آج میں موضوع کے اعتبار سے اپنے کالم کی ابتدا اِس فقرے سے نہ کروں تو کالم کا حق ادا نہیں ہو گا اور وہ فقرہ یہ ہے کہ”جس تاجر کا بیٹا ملاوٹ، چور بازاری اور گراں فروشی نہیں کرتا وہ اپنے جیسوں میں نااہل اور بے وقوف سمجھا جاتا ہے”آج شاید یہی وجہ ہے کہ اِس فقرے پر عمل کرتے ہوئے سابق صدرآصف علی زرداری کے اکلوتے سپوت اور عالمی شہرت یافتہ سیاست دان متحرمہ بے نظیر بھٹو شہید صاحبہ کے صاحبزادے اور مُلک میں ایٹمی منصوبوں کے خالق سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کے نواسے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے موجودہ جوان سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری (مگردرحقیقت زرداری +بھٹو) خود کو عقل مندوں کی فہرست میں شامل کرنے کی کوششوں میں اپنی سَوا گزکی لمبی زبان کو کچھ یوں استعمال کر رہے کہ بسا اوقات اِن کی زبان درازی سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اِن کے منہ کے 32 دانتوں کے درمیان قیدا سَواگز کی زبان بلاول کے قابو میں نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ آج کل خُوب چلنے لگی ہے۔
جبکہ یہاں میرا خیال یہ ہے کہ دو باتیں خلافِ عقل ہیں: اول یہ کہ بولنے کے وقت چپ رہنا اور دوئم یہ کہ چپ رہنے کے وقت بولنا”اگرچہ یہ ٹھیک ہے کہ زبان کا استعمال کیا جائے اور ضرور کیا جائے مگر موقعہ محل دیکھ کر ..اَب ایسا بھی نہیں ہون اچاہئے کہ کریلے چبا کر ایسے کڑوے جملے بولے جائیں کہ مُردے کو بھی کڑواہٹ محسوس ہونے لگے اور کبھی کہیں تو کبھی کہیں مرچیں بھی لگنی شروع ہو جائیں، اور وہ بھی چیختے چلاتے ہوئے دوڑیں لگانا شروع کر دے، جیساکہ آج کل پی پی پی کے موجودہ جوان سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں، اَب اِس سے آگے میں کچھ نہیں کہوں گاباقی باتیں آپ خود سمجھ جائیں کہ میں مزیداور کیا کہنا چاہتا ہوں۔
Pervez Musharraf
بہر حال! اِن دِنوں باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت مُلک کی دو نئی اور پرانی شخصیات کو زبردستی خبروں میں گُھسیڑا جا رہا ہے اِن میں سے ایک بلاول بھٹو زرداری ہیں تو دوسرے سابق صدرو آرمی چیف متحرم المقام عزت مآب جناب پرویز مشرف ہیں، جنہیں وقفے وقفے سے خبروں کی زینت بنا کر اِن کی شخصیات کو کبھی بلند تو کبھی زمین بوس کیا جا رہاہ ے ،مگر اتنا ضرور ہے کہ میری دوسری شخصیت کا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ہے، کیونکہ کسی بھی معاملے میں یہ اکیلی نہیں تھی اِس کے پیچھے اور بھی بہت سی شخصیات موجود تھی مگر کیا وجہ ہے کہ سب کو چھوڑ کر صرف اِسے ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے.؟ عالمی طاقتوں کے اِس کے دوست یار اِسے بچانے کے لئے حرکت میں آگئے ہیں یہ اِسے ہر معاملے سے ایسی بری کرا کرلے جائیں گے، کہ جیسے دودھ میں سے مکھی نکل جاتی ہے۔
اَب کوئی کچھ بھی کہے مگریہ حقیقت ہے کہ آج کل مضحکہ خیزیاں ہماری سیاست اور میڈیا کا وطرہ بن گی ہے، چونکہ پرویز مشرف اِن دِنوں جیسے بھی بیمارہیں ..؟مگر فی الحال یہ ضرور مان لیا جائے کہ وہ بیمار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ابھی اِن کا کوئی فیصلہ نہیں ہوپا یاہے سو اِس بنا پر میں اِنہیں سابق صدر و آرمی چیف کی حیثیت سے ہی قابلِ احترام سمجھتا ہوں اور اِن کے لئے وہ سارے اچھے القابات کہتا اور لکھتا رہوں گا جیسے میں موجودہ صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف اور مُلکی اُمور چلانے والے دیگر اہم اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر فائزسربراہان کے لئے استعمال کرتاہوں،اور اِس موقع پر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جوان سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو سے صرف اتناہی کہہ کر آگے بڑھنا چاہوں گا کہ” ارے بھائی ..!ابھی آپ کو مُلکی سیاست میں اپنے نانا اور اپنی امی کی طرح مثبت اور تعمیری کردار ادا کر اہے، آپ کو ابھی مُلکی سیاست میں بڑاسنبھال کر قدم اُٹھانا ہے، آپ سے قوم کی بہت ساری اچھی اُمیدیں وابستہ ہیں، آپ کو ایسی باتیں قطعاََ زیب نہیں دیتی ہیں کہ آپ کا جس کی وجہ سے وقار مجروح ہو.
