تحریر : چودھری عبدالقیوم آزادی کے پہلے دن سے ہی ہندو سامراج کو پاکستان کی آزادی ہضم نہیں ہورہی تھی ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا ا س نے اپنی ناپاک خواہشات کی تکمیل کے لیے کبھی بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیاابھی ہماری آزادی کے اٹھارہ سال بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ ہندوستان نے ایک مکار اور عیار دشمن کی طرح 6 ستمبر 1965ء کو رات کے اندھیرے میں اچانک بغیر کسی اعلان جنگ کے پاکستان پر حملہ کردیا لیکن ہماری بہادر پاک فوج اور غیور عوام نے چند گھنٹوں کے اندر ہی بھارتی فوج کو پسپاہونے پر مجبور دیا۔بھارتی فوج نے یہ جنگ مختلف محاذوں کھیم کرن،بیدیاں سیکٹر اور چھمب جوڑیاں سیکٹر پرشروع کردی تھی سترہ روز تک جاری رہی پاکستان کی بہادر افواج نے اپنی قوت ایمانی اور اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت سے ہر محاز پر دشمن کے دانت کھٹے کردئیے۔اس جنگ کے دوران فیلڈمارشل ایوب خاں صدر اور ذوالفقار علی بھٹو وزیرخارجہ تھے صدر ایوب خاں جو ایک پیشہ ور سپہ سالار تھے انھوں نے ایک اچھے جرنیل اور حکمران کی طرح قوم کا حوصلہ بڑھایا جبکہ ذوالقار علی بھٹو نے ایک اچھے سفارتکار کے طور پر عالمی محاذ اور یو این او میں ملک کے دفاع کی بہت اچھی جنگ لڑی پاک فوج جب سرحدوں پر ملک کے دفاع میں مصروف تھی تو کراچی سے لے کر پشاور تک پوری قوم متحد ہو کر سیسہ پلائی دیوار کی طرح اپنی فوج کی پشت پر کھڑی تھی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاک فوج نے اپنے سے 10گُنابڑی فوج کو ہر محاذ پر عبرتناک شکست دی ۔انڈیا کی گیارہ کور کے 15 ڈویژن نے جب لاہور کے محاذ پر حملہ کیا تو اس کے جرنیل اور آفیسر یہ کہتے تھے کہ وہ چند گھنٹوں میں میں لاہور پر قبضہ کرلینگے اور وہ فتح کا جشن جمخانہ میںمنائیں گے لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ انھوں نے ایک مسلمان اور غیور قوم کو للکارا تھا جنھیں اپنی آزادی اپنی چیزوں سے زیادہ عزیز ہے یہاں ہماری بہادر فوج نے اس جانبازی اور بہادری کیساتھ مقابلہ کیا اور پاک فضائیہ کے شاہینوں اور ایم ایم عالم نے بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ بھارتی افواج کو پسپائی کے سوا کوئی راستہ نظر نہ آیا ۔یہاں پرایم ایم عالم نے چند منٹوںکے اندر دشمن کے پانچ جنگی جہاز مار گرائے ۔بھارتی جرنیل نے اپنی جیپ چھوڑ کر کھیتوں میں چھپ کر اپنی جان بچائی ۔لاہور کے محاز پر بیدیاں کے مقام پر پاکستان کی زمینی فوج نے بھارتی فوج کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا یہاں پر میجر راجہ عزیزبھٹی نے بہادری کا لازوال مظاہرہ کرتے ہوئے شہادت پائی ان کی بے مثال قربانی کے اعتراف میں انھیں جرات و بہادری کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر دیا گیا۔
دشمن نے یہاں ناکامی کے بعد سرحدوں پر کئی محاز کھول دئیے جن میں میں کھیم کرن، چھمب جوڑیاں قابل ذکر ہیں پاک فوج کے جوانوں نے اپنی اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت اور بہادری سے ہر محاذ پر بھارتی فوج کو ذلت آمیز پسپائی پر مجبور کردیا۔ بھارت نے سیالکوٹ کی سرحد پر پانچ سو ٹینکوں کیساتھ حملہ کردیا دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی یہ سب سے بڑی جنگ چونڈہ کے میدان میں لڑی گئی تھی ۔یہاں پاک فوج کے جوانوں نے قوت ایمانی اور بہادری کے ایسے مظاہرے کیے جس کی دنیا میں مثال ملنا مشکل ہے ہماری فوج کے پاس دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لیے ہتھیاروں کیساتھ نفری کی بھی کمی تھی لیکن ہمارے بہادر فوجی جوانوں نے ایمان کی قوت کو اپنا ہتھیار بنایا اپنے جسموں کیساتھ بم باندھے اور بھارتی ٹینکوں کیساتھ ٹکرا گئے اور آن کی آن میں سینکڑوں بھارتی ٹینکوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا جس سے بھارتی فوجیوں کے حوصلے ٹوٹ گئے جس پر وہ فرار ہوئے یا انھوں نے ہتھیار دال دئیے۔ اس سے پہلے دنیا کی تاریخ میں کسی فوج نے بہادری کی اس طرح کی مثال نہیںپیش کی تھی ۔یہاں پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے نہ صرف وطن عزیز کا دفاع کیا بلکہ اپنے سے کئی گُنا زیادہ طاقتور دشمن کو بھاگنے پر مجبور کردیا ان شہیدوں کا خون آج بھی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستان میں۔ ہمیں بھی یاد رکھنا چمن میں جب بہار آئے۔
سترہ دنوں کی یہ جنگ ہندوستان کی آنے والی نسلوں کوہمیشہ یاد رہے گی کہ جس میں ایک نوزائیدہ ملک نے اپنے سے 10 گُنا طاقتور ملک کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے اس جنگ میں پاکستان کی بہادر فوج نے نہ صرف بھارت کو ذلت آمیز اور عبرتناک شکست سے دوچار کیا بلکہ اس کے تقریبا 1617 مربع میل رقبے پر بھی قبضہ کرلیا جبکہ6879 بھارتی فوجی بھی جہنم واصل ہوئے اس کے علاوہ اس کے 106 ٹینک، ،427 جنگی جہاز اور طیارے بھی تباہ ہوئے۔
اس جنگ میں جہاں پاک فوج اور عوام نے بھرپور حصہ لیا ۔ وہاںہزاروں نہیں لاکھوں لوگ سرحدوں سے نقل مکانی کر کے مہاجر ہوئے جنھیں پاکستانی قوم نے بڑی خندہ پیشانی سے اپنے گھروں میں جگہ دی اور ان کی ہر طرح سے مدد دی۔اس کیساتھ ہی پاکستان کے فنکاروں نے اگلے مورچوں پر پہنچ کر اپنے فوجی جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے قومی گیت اور ترانے گائے ان میں گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں مرحومہ کے ترانے ہمیشہ کے لیے یادگار بن گئے جو آج بھی سنتے ہوئے ہوئے ایک جوش پیدا ہوجاتا ہے۔ملکہ ترنم کا یہ قومی نغمہ بڑی شہرت رکھتا ہے۔ جس کے بول ہیں۔
ً ایہہ پُتر ہٹاں تے نہیں وکدے۔۔ تُوں لبھدی پھرے بازار کُڑے آج جب ہم چھ ستمبر کے موقع پر اپنے غازیوں اور شہیدوں کی لازوال قربانیوں کی یاد منا رہے ہیں ہمیں اس بات کو یاد رکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارا دشمن 1965ء کی اپنی ذلت آمیز شکست کو ابھی تک نہیں بھولا وہ اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے ہمیشہ اپنی مذموم کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔1971ء میں ہمارے مکار دشمن نے ایک سازش سے وطن عزیز کے ایک حصے کو جدا کردیا تھا۔ہمارایہ ازلی دشمن آج بھی پاکستان کے وجود اور سلامتی کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے ہمیں اس کی سازشوں سے نمٹنے اور ناکام بنانے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ ہشیار اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے اس کے لیے ہماری قیادت کو قوم میں جذبہ حب الوطنی کیساتھ اتحاد و یکجہتی پیدا کرنے کے لیے اپنا قومی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