تحریر : انجینئر افتخار چودھری سعودی عرب کے کفیلوں نے باہر سے آنے والوں کو اتنا تنگ کیا ہے کہ آپ سعودی عرب کے بارے میں کچھ ایسا لکھیں جس میں اس کی حمایت کی جائے تو لوگ سوشل میڈیا پر آپ کا گھیرائو کر لیتے ہیں نیزے بالے پتھر ہاتھ میں اٹھا آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ کہیں آپ غلط کام تو نہیں کر رہے میں نے سعودی عرب میں انصاف کی بالا دستی نہ دیکھی ہوتی اپنی آنکھوں کے سامنے اس پر عمل درآمد نہ ہوتے دیکھا ہوتا تو خاموش رہتا بقول حضرت علی کفر پر مبنی نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں۔یقین کیجئے سعودی عرب میں انصاف کی عمل داری نہ ہوتی تو بے لگام بدو معاشرہ اسے بر بریت کے دور میں لے جاتا۔
میں نے جب بھی قلم اٹھایاہر کوئی اپنے اپنے دکھ لئے سامنے آ جاتا ہے میں ١٩٧٧ میں سعودی عرب گیا تھا مجھے اس ملک کے رہنے والوں کے برتائو ان کے رویوں سے جو شکائتیں ہیں ذرا ذرا یاد ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم اگر ان کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے پچھلے دنوں مری میں لاہور سے آئی ہوئی ایک فیملی کے ساتھ جو کچھ ہوا سعودی عرب میں اس سے کم ہی ہوا ہو گا۔ ہمارے ساتھ ان ٣٧ سالوں میں نہیں ہوا وہ فیملی چیختی رہ گئی اور مری کے پاپے ان پر اس طرح ٹوٹ پڑے جیسے حیوان بپھر کر مد مقابل پر جپٹتا ہے۔ایوبیہ مری اور سیاحتی مقامات جہاں پر ان اپنی ثقافت اور زبان سے الگ لوگ آ جائیں تو یہ سلوک کیا جاتا ہے یہاں تو ایک ہی ملک ایک ہی نسل اور تقریبا ایک ہی زبان بولنے والے لوگ ہیں یہ حیوانیت یہاں پاکستان میں کیوں ہے اور اگر وہاں ہے تو ہم انہیں مرد الزام ٹحہراتے ہوئے پاکستان کے ساتھ کی گئی نیکیاں کیوں بھلا دیتے ہیں؟۔
لوکل نان لوکل کی لڑائی ہر جگہ ہے۔حال ہی سائوتھ افریقہ میں ہونے والے نسلی فسادات نے تو انسانیت کو شرما کے رکھ دیا ہے۔دور کی بات چھوڑیں سندھ میں ٧٤ میں ہونے والے لسانی فسادات،لاہور میں مسیحی برادری کے معبد پر حملے کے بعد دو مسلمانوں کو زندہ جلا دینا۔ثابت ہوتا ہے حیوان کی کوئی نیشنیلیٹی مہیں وہ پاکستانی مسلمان بھی ہو سکتا ہے لسانیت پرست سنپولیہ بھی اور عرب میں رہنے والا عربی بھی۔آپ کسی طور پر مری لاہور جدہ سائوتھ افریقہ میں ہونے والے واقعات کو تحسین بھری نظروں سے نہیں دیکھ سکتے۔الطاف حسین ٦٥ سالوں کے دوران اپنے دس سال بریطانیہ لگا کر وہاں کا ہو چکا لیکن ادھر مہاجر مہاجر کی تانگ کیوں لگی ہوئی ہے۔سب مفادات کی جنگ مفادات کی لڑائی ہے۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک ٹاک شو میں ایم کیو ایم کے نو منتحب سینیٹر سے ٹاکرہتھا موصوف کھل کے صوبہ مہاجر کی بات کر رہا تھا یہ نفرتیں ہر جگہ ہیں میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب کے ایک بدو کفیل کی اس طرح کی حرکت سے ہم کیا اس ملک کے ان لوگوں کی تمام اچھائیوں کو پرے پھینک دیں گے۔