میں اکثر سوچتا ہوں اور پریشان ہوتاہوں کہ میرے مُلک کے نئے اور پرانے سیاستدان کب سنجیدہ ہوں گے ..؟کب اِن کی زبان بُرائیاں کرنے سے رکیں گی..؟کب اِنہیں اپنی آنکھ کا تنکادِکھائی دے گا..؟کب اِنہیں دوسروں کے بجائے اپنے گریبان میں بھیجھانکنے کا موقع ملے گا…؟کب میرے مُلک سے مفادپرستی اور مفاہمتی پالیسیوں سے لبریزسیاست کا خاتمہ ہوگا…؟اور کب میرے مُلک کے سیاستدانوں کے دل اور دماغ دوسروں کے احترام اور محبت کے لئے تڑپیں گے..؟ اور مجھے موجودہ حالات میں اپنے سیاستدانوں کے اِس روئے سے بہت سے وسوسے اور سوالات پریشا ن کئے رکھتے ہیں،مگرآج تک اِن کا مجھے تسلی بخش جواب نہیں مل سکاہے، مگراِس کے باوجود بھی میں نااُمیدنہیں ہواہوں، مجھے اُمیدہے کہ ایک ناایک دن میرے اِن سوالات کے جوابات ضرورمل ہی جائیں گے۔
اگرچہ آج میرے مُلک کے ایک نوجوان سیاستدان نے جس طرح کے الفاظ اداکئے ہیں، یقینایہ اِنہیں زیب نہیں دیتاہے کہ وہ کسی سے متعلق ایسے جملے اداکریں، چونکہ یہ نوجوان اور لندن پلٹ ہیں، اِس وجہ سے اِن میں اخلاقی تربیت کا فقدان بھی ہوگا.. میں اِنہیں یہ سمجھ کر چھوڑے دیتاہوں ، مگر میں اِن سے یہ ضرورکہوں گاکہ یہ سیاست میں ہیں تو ابھی نومولوداور اپنی اِسی حالتِ نومولودگی میں یہ کچھ بھی کہہ لیںیاکوئی اِس سے کہلوالے توکہلوالے مگراِنہیں پھر بھی اچھے بُرے کی تمیز خودسے بھی کرنی ضرورچاہئے،ورنہ یہ اپنا امیج یہی تک رکھ پائیں گے ، جہاں یہ ابھی ہیں۔
جیسا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سرپرستِ اعلیٰ بلاول بھٹوزرداری نے سابق صدرو آرمی چیف متحرم المقام عزت مآب جناب پرویز مشرف سے متعلق اپنے قدسے کئی گنانچلی سطح کی باتیں سوشل میڈیا (ٹوئٹر) پر اپنے ایک پیغام میں کہی ہیں،”یقین نہیں آتا بزدل شخص نے فوج کی وردی پہنی تھی”” پرویزمشرف کو لاحق تمام امراض کی تصدیق غیرجانبدارمیڈیکل بورڈ سے کرائی جائے” غداری کیس سے فرارکی کوئی وجہ نہیںہونی چاہئے” ایسی باتیں اِنہیں زیب نہیں دیتی ہیں،آج پرویزمشرف سمیت کسی بھی شخصیت سے متعلق کچھ ایسی ویسی باتیں کہنے سے پہلے بلاول بھٹوزرداری کو اپنے کے ماضی میں بھی ضرورجھانک لینا چاہئے پھر کسی بھی سیاست دان کے بارے میں اپنی سُواگزلمبی زبان کو اپنے 32دانتوں کے درمیان سے آزادی دینی چاہئے،اُمیدہے کہ بلاول بھٹوزرداری میرے اتنے کہے کو بہت جانیں گے، اور خود کو اُس سانچے میں ڈھالنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے جس سیاسی سانچے میں ڈھل کر اِن کے ناناشہید ذوالفقارعلی بھٹواور شہیدِ رانی محترمہ بے نظیر بھٹوزرداری نے اپنا سیاسی روحانی قدنہ صرف پاکستان میں بلکہ ساری دنیا میں بھی تاقیامت تک کے لئے بلندکیاہے۔