ایک مشہور حکایت ہے کہ ایک دفعہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ،وہ دم لینے کے لیئے ایک درخت کی شاخ پر بیٹھ گئے۔ طوطے نے طوطی سے کہا “اس علاقے کی ویرانی دیکھ کر لگتا ہے کے الووں نے یہاںبسیرا کیا ہو گا”ساتھ والی شاخ پر ایک الو بیٹھا تھا اس نے یہ سن کر اڈاری ماری اور ان کے برابر میں آ کر بیٹھ گیا۔
علیک سلیک کے بعد الو نے طوطا طوطی کو مخاطب کیا اور کہا “آپ میرے علاقے میں آئے ہیں میں ممنون ہوں گااگر آج رات کا کھانا آپ میرے غریب خانے پر تناول فرمائیں” ۔اس جوڑے نے الو کی دعوت قبول کر لی رات کا کھانا کھانے اورپھر آرآم کرنے کے بعدجب وہ صبح واپس جانے لگے تو الو نے طوطی کا ہا تھ پکڑ لیا اورطوطے کو مخاطب کر کے کہا”اس کہاں لے کر جا رہے ہو
یہ میری بیوی ہے “یہ سن کر طوطا حیران ہو گیا اور بولا”یہ تمہاری بیوی کیسے ہو سکتی ہے یہ طوطی ہے تم الو ہو،تم زیادتی کر رہے ہو”اس پر الو ایک وزیر کی طرح ٹھنڈے لہجے میں بولا”ہمیں جھگڑنے کی ضرورت نہیں،عدالتیں کھل گئی ہو گی ہم وہاں چلتے ہیں جو وہ فیصلہ کریں گی ،ہمیں منظور ہو گا”طوطے کو مجبورا اس کے ساتھ جاناپڑا۔جج نے دونوں طرف کے دلائل بہت تفصیل سے سنے اور آ خر میں فیصلہ دیا کے طوطی ,طوطے کی نہیں الو کی بیوی ہے یہ سن کر طوطا ہوا ایک طرف چل دیاابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کے الو نے اسے آواز دی “تنہا کہاں جا رہے ہو، اپنی بیوی تو لیتے جاو”ٰالو نے روتے ہوئے کہا “یہ میری بیوی کہاں ہے
عدالت کے فیصلے کے مطابق اب یہ تمہاری بیوی ہے”اس پر الو نے شفقت سے طوطے کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا”یہ میری نہیں تمہاری بیوی ہے، میں تو صرف تمہیں یہ بتانا چاہتا تھاکہ بستیاں الووں کی وجہ سے ویران نہیں ہوتیںبلکہ اس وقت ویران ہوتی ہیں جب وہاں سے انصاف اٹھ جاتا ہے” جی قارئین بالکل آج ہمارے ملک کے تمام مسائل کی جڑاور اس پاک دھرتی کے ویران ہونے کی وجہ بھی عوام کو انصاف کا دستیاب نہ ہونا ہے اور قانون کا اندھا ہونا ہے
اس کی ایک تازہ مشال گلو بٹ کیس ہے ہمارے ملک کی عدالت عالیہ نے بلا شبہ گلو بٹ کو سزا دے کر معاشرے میں موجود ایسے افراد کے لئے عبرت کا نشان بنایا ،لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں اصل مسلہ یہ ہے کہ کیا گلو بٹ کا گاڑیاں توڑنا سانحہ ماڈل ٹاون میں چودہ لاشیں گرانے سے زیادہ بڑا جرم تھا جو ابھی تک سانحہ ماڈل ٹاون کے تمام ذمہ داران بشمول وزیر اعلی پنجاب ،وزیر قانون رانا شنا ا للہ سمیت آزاد پھر رہے ہیں۔گلو بٹ تو بس پولیس کا ایک ٹاوٹ تھا اور اس ملک میں اس جیسے ہزاروں موجود ہیں لیکن اس پولیس افسر کو سزا کیوں نہیں دی گئی جو گلو بٹ کو عوام کی املاک توڑنے سے روکنے کی بجائے اسے شاباش سے نواز رہا تھاکیا
Gullu Butt
گلو بٹ کو کوئی وزیر یا افسر نہ ہونے کی بنا پر قربانی کا بکرابنا دیا گیا۔گلو بٹ کو تو سرعام ڈنڈے لہرانے اور چلانے پر جیل کی سلاخیں دکھا دی گئیں لیکن اُن کا کیا جو پوری دنیا کے سامنے غلیل اور ڈنڈا بردار فوج کے ساتھ اس ملک کے معتبر ترین اوارے پارلیمنٹ اور ملک کے سرکا ری ٹی وی چینل پر حملہ ہو گئے۔کیا گلو بٹ کے ہاتھوں سے ٹوٹنے والی گاڑیا ں ان اداروں سے زیادہ اہمیت کی حامل تھیں جو ان اداروں پر حملہ کرنے والے با عزت کینیڈا چلے جاتے ہیں اور ڈی چوک میں آج بھی کھڑے ہو کرروزانہ رات کو سول نا فرمانی کی کال دیتے ہیں اور ڈھٹائی سے ریا ست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں۔جی یہ سب لوگ انصاف اور قانون سے بری ہیں کیوں کہ اس ملک میں قانون صرف غریب اور لاچار کے لئیے ہے
Law
جب کے امیر اور اژرو رسوخ والوں کے لئے نہ تو اس ملک میں عدالتیں بنی ہیں اور نہ ہی جیلیں۔ اور جب تک ہمارے پاک ملک میں یہ تفریق قائم رہے گی اور قانون ایسے ہی اندھا رہے گا ہم اسی طرح دنیا میں ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے اور تماشا بنے رہیں گے جب کے الزام الووں پر دھرتے رہیں گے، کیوں کہ ہم سب جانتے ہیں کے ایک معاشرہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن انصاف کے بغیر نہیں۔