پایا تھا۔
GULLU Butt
گلوبٹ:جب 17جون کو لاہورمیں پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹریٹ پر غیر قانونی رکاوٹیں ہٹانے کیلئے پولیس نے کاروائی کی تو وہاں پویس کے ساتھ ایک مونچھوں کو تائو دیتا ہوا شخص ہمیں ہمارے میڈیا نے دکھایاجب اس شخص کے کر توت دیکھے تو سوچنے لگا کہ یہ پاکستان ہے یا کوئی ہندی فلم ہے جہاں ایک آدمی ہاتھ میں ڈنڈا لئے پولیس کے سامنے مختلف گاڑیوں کے شیشے توڑرہا ہے بلکہ جب وہ تھک جاتا ہے تو کولڈڈرنک لاکر پولیس کے ساتھ بیٹھ کر نوش جان کرتا ہے جب پتہ لگانے کی کوشش کی کہ بھلا یہ شخص کون ہے تو پتہ چلا کہ کہ یہ لاہور فیصل ٹائون کے رہائشی شاہد بٹ عرف گلو بٹ ہیں جس کا تعلق لاہور کے معروف کاشی گینگ سے ہے اور ساتھ ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکن اور پولیس ٹائوٹ بھی ہیں(وہ الگ بات ہے۔
جناب سعد رفیق صاحب موصوف کو پہچاننے سے انکاری ہیں)وہ اس سے پہلے بھی لاہور میں وغوا برائے تاوان، زمینوں پر غیر قانونی قبضہ اور دیگر جرائم میں ملوث رہا ہے۔ان تمام معاملات میں اسے پولیس کی مکمل سرپرستی حاصل ہے تو یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ اگرمنہاج القران سیکریٹریٹ کے باہررکاوٹیں غیرقانونی ہیں تو کیا پھر پولیس کا اس طرح غنڈے پالنا قانونی عمل ہے؟؟؟ کیاپولیس کا گینگسٹرز کے ہاتھوں عوام کو سبق سکھانا قانونی عمل ہے؟؟ چلو اگر مان لیتے ہیں کہ طاہر القادری صاحب کے گھر اور ادارے کے سامنے رکاوٹیں ہٹانا انتہائی ضروری تھا تو شروعات خود سے کیوں نہیں کی گئیں؟؟؟
کیوں طاہرالقادری سے پہلے حمزہ شہباز کے گھر کے سامنے سے رکاوٹیں نہیں ہٹائی گئیں؟؟؟ کیا پولیس کا یہ رویہ قانونی ہے کہ وہ ایک شرارتی پالیں اور جب کسی جلسے یا جلوس کو منشر کرنا ہو تو اس کو پانچ سو یا ایک ہزار دیکر کہیں کہ کوئی شرارت کروتاکہ لاٹھی چارج کرنے کا کوئی جواز پیدا ہو؟؟؟ ان تمام سوالات سمیت اور بھی کئی سوالات پر اس 35سالہ لاہوری نوجوان گلو بٹ نے بھی سوچنے پر مجبور کر دیا مگر؟