تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری دنیا میں ہمیشہ وہی قومیں زندہ و پائندہ رہتی ہیں جو اپنے نظریے اور وطن کی حفاظت کو اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھتیی ہیں زمانے میں انہی کی کہانیاں اور داستانیں یاد و رقم کی جاتی ہیں جو آزمائش کی ہر گھڑی پر پورا اترنے کے ڈھنگ اور انداز جانتی ہیں- کہتے ہیں جب چینی لیڈر ماؤزے تنگ کا آخری وقت آیا وہ فالج زدہ تھےان کی زبان میں لکنت آ چکی تھی – چین کے لیڈرز نے جب اپنے ممتاز قومی محسن پر جب نزع کی کیفیت طاری دیکھی تو ،،ماؤ،، سے استدعا کی ،،بابا،، آپ وسیع و عریض تجربے کی روشنی میی قوم کے نام آخری پیغام کے طور پر چند نصیحت آموز ارشاد فرمائیں ۔
ماؤزے تنگ نے کلکپاتے ہونٹوں کو ُجنبش دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بات کا کوئی خدشہ یا ڈر نہیں کہ چین میں کوئی بیرونی ملک حملہ کر کے اس کی آزادی سلب کر سکے گا۔ بلکہ مجھے اس بت کا اندیشہ ضرور لاحق ہے کہ اگر ہماری ی قوم نے کسی وقت اپنی تاریخ کو فراموش کر دیا تو اسے کسی بیرونی حملہ آور کی ضرورت نہیں رہے گی اور ایک نہ ایک روز آزادی کی نعمت سے ضرور محروم ہو جائے گی۔ چینی لیڈر ماؤزے تنگ کا یہ ارشاد اگرچہ چینی قوم کے نام تھا اور بلا شبہ موتیوں میں تولنے کے لائق ہی نہیں بلکہ آزادی کی نعمت کو برقرار رکھنے کا ایک تیر بہدف نسخہ بھی ہے جس پر عمل کرکے بہت کچھ کھویا ہوا پایا جا سکتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ہم نے اپنی نوجوان نسل کو اپنے شاندار ماضی کی تاریخ تواتر سے آگاہ نہیں کیا ، حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ انہیں بتایا جاتا کہ پاکستان کیسے بنا تھا یہ وہ اہم قومی زمہ داری تھی جسے بدقسمتی سے ہم پورا کرنے میں بری طرح ناکام دہیے اور جس کے نتیجہ میں ہم نئی نسل کے دلوں میں تحریک پاکستان کے ایام کے جذبے اور ولولے منتقل نہ کر سکے ۔ ایک وقت تھا جب مسلمان نہ صرف مسلم لیگ سبز ی پرچم تلے متحد ہو گئے تھے بلکہ انہوں نے اپنے تمام فروعی اختلافات کو طاق نسیان کی زینت بنا دیا تھا اور ایثار و قربانی کا مجسمہ بن گئے تھے ۔ پوری قوم مالا کے دانوں کی طرح وحدت کی لڑی میں پروئی گئی تھی جس کے نتیجہ کے طور پر ہمیں آزادی کی گراں قدر نعمت حاصل ہوئی جو صدیوں کی جدوجہد کے بعد قوموں کا مقدر بنا کرتی ہے ۔ ہندو اور انگریز کی غلامی سے نجات کا منظر ہمارے ازلی دشمن بھارت کو نہ اس وقت ایک آنکھ بھایا تھا اور نہ آج تک وہ ذہنی طور پر ہمارے ملک کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوا ہے ۔ تا ہم جب پاکستان دنیا کے نقشہ پر ایک جیتی جاگتی حقیقت بن کر ابھر آیا تو دشمن نے زخم خوردہ سانپ کی طرح ہمارے وطن کی سلامتی کے خلاف نہ صرف سازشیں شروع کر دیں بلکہ حیدر آباد اور جونا گڑھ کی مسلم اکثریتی ریاستوں کو ہڑپ کرلیا۔ اس طرح کشمیر یر بھی غاصبانہ قبضہ جمالیا۔ اس کی ہوس ملک گیری کی آگ کسی طرح ٹھنڈی ہونے میں نہیں آ رہی تھی کہ 6 ستمبر 1965ء کی رات ہمارے پاک وطن کی سرحد پر جنگ کا اعلان کئے بغیر یلغار کر کے جنگ شروع کر دی۔
اس موقع پر دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لیئے ہمارے فوجی افسروں اور جوانوں نے جس بے مثال جرأت کا مظاہرہ کیا وہ ایمان افروز واقعات میجر عزیز بھٹی شہید ۔ ۔ راشد منہاس شہید۔ ۔ ۔ ایم محفوظ شہید ۔ ۔میجر شبیر شریف شہید۔ ۔ ۔ میجر محمد اکرم شہید اور سوار محمد حسین شہید جیسے شیر دل مجاھدوں کی قربانیوں کی بدولت ہماری قومی تاریخ کے صفحات پر چاند تاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں ۔ یہ وہ وقت تھا جب پوری قوم خواب غفلت سے جاگ اٹھی تھی اور 6 ستمبر 1965ء کے روز فیلڈ مارشل ایوب خان کی تقریر نے ہماری قوم میں ا یک نئی روح پھونک دی ۔ انہوں نے کہا بھارت نے رات کے اندھیرے میں بزدلوں کی طرح پاکستان پر حملہ کیا ہے ۔ لیکن وہ جانتا نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے ہم کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن کی یلغار کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر بڑھیں گے اور اس وقت تک بڑھتے چلے جائیں گے ، جب تک دشمن کی توپوں کو ہمشہ ہمیشہ کے لئے ٹھنڈا نہیں کر دیتے ۔ اس کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے ہماری قوم کے شانوں کو زور سے جھنجھوڑ کر بیدار کر دیا ہے ۔
وطن عزیز تمام شاعر، ادیب، موسیقار، گلوکار ، آرٹسٹ ، علماء کرام شہری و سول ڈیفنس کے رضا کار اور پولیس کے جوان ایثار اور قربانی کی پیکر بن گئے تھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو اور ٹی وی کی انتظامیہ سے معاوضہ کے طور پر کسی نے ایک پائی تک وصول نہ کی۔ اگر کسی شخص کا چیک بن جاتا تو وہ اسےدفاعی فنڈ میں جمع کرا دیتا تھا ۔ یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ ملک بھر میں چوری، ڈاکے ، اغوا، راہزنی اور باہمی جھگڑے کی ایک بھی واردات نہیں ہوئی اور نہ ہی کہیں قتل و غارت گری کا مقدمہ درج ہوا ۔ اتفاق و اتحاد کا عدیم النظیر مظاہرہ تھا جس قوم کے دل و دماغ میں حب الوطنی کی ایک نئی روح پھونک دی تھی ۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں نے “ٹیڈی پیسہ ٹینک سکیم ” کے ذریعے لاکھوں روپے دفاعی فنڈ میں جمع کرائے ۔ گلی گلی اور کوچے کوچے میں ریلیف کمییٹیاں بن گئیں جو فوجی جوانوں اور سرحدی علاقوں کے بے گھر مہمانوں کے لئے اشیائے خوردنی اور زندگی کی دیگرضروریات اگلے مورچوں پر جا کر تقسیم کرتے تھے۔
لوگوں کے دلوں سے جنگ کا خوف بادلوں کے سائے کی طرح آڑ گیا اور وہ اپنے دشمن کو ہر لحاظ سے شکست دینے کے لئے فوج کے دوش و بدوش خدمات سرانجام دے رہے تھے ۔ آسمان پر ہوائی جہازوں کی لڑائی کو اپنے مکانوں کی چھتوں اور گلی کوچوں میں اس طرح دیکھ رہے تھے جس طرح بسنت کے تہوار پر لوگ پتنگوں کے پیچوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ واہگہ ، کھیم کرن ، سیالکوٹ ، چونڈہ اور چھمب جوڑیوں کے مقامی افراد نے محاذوں پر جا کر فوجی جوانوں کے جذبے کو قریب سے دیکھا ، ایسے بھی لمحات دیکھے کہ سترہ روزہ جنگ کے دوران بسا اوقات کھانے کو کچھ میسر نہ ہوتا اور نہ ہی سکھ چین کی نیند اور آرام کرنے کا موقع۔ بھارتی فوج چھمب کے فلک بوس فولادی مورچوں میں بیٹھ کر کھلے میدان میں پیش قدمی کرنے والے پاک فوج پر اندھا دھند گولے برسا ر ہی تھی۔ آفرین ہماری فوج کے جیالوں کی ہمت مردانہ پر کہ وہ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے اس حد تک آگے چلے گئے کہ بزدل بھارتی اپنے مورچوں سے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے ۔ عینی شاہدوں نے بزدل دشمن کے بھگوڑے فوجیوں کے جوتے اور نییکریں دریائے توی کے کنارے(چھمب) کے میدان میں بکھری ہوئی دیکھیں جس سے اندازہ ہوتا تھا بھارتی بکھوڑے پاک فوج سے اس حد تک خوف زدہ ہو گئے تھے کہ اپنے پاؤں کے جوتیاں تک چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ اہل سیالکوٹ نے نہ صرف اپنی آنکھوں سے چونڈہ محاذ کی ٹنکوں کی خوفناک جنگ ہوتی ہوئی دیکھی بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ سارے بہادر جوانوں نے دشمن کے ٹنکوں کے آگےلیٹ کر وطن دفاع کے لئے اپنی جانیں نثار کر دی تھیں اور ایک انچ زمین پر دشمن کو قابض نہیں ہونےدیا تھا ۔ یہ جنگ عالمی جنگ کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی جنگ قرار پائی جس میں پاک فضائیہ کے طیاروں ایف 86 نے ٹنک شکن ہتھیاروں کے ذریعے جنگ کا نقشہ پلٹ دیا تھا ۔ چونڈہ محاذ پر شہید ہونے والے دو مجاھدوں کا واقعہ بھلا کس محب وطن پاکستانی بھول سکتا ہے جو اس گاؤں کی مسجد کے پہلو میں امانتاً دفن ہوئے جن کو چند دنوں کے بعد ان کے لواحقین نے جب ان کی قبروں کو کھدائی کرا کر نکالا تو اس گاؤں کے لوگوں نے قبروں سے نکلنے والی عطر بیز خوشبو کا سہانہ نظارہ کیا بلکہ جب ان دونوں شہیدوں کے چہروں سے کفن سرکائے گئے تو ان کے چہرے گلاب کے پھولوں کی طرح تروتازہ دکھائی دیتے تھے۔
تاریخ کے اوراق اور عینی شاہدین کے مطابق ان کے ہونٹوں پر لازوال تبسم کھل رہا تھا 6 ستمبر کسی بھی سال کا ہو وہ ان شہیدوں اور غازیوں کی یادوں کو تازہ کرتا رہےگا جو 1965ء ستمبر کی 6 تاریخ کو مورچوں محازوں اور میدانوں میں دوڑ دوڑ کر دشمن کو تلاش کرتے بھاگ بھاگ کر اس کے ٹنکوں کا پتہ جلاتے اور کارنامے انجام دیکر بلاشبہ ایک ایسی نئی تاریخ لکھی جس کا حرف حرف، ورق ورق درخشاں ہے اور حالات کی اندھیری راتوں میں قندیل کی طرح روشن رہا کرےگا۔ 6 ستمبر کو اور اس کے بعد 17 ستمبر تک پاکستان کی افواج کے جوانوں اور افسروں نے شجاعت اور بہادری کے جن کارناموں کو انجام دیا انہیں ادییوں ، صحافیوں اور دیگر ارباب قلم نے اپنی تحریروں کے ذریعہ محفوظ کرنے کی کئی گرانقدر کوششیں کی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حق پھر بھی ادا نہیں ہو سکا کہ کارناموں کی عظمت بلند اورناپیدا کنار ہے ۔ پاک فوج کے ہر سپاہی اور افسر نے 1965ء کو لاتعداد ایسی داستانیں اپنے پیچھے چھوڑیں ، جن کا ہر عنوان حیرت انگیز ہے ۔ اس محرکے میں روسی ٹنکوں کا غرور خاک میں ملا دیا گیا اور 1962ء می عوامی جمہوریہ چین سے جنگ آزما یو نیوالی بھارتی فوج قدم قدم پر داغ پسپائی دیا گیا۔ 6 ستمبر کا دن ہمارے لئے جنگ جیتنے والے شہیوں ، غازیوں اور مجاھدوں کی یادوں کے چراغ روشن کرنے ، ان پر پھول نچھاور کرنے اور سلام پیش کرنے کا دن ہے۔
قارئین محترم! آج ہمیں اقوام عالم میں زندہ رہنے کے لئے صرف ایک دشمن کا سامنا ہی نہیں بلکہ بہت سے محازوں پر دشمنوں کا سامنا ہے ۔ہم نے جہالت کے خلاف جنگ لڑنی ہے ، غربت کا خاتمہ کرنا ہے ، اقتصادی خوشحالی کے لئے جان لڑانی ہے ، معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کرنا ہے ، مذھبی ، لسانی اور علاقائی فرقہ داریت کے خلاف ہتھیار اٹھانے ہیں ۔ ۔ آیئے ہم عہد کریں سب محاذوں پر دشمن عناصر کی گھٹیا سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے متحد ہوں اور پاک وطن کی سلامتی کے لئے مل کر دشمن سے مقابلے کے لئے تجدید عہد کریں۔