Pakistani Workers
سعودی عرب میں لاکھوں پاکستانی کام کرتے ہیں کوئی ایک مجھے یہ بتا دے کہ وہاں امیر غریب کے اتنے بڑے تضاد اور فرق کے باوجود کیا کوئی کسی کا حق مار سکتا ہے۔ہاں اگر حق مانگا نہ جائے اس کے لئے اداروں تک نہ جایا جائے تو الگ بات ہے ۔میں نے اپنے کالموں میں پہلے بھی لکھا تھا کہ ایک پرنس نے ایک پاکستانی پر ہاتھ اٹھایا تھا جس کے جواب میں پاکستانی نے اس کی پٹائی کر دی تھی اس کیس میں پاکستانی کو برابر انصاف ملا۔پاکستانی قوم کے نخرے دیکھیں ہمارے ہاں سڑک پر ہر امیر غریب کو کچلتا ہے قاتل دھندناتے پھرتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔صوبے کا خادم حکمران بیکری کے ملازم کی پٹائی کرتے ہیں کوئی پوچھتا نہیں۔لیکن ایک معیار ہم نے بنا لیا ہے کہ سعودی عرب کو گالی دینی ہے۔ہمیں جمہوریت بھی یاد آ جاتی ہے ہم یہ نہیں دیکھتے کہ مملکت کو اس وقت کس قدر خطرات کا سامنا ہے۔کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ پاکستان کے مشکل وقت میں اس عرب ملک کا ہمارے ساتھ کیا سلوک رہا۔
ہم وہ لوگ ہیں جو اس صدام کے حق میں جلوس نکالتے رہے جس نے بھارت کو ہم سے زیادہ عزیز رکھا اس وقت ہم نے اسے سنی مسلمان بنا کر پیش کیا اور فتنہ ء وہابیت کو دنیائے اسلام کا سب سے بڑا فتنہ بنا کر پیش کیا۔ہم بھول گئے کہ بعث پارٹی جس نے نعوذباللہ اللہ کا جنازہ نکالا تھا ہمارے قاضی ھسین احمد مولانا شاہ احمد نورانی جناب اسلم بیگ اس کی حمایت میں جلوس نکالتے رہے۔اللہ کا لاکھ شکر ہے نہ ہم اس وقت ڈگمگائے اور نہ اب۔ہم نے سعودی جریدے المسلمون میں ربع صفحے کا شہار دیا اور ملک فہد بن عبدالعزیز کو ٹیلی گرام دی جس میں پاکستان انجینئرز سوسائٹی کی جانب سے مملکت سعودی عرب کے لئے مفت خدمات پیش کیں میں اس سوسائٹی کا بانی رکن اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل تھا۔خدا مغفرت کرے انجینئر عبدالفیع اور سید سلیم معینی عرفان خانزادہ اور دیگر دوستوں احسان الحق مشتاق طفیل سہیل صلاح الدین سلطان عالم مناظر اوصاف انور قریشی ڈاکٹر شریف بھٹی پاکستان کا مثبت تآثر بنانے میں کامیاب رہے میں نے جناب قاضی حسین کو خط بھی لکھا۔
قارئین اس لمبی چوڑی تفصیل بیان کرنے کا مطلب ہے اگر سعودی عرب کو یمن کے حوثیوں کے ذریعے نکیل ڈالنے کی کوشش کی تو اس سے مملکت کا شیرازہ تو شاید نہ بکھرے لیکن خطے میں ایک اور جنگ چھڑ جائے گی اور وہ شیعہ سنی کی لڑائی ہو گی جس سے پاکستان کسی بھی صورت نہیں بچ سکے گا۔ایرانی انقلاب کو غور سے دیکھیں تو آئے اللہ خمینی جسے اسلامی انقلاب کہتے رہے وہ در اصل ایک مسلک کا انقلاب تھا جسے ایکسپورٹ کرنے کی بار بار کوششیں کی جاتی رہیں سنی حکومت کو دو بار ختم کرنے کی کوشش ہوئی جو ناکام بنا دی گئیں۔کنگ فہد پل جو سعودی عرب اور بحرین کو ملاتا ہے اس پل نے بحرینی حکومت کو بچانے میں کردار ادا کیا جس کے ذریعے سعودی سریع الحرکت فورسز نے سنی حکومت کو بچایا۔ایران کو پتہ نہیں کہاں کھجلی ہے کہ وہ امن سے نہیں رہتا پاکستان میں ہونے والی تمام کاروائیوں میں میڈیا پر چھائے اثناء عشری مافیا ایران کی اس گھنائونی حرکت پر پردہ ڈالتا ہے وہ بلوچستان میں قتل ہونے والے شیعوں پر تو کربلا کا ماحول بنا دیتا ہے لیکن سانحہ ء پنڈی پر مجرمانہ خاموشی کو مصلحت کا نام دے کر چل پڑتا ہے۔ایران پاکستان کا دوست فقط اس وقت تھا جب شاہ ایران کی حکومت تھی اس کے بعد لاہور میں خانہ ء فرہنگ میں بیٹھے صادق گنجی پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ لگانے میں مصروف رہے پھر ضیاء الحق کا سارا دور دیکھ لیں پاکستان ان دو فرقوں کے لئے میدان جنگ بنا رہا جہاں علامہ احسان الہی ظہیر جیسے جید علامء اس بھیانک آگ میں جل گئے وہی نہیں علامہ عارف حسینی جنرل فضل حق اور تو اور جنرل ضیاء الحق کو بھی شہید کر دیا گیا جن کی شہادت کا کوئی سر پیر نہیں ملتا۔
Pakistan and Saudi Arabia
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب پاکستان میں اپنے ہم خیالوں کی سر پرستی کرتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ایرانی بھی اپنے ہم مسلکوں کی پشت پر ہاتھ رکھتے ہیں جو لاشیں ان کو تہران اور ریاض میں گرانی چاہئیں وہ لاہور راوالپنڈی میں گرائی جاتی ہیں۔لیکن دیکھنا یہ ہے ایرانی حج کے دوران پہلے سعودی پولیس کو مارتے ہیں پھر خود مرتے ہیں۔اسی کی دہائی میں جب بہت سے نئے صحافی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے مزدلفہ منی میں ایرانی مرگ بر امریکہ کا نعرے لگایا کرتے تھے نبی اکرمۖ کے برگزیدہ ساتھیوں کی قبروں پر گند پھینکنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔ایران کو چاہئے کہ وہ دوسرے کے مسلک کو چھیڑے نہ اور دوسرں کو بھی یہی تلقین ہے۔اب تھوڑی سی بات حوثیوں کی ہو جائے وہ سنی اکثریتی یمن میں حکومت کا تختہ الٹ کر عدن کی بندر گاہ پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔وہاں اگر صنئا اور عدن میں ان کی حکومت بن جاتی ہے تو سعودی عرب کے اس جنوبی حصے جس میں نجران جیزان ابہا خمیس مشیط جیسے شہر اور بندر گاہ واقع ہے انہیں شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔جو بارڈر پر واقع ہیں۔یاد رہے نجران کسی زمانے میں عیسائی ریاست تھی جس کا تذکرہ قرآن پاک میں بھی ہے۔مجھے وہاں کے ایک شیخ نے وہ جگہیں بھی دکھائیں جہاں سے ملک عبدالعزیز نے یہودیوں کو دیس نکالا دیا تھا۔یہ سب لوگ اسرائیل چلے گئے۔
اسی طرح اسرائیل میں اس وقت ایرانی یہودیوں کا اچھا خاصہ اثر رسوخ ہے جو امریکہ کو ایران کے قریب لانے میں مدد کر رہے ہیں۔اب وہ لوگ جو سعودیوں پر یہ الزام لگاتے ہیں ان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ اس وقت ایرانی پارلیمینٹ میں یہودی اراکین بھی موجود ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کا کوئی ایک یہودی بھی ہو گا جو اسرائیل کی مدد نہیں کرے گا۔حوثیوں کا ثر رسوخ اگر نجران کے پہاڑ کے اس پار اگر ہو جاتا ہے تو دوستو پھر تیار رہو آپ کا مکہ اور مدینہ بھی خطرے میں ہے۔کسی کو یاد ہو کہ نہ ہو امریکی صدر ریگن سعودی فرماں روا سے کہا تھا کہ آپ کے نبیۖ نے یہودیوں کو مدینہ سے نکالا تھا لہذہ ان کو ان کی جگہ واپس چاہئے۔جو لوگ مدینہ میں رہتے ہیں انہیں علم ہو گا کہ مدینہ ایئر پورٹ اور میمنی برکس کے چوک تک یہ علاقہ ٨٥ تک خالی تھا جسے شاہ خالد نے مفت تقسیم کر کے آباد کروا دیا۔اور ایک بات اور بھی لکھ دوں کہ صبرہ اور شطیلہ میں جب سینکڑوں مسلمان ذبح ہوئے تو یہودیوں نے کہا تھا کہ ہم نے اپنے ان سینکڑوں یہودیوں کے قتل کا بدلہ لیا ہے جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جہنم واصل کئے تھے۔اب اگر ایران ان یہودیوں سے دست تعاون بڑھاتا ہے جنہیں اللہ کے پیارے رسول نے معاہدے کی خلاف ورزی پر واجب القتل قرار دیا تھا تو اس کی مرضی ہمیں تو علم ہے کہ نہ یہود ہمارے دوست ہیں اور نہ ہی نصاری۔سعودی کفیلوں سے نفرت کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے سعودی حکومت نہ ان ویلے حرام خوروں کا قلع قمع کر دیا ہے۔اب وہ ویزے بیچ نہیں سکتے حالیہ کوششوں سے انہیں فقط وہی بندے رکھنا ہیں جو ان کے پاس کام کرتے ہوں۔
آج ان کی بہتر پالیسیوں کی وجہ سے مزدور کی روزانہ اجرت ١٠٠ ریال سے کم نہیں ہے سعودی جاب لیس نہیں رہے۔اب یہ ہمارے ایجینٹوں اور سفارت خانوں کا کام ہے کہ وہ کم از کم اجرت بہتر بنائے۔ان خرکاروں پر کڑی نظر رکھی جائے جو وہاں اہل کاروں کو پیسے دے کر ویزے خریدتے ہیں اور یہاں مزدوروں سے لاکھوں روپیہ وصول کرتے ہیں۔وہاں اگر ہمارے سفیر اور قونصل جنرل بن لادن کمپنی کے جدہ آفس کے لوگوں سے ہی مل کر ان آڑھتیوں پر نظر رکھیں تو ان ویزوں کو دو لاکھ کی بجائے پچاس ہزار روپے تک لایا جا سکتا ہے۔اس میں سعودی حکومت کو شامل کر لینے میں کوئی حرج نہیں آج جو پاک سعودی تعلقات خراب ہو رہے ہیں ان میں پاکستان کے بد نام زمانہ ریکروٹنگ ایجینٹوں کا بھی ہاتھ ہے۔مجھے کہنے دیجئے کہ مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کا ساتھ جتنا سعودی عرب نے دیا ہے کسی اور ملک نے نہیں۔ایک بات جو ان سب باتوں سے بڑھ کر ہے پاکستاناور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ہے پاکستان پابند ہے کہ جب سعودی حدود کو خطرہ ہوا وہ ان کی مدد کو پہنچے گا ہمیں ان حالات میں پارلیمینٹ میں اس قسم کی باتوں کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔ہم ٩٠ کی جنگ خلیج میں غلطی کر بیٹھے اور اب اللہ کا شکر ہے جرل راحیل جیسا زیرک سپہ سالار ہے جنہیں اپنی ذمہ داریوں کا علم ہے۔اس حساس مسئلے کو سمجھئے سوچئے۔