ستمبر 2011 سے لاپتہ 4 افراد ہماری حراست میں ہیں، پنجاب پولیس

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) پنجاب پولیس نے سپریم کور ٹ میں تسلیم کر لیا کہ ستمبر 2011 سے لاپتہ 4 افراد اس کی زیر حراست اور کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں جو شہباز تاثیر کے اغوا میں ملوث تھے۔ عدالت نے آئی جی اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو الگ الگ انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مختلف لاپتہ افراد کے الگ الگ مقدمات کی سماعت کی۔

لاپتہ فرہاج وحید بٹ کی اہلیہ ماریہ نے سپریم کورٹ میں بیان دیا تھا کہ ستمبر 2001 میں ایس پی عمر ورک نے گھر پر چھاپہ مارا اور اس کیس کو اٹھا لے گئے، اس کا شوہر فرہاج پولیس کے پاس پیش ہوا تو اسے غائب کر دیا گیا، ایک سال بعد فرہاج کی ملاقات اس کے والد سے سی آئی اے ہیڈ آفس میں کرائی گئی اور تب سے فرہاج کا کوئی اتا پتا نہیں۔ اس بیان پر عدالت نے آئی جی پنجاب کو طلب کرتے ہوئے وہاج بٹ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

آئی جی پنجاب اور ایس پی عمر ورک نے عدالت کو بتایا کہ فرہاج بٹ کے خلاف مختلف فوجداری مقدمات ہیں اس کے ساتھ 3 مزید لوگ بھی پولیس کے پاس ہیں، ا ن میں عثمان بسرا، عبدالرحمان کوٹ لکھپت جیل میں جبکہ نعمت اللہ ازبک پولیس ریمانڈ میں ہے۔

عدالت نے آئی جی پنجاب اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نذیر گجانہ سے الگ الگ انکوائری رپورٹس طلب کرتے ہوئے فرہاج بٹ کی اہلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم بھی دیاہے۔ کیس کی مزید سماعت 2 اگست کو کی جائے گی۔