اللہ تعالا نے اس خاکی انسان کو روحانی غذا پہنچانے کیلئے ہر زمزں، مکان، لسان اور بیابان میں نبی بھیجے۔ جو اپنے فرائض کی تکمیل کیلئے سر خرو ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ آخر ایام میں امام الانبیآء سرور کائنات جناب حضرت محمد ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ۔ آنے کو تو سب سے آخر میں آئے۔ جب کہ سب جانے کیلئے آئے لیکن آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آنے کیلئے آئے۔ یہا تک کہ اس دنیا میں تشریف لیجانے کے باوجود آپ کے خاتم النبیین کی برکت سے تبلیغ دین کا کام آپ کی امت کے علماء انجام دے رہے ہیں اور قیامت تک دیتے رہیں گے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد پاک ہے۔ ترجمہ۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہو کہ اے انسانو !میں تم سب کی طرف اْس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے ”(الا عراف٨٥١) ”درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول ۖ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے”(الاحزاب١٢) مسلم کی حدیث ہے کہ ایک دفعہ چند صحابہ نے حضرت عائشہ ام المومنین سے عرض کیا کہ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ حالات زندگی ہم کو بتائیں عائشہ صدیقہ نے تعجب سے دریافت کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا جو مجھ سے خلق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق سوال کرتے ہو؟(مسلم )یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری زندگی قرآن تھی۔
اسماء صفات والقاب کے علاوہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور احمد کے نام سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن شریف میں یاد کیا ہے۔ حضرت آدم ع سے لیکر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام پیغمبروں نے اپنے اپنے طور پر اللہ کے حکم کے مطابق اللہ کا پیغام اللہ کی مخلوق تک پہنچایا مگر اس تما م پیغام کو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت میں یکجا کر کے قرآن شریف میں درج کر دیا اور کہہ دیا کہ میری مخلوق کے لیے میرا یہ آخری پیغام ،آخری پیغمبرۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہے جو قیامت تک رہے گا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت سنا دی کہ آج میں نے دین مکمل کر دیا ہے میری مخلوق قیامت تک اس پر عمل کرکے نجات پا جائے گی۔
اب کسی پیغمبر نے نہیں آنا ہے اس دین کو امت مسلمہ نے قائم رکھنا ہے۔٩ربیع لاول مطابق٠٢اپریل١٧٥ ئ( الر حیق المختوم) کی صبح مکہ کے ایک معزز قبیلہ قریش(بنی ہاشم) میں عبداللہ بن عبدالمطلب کے گھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے آپ ? کی والدہ کا نام آمنہ تھا ولادت سے پہلے ہی والد کا انتقال ہو گیا تھا اللہ نے قرآن شریف میں فرمایا ”بھلا اس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی”(الضحیٰ٦) عرب کے رواج کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی بنی سعد کی بدوی عورت حضرت حلیمہ کے حوالے کیا گیا تاکہ صحت مند ہو اور خالص اور ٹھوس عربی زبان سیکھ سکے حضرت حلیمہ کہتی ہیں کہ اس بچے کے آنے سے ہم آسودہ حالات ہو گئے جب کہ پہلے بہت ہی تنگ دستی تھی وہیں پر واقعہ شق صدر پیش آیا حضرت جبرائیل ع نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ چاک کر کے زمزم کے پانی سے دھو کر اسی جگہ رکھ دیا۔اس کے ایک سال بعد آپ ۖ کو اپنی والدہ آمنہ کے حوالے کر دیا گیا۔ کچھ مدت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔
دادا عبدالمطلب کے بعدابوطالب نے اپنے بھتیجے کا حق کفالت بڑی خوبی سے ادا کیا ٠٤ سال تک قوت پہنچائی جب تک ابو طالب زندہ رہے کسی کو جرات نہ تھی کہ رسول ۖ کو زک پہنچائے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر جب ٥٣ سال ہوئی اس وقت ایک واقعہ پیش آیا قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیر نو کا پروگرام بنایاقریش نے فیصلہ کیا خانہ کعبہ کی تعمیر پر حلال پیسے خرچ کریں گے اس سے ثابت ہوتا ہے حرام حلال کی تمیز ان میں تھی مگر دولت کی ہوس نے انہیں نابینا کیا ہوا تھاجب حجر اسود کو اپنی جگہ رکھنے پر جھگڑا شروع ہو گیا تو ہر قبیلہ اس کو رکھنے پر زور دے رہا تھا بات اس طرح طے ہوئی کہ کل جو سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہو گا اس کو حکم مان لیں گے اللہ کی مشیت دوسرے دن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہوئے لوگ مان گے کہ یہ امین ہے ہم اس پر راضی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر طلب کی حجر اسود کو خود اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر چادر پر رکھا پھر سب قبائل کے سرداروں سے کہا کہ آپ سب چادر کے کنار ے پکڑیں اور رکھنے کی جگہ لیں جائیں پھر اپنے ہاتھ سے حجر اسود کو اٹھا کر مقررہ جگہ پر رکھ دیا اس طرح جھگڑا ختم ہو گیا۔
Prophet Mohammad Peace Be Upon Him
آپ نے اپنی زندگی کے ٥٢ سال گزارنے کے بعد حضرت خدیجہ سے شادی کی شادی کے ٥١ سال بعد اللہ نے پیغمبر بنایا۔ پیغمبر ی کے ٣١ سال مکہ میں اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے بعد مدینہ ہجرت کی اور زندگی کے بقایا ٠١ سال مدینہ کے اندر گزارے۔ ٣٦ سال کی عمر میں وفات پائی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دور شباب میں ہی خلوت پسند ہو گئے تھے اور قوم کی بت پرستی کو دیکھ کر پریشان ہوتے تھے غار حرا میں جاکر اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ وحی کا نزول :۔ ایک روز اللہ نے ا پنے فرشتے حضرت جبرائیل کو وحی کے ساتھ بیھجا اور فرشتے نے کہا پڑھ اللہ کے نام سے ،مگر آپۖ نے کہا میں پڑھ نہیں سکتا۔ ” پڑھو(اے بنی) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ،جمے ہوئے خون کے ایک لو تھڑے سے انسان کی تخلیق کی، پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا” (العلق١۔٥) ان آیات کے بعدر سولۖ کا دل دھک دھک کر رہا تھا حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لے گئے اور کہا مجھے چادر اڑھا دو انہوں نے چادر اوڑھا دی یہاں تک کہ خوف دور ہو گیا۔حضرت خدیجہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں رسولۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارا واقعہ انہیں سنایا اس نے کہا یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے موسیٰ ع پر نازل کیا تھا کاش میں اس وقت زندہ ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرتا جب آ پصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قوم نکال دے گی آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قوم مجھے نکال دے گی ورقہ نے کہا جو کوئی بھی ایسی چیز لے کر آتا ہے جو آپ ۖلے کر آئے ہیں لوگ اسے نکال دیتے ہیں۔اس کے بعد مسلسل ٣٢ سال تک آپ ۖ پر وحی نازل ہوتی رہی۔ قرآن شریف میں ہے ”کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے روبرو بات کرے اس کی بات یا تو وحی(اشارے) کے طور پر ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے یا پھر وہ کوئی پیغام بر(فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے”( لشوریٰ١٥) ٣٢ سال کی مدت میں قرآن شریف کا نزول مکمل ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے بشیر و نذیر بنا کر انسانیت کے سامنے پیش کیا آپ ۖ نے نبوت کی ٣٢ سالہ زندگی میں اللہ کے کلام کو اللہ کی مخلوق تک انتھک طریقے سے پہنچایا اور اللہ نے اپنے پیارے نبیۖ سے کہا میں نے دین مکمل کر دیا ہے اب رہتی دنیا تک یہ دین قائم ودائم رہے گا کوئی دنیا کی طاقت اس کو مٹا نہیں سکے گی آپۖ نے قریش کو اللہ کا پیغام پہنچایا تو وہ طرح طرح کے الزامات لگانے پر تل گئے۔ آپ ۖ کو جادو گر،کاہن،شاعر اور نہ جانے کیا کچھ کہا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کام میں لگے رہے۔ دارالرقم میں دعوت کے پہلے ٣ سال:۔ نبوت کے پہلے ٣ سال خفیہ طریقے سے خاص خاص لوگو ں کو اللہ کی دعوت پہنچاتے رہے مرکز حضرت ارقم کے گھر کو بنایا شروع دنوں میں حضرت خدیجہ ،حضرت علی ،حضرت ابوبکر حضرت زید یہ سب پہلے ہی دن مسلمان ہو گے تھے اس کے بعد حضرت ابو بکرکی محنت سے حضرت عثمان ، حضرت زبیر ، حضرت عبدالر حمٰن حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ بن عبید مسلمان ہوئے یہ بزرگ اسلام کا ہراول دستہ تھے آہستہ آہستہ تعداد بڑھتی گئی حضرت بلال، حضرت ابو عبیدہ بن جراح، ابو سلمہ بن عبدالاسد، ارقم بن ابی الارقم، عثمان بن مطعون اور ان کے دونوں بھائی قدامہ اور عبداللہ، عبیدہ بن حارث، سعید بن زید ان کی بیوی فاطمہ ،خباب بن ارت، عبداللہ بن مسعود، اور دوسرے افراد مسلمان ہوئے یہ اصحاب قریش کی تمام شاخوں سے تعلق رکھتے تھے جن کی تعداد ابن ہشام نے٠٤ سے زیادہ بتائی ہے۔
مقاتل بن سلیمان کہتے ہیں کہ اللہ نے ابدائے اسلام میں دو رکعت صبح اور دو رکعت شام کی نماز فر ض کی ”صبح اور شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو”(المومن٥٥) اس کے بعد ٢سال تک جب جب اللہ کے کلام میں زیادہ توحید رسالت اور آخرت کے دلائل آنا شروع ہوئے تو مخا لفت بھی نسبتاً زیادہ ہوتی گئی بعد کے ٥سال اس مخالفت نے بہت زیادہ شدت اختیار کر لی بلا آخر مکی زندگی کے بقایا ٣ سال میں اہل قریش نے آپ کو قتل کرنے اور بستی سے نکال دینے کے منصوبے بنا لیے لیکن اللہ نے انصار مدینہ کے دل نرم کر دیے اور آپۖ مدینہ ہجرت فرما گے۔ رشتہ داروں کو دعوت :۔اللہ کے حکم کے مطابق پہلے اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دی”آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نزدیک ترین قرابتداروں کو ڈرایئے ”(الشعرآء ٤١٢) ان کو بلا کر اللہ کا پیغام پہنچایا ابو طالب نے حمایت کی اور ابو الہب نے کھل کر مخالفت کی۔ آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام خاندان کو ایک بار کھانے کی دعوت پر جمع کیا کل ٥٤ آدمی تھے اور فرمایا میں ایک چیز لے کر آیا ہوں جس سے دین اور دنیا دونوں میں فائدہ ہے۔ کون اس میں میری مدد کرے گا تمام مجلس میں سناٹا چھا گیا اس وقت حضرت علی نے کہا میں مدد کروں گابنی ہاشم کو کیا پتہ تھا اس دعوت نے سارے عرب وعجم میں پھیل جانا ہے۔
دعوت عام :۔پھر مثال دے کر اس زمانے کے رواج کے مطابق پہاڑ صفا کی چوٹی پر چڑ کر اعلان کیا یاصباحا.یاصباحا یعنی صبح کا خطرہ صبح کا خطرہ، قریش کے لوگوں کو پکارا لوگ جمع ہو گے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر میں آپ لوگوں سے کہوں کہ پہاڑ کی دوسری طرف سے دشمن حملہ کرنے والا ہے تو آپ لوگ میری بات پر یقین کریں گے سب نے کہا آپ ۖ سچے اور نیک آدمی ہیں ہم ضرور یقین کریں گے آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور تمہیں ا للہ واحد کی طرف بلاتا ہوں بتوں کی پوجا سے بچاتا ہوں یہ زندگی چند روزہ ہے سب نے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے یہ پیغام سن کر سب حیران ہو گئے اور آپ کے حقیقی چچا ابولہب کو طیش آ گیا اور اس بدبخت نے کہا تو ہمیشہ ہلاکت او رسوا ئی کا منہ دیکھے کیا تو نے اس غرض کے لیے ہم کو بلایا تھا۔چند لمحے پہلے جسے صادق اور امین کہا جا رہا تھا جب آپ نے ایک اللہ کی عبادت کا کہا تو سب ایک دم مخالف ہو گے۔
ابو طالب کو دھمکی :۔قریش نے دھمکی کے لیے اپنے چند آدمی ابو طالب کے پاس بھیجے انہوں نے کہا تمہارے بھتیجے نے ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہا، ہمارے دین کی عیب چینی کی ہماری عقلوں کو حماقت، کہا ہمارے باپ دادا کو گمراہ کہا، لہذا آپ یا تو اس کو روک دیں یا درمیان سے ہٹ جائیں ہم اس کے لیے کافی ہیں۔ابو طالب نرم تھے چنانچہ وہ چلے گے بعد میں ابو طالب نے اس کا ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا مگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایایہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا۔جب قریش نے دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ویسے ہی کام کرتے جا رہے ہیں تو ایک با رپھر ابو طالب کے پاس آئے اور کہا یہ ولید بن مغیرہ کا لڑکا عمارہ ہے یہ قریش کا بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے آپ اسے لے لیں اور اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کر دیں جس نے آپ کے آباو اجداد کے دین کی مخالفت کی ہے قوم کا شیرازہ منتشر کر دیاہے ان کی عقلوں کو حماقت قرار دیا ہے ہم اسے قتل کریں گے بس ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے ابو طالب نے کہا کتنا برْا سودا ہے میں تمہارے بیٹے کو کھلائوں پلائوں اور تم میرے بیٹے کو قتل کروخدا کی قسم یہ نہیں ہو سکتا یہ گفتگو ٦ بنوی میں ہوئی تھی۔
حضرت حمز اہ کا اسلام لانا :۔ایک دفعہ ابو جہل قریش کے دوسرے بد معاشوں کی حمایت کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر کو بھاری پتھر سے کچلنے کے لیے تیار ہو گیا جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں گئے تو ابو جہل آگے بڑھا لیکن قریب پہنچ کر واپس ہو گیا لوگوں نے کہا یہ کیا ہوا کہنے لگا ایک اونٹ آڑے آگیا اس جیسی شکل کا اونٹ میں نے زندگی میں نہیں دیکھاوہ مجھے کھائے جا رہا تھااس کے بعد حضرت حمزہ اسلام لائے واقعہ اس طرح ہے کہ ابو جہل نے ایک روز کوہ صفا کے نزدیک رسول ۖ کو ایذا پہنچائی اور سخت سست کہااس کے بعد ایک پتھردے مارا جس سے خون بہہ نکلا ابو جہل خانہ کعبہ میں قریش کی محفل میں جا بیٹھا ایک خاتون نے حضرت حمزہ کو وہ قصہ سنایاحضرت حمزہ شکار سے واپس آرہے تھے سیدھے جا کر ابو جہل کے سر پر کھڑے ہو گئے اور بولے او بزدل میرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے زور سے کمان اس کے سر پر ماری جس سے اس کے سر پر زخم آ گیا اس کے قبیلے بنو مخزوم والے اور حضرت حمزہ کے قبیلے والے آمنے سامنے آ گئے مگر ابو جہل نے اپنی غلطی مان لی اور معا ملہ خراب نہیں ہوا ابتداًحضرت حمزہ کا اسلام محض اس حمیت کے طور پر تھا لیکن اللہ نے ان کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا۔
حضرت عمر کا اسلام لانا: ۔حضرت حمز ا کے اسلا م لانