سرائیکی صوبہ اور ظہور دھریجہ

Saraiki Province

Saraiki Province

تحریر : رانا عبدالرب
روزنامہ خبریں میں ظہور دھریجہ نے سرائیکی خطہ کے مقدمہ کے سلسلہ میں سرائیکی خطہ کی عوام کی ہمدردیاں یرغمال بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ سرائیکی خطہ میں بسنے والی تمام اقوام کی حب الوطنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں کے عوام نے جو قربانیاں دیں ان کا انکار کسی طور ممکن نہیں۔ حب الوطنی یقینا اس بات کی متقاضی ہے کہ ریاست ایک ماں ہوتی ہے اوردھرتی کا کوئی بھی بیٹااس کا شیرازہ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتامگر سرائیکستان کے نام پرچند گم نام ملک دشمن این جی اوز کے پروردہ خود ساختہ دانشورایک عرصہ سے یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ اگر سرائیکستان نہ بنا تو بنگلہ دیش جیسا سانحہ جنم لے سکتا ہے مجھے ان نام نہاد دانشوروں سے محض یہ گوش گزار کرنا ہے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیلئے باقاعدہ سرحد پار بیٹھے دشمن نے ایک فضا پیدا کی جس میں ایک مائنڈ سیٹ بنانے کیلئے مکتی باہنی کو برسوں لگے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ایجنڈے پر ایک پاکستان دشمن قوت نے کام کیا باالفرض اگر آپ کی بات کا اقرار بھی کر لیاجائے کہ بنگلہ دیش جیسا سانحہ جنم لے سکتا ہے تو ایک محب وطن پاکستانی کے ذہن میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ سرائیکستان کے نام پرآپ کو بھی کسی ایسے ہی قوت سے فنڈنگ ہو رہی ہے۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ گھر کی دہلیزعبور کرنے کے بعد آپ کا کوئی اسم تک نہیں جانتا۔ جہاں تک سرائیکی خطہ کے حقوق اوروسائل کے استحصال کا تعلق ہے تو یہ بعید نہیں کہ یہاں کیسیاسی خانوادوںکے وہ عوامی نمائندگان جنھوں نے کبھی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر اور کبھی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پرعوامی پذیرائی حاصل کی ۔ذاتی مفاد کے علاوہ اسمبلی فورم پر کبھی بھی سرائیکی خطہ کے حقوق کا مقدمہ نہیں لڑا۔ سرائیکی خطہ کے وسائل کے لٹنے کی بات پر موصوف کے گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ فاروق خان لغاری صدارت جیسے ایک بڑے ملکی کلیدی عہدے پرفائز رہے اور وہ ایک بااختیار صدر تھے جنھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی اسمبلی کو چلتا کیا اسی طرح ایوب خان کے دور میں مشتاق خان گورمانی جن کا تعلق کوٹ ادو سے تھا اپنے دور میں ایک ملک کے گورنر تھے ۔ملک غلام مصطفی کھر جو گورنر ہوتے ہوئے حنیف رامے مرحوم جو وزیراعلیٰ تھے کے اختیار بھی استعمال کرتے تھے جب کہ مصطفی کھر وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے۔

Seraiki Province Movement

Seraiki Province Movement

ایوب خان کے دور میں ضلع میانوالی سے نواب آف کالا باغ امیر محمد خان گورنر مغربی پاکستان تھے ۔سابقہ دور حکومت میں پنجاب میں ضلع لیہ کی تحصیل کروڑ سے ملک احمد علی اولکھ کے پاس 9وزارتوں کا قلم دان تھا ۔متذکرہ بالا سرائیکی خطہ کی شخصیات کے دور اقتدار کا دورانیہ کسی بھی پنجابی حکمران کے دورانیے سے زیادہ تھا لیکن سرائیکی خطہ کے عوام کے حقوق کے لیے ان کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی رہی۔ اسی طرح سید یوسف رضا گیلانی سابق وزیراعظم جن کا تعلق ملتان سے ہے جو آج سرائیکی صوبہ کی آوازاٹھا نے میں پیش پیش ہیں مجھے ان کی بابت اتنا کہنا ہے کہ کیا اُنہوں نے سرائیکی صوبہ کی آوازاپنے دور اقتدار میں اس وقت بلند نہیں کی جب اُن کے اقتدارکو4سال کا عرصہ گزرچکا تھااور وہ آخری سانسیں لے رہا تھا۔مگر سرائیکی صوبہ کی تکمیل کے کارڈ کو وہ آنے والے وقت کیلئے بچا رکھنا چاہتے تھے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔

پیپلزپارٹی کا ایک مؤقف یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے سرائیکی صوبہ کی تحریک کے کاز کو نقصان پہنچانے کے لیے بہاولپور صوبہ بحالی کا جواز گھڑامگر جب مفادات کوٹھیس لگی تو دونوں پارٹیوں کے مفادات ایک ہی زنبیل میں نظر آئے۔وہ شخص جسے لاہور کی شاہراہوں پر گھسیٹنے کے نعروں کی بازگشت آج تک فضا میں موجود ہے 70کھانوں کی خوشبو مہکی تو وہ حریفوں کے دستر خوان پر جا بیٹھا ڈاکٹر انوار احمدسابق چیئرمین مقتدرہ زبان پاکستان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترداف ہے۔

ان کی ذات پر بھی تنقید کے تیر برسانے والے پیچھے نہیں رہے۔ کیا یہ ایک محب وطن پاکستانی کا اعزاز نہیں کہ اُسے مقتدرہ زبانوں کی چیئرمین شپ ملی میں ان افراد میں شامل ہوں جنھوں نے این جی اوز کی سرپرستی میں ہونے والے ان سیمینارز میں اکثر شرکت کی جن میں ان این جی اوز کے پروردہ خود ساختہ دانشوروں نے سرائیکی صوبہ کی تحریک کے نام پر ان این جی اوز سے کثیر رقمی فنڈز کے حصول کو یقینی بنایا۔

Saraiki

Saraiki

ضلع لیہ کے ایک نام نہاد دانشور جس نے ہمیشہ منافقت کا لبادہ اوڑھ کر اور این جی اوز سے فنڈنگ کے حصول کی خاطر اسٹیج پر کھڑے ہوکر سرائیکی خطہ کے عوام کے حقوق کی آواز اٹھانے کا ڈھونگ رچایااور وہ ظہور دھریجہ کے ہمراہ ان سیمینارز میں اکثر شانہ بشانہ نظر آیا لیکن اس کا دوسرا چہرہ یہ تھا کہ اس نے تخت لاہور کے سربراہ کو یہاں کے ایک حکومتی عوامی نمائندے سے کثیر رقم کے عوض تخت لاہور کے شاہ کو ایک خط لکھا جس میں تخت لاہور کو یہ باور کرایا کہ اگر آپ سرائیکی صوبہ کے کاز کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو لیہ کو ”تھل ڈویژن ”کا درجہ دے دیا جائے اس خط کے پس پردہ ایک تو تخت لاہور کی چاپلوسی ،خوشنودی تھی اور دوسرااس ایم پی اے کے حلقہ میں ایک مقامی کالج کی پرنسپل شپکا حصول تھا۔

میرے پاس آج بھی ان خطوط کی کاپیاں محفوظ ہیں اور میں نے ان خطوط کو باقاعدہ مقامی اخبارات میں شائع کر کے اس کے منافقانہ چہرے کو ننگا کیا۔اس ضمن میں محترم ظہور دھریجہ کو نہ صرف فون پر اطلاع دی بل کہ ان خطوط کی کاپیاں انھیں ارسال کیں جن کی رسیدیں بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ لیکن ظہور دھریجہ اور موصوف پروفیسرمزمل حسین ایک ہی چہرے کے دو رخ ہیں اس لیے ظہور دھریجہ نے نہ تو مزمل حسین کے بارے میں کسی اسٹیج پر زبان کھولنے کی ہمت کی اور نہ ہی ان کے ساتھ لاتعلقی کاکوئی تردیدی بیان جاری کیا۔اس طرح مزمل حسین آج بھی ظہور دھریجہ کی ٹیم کا حصہ ہے۔

Rana Abdulrab

Rana Abdulrab

تحریر : رانا عبدالرب
03456150150
abdulrab.rana@gmail.com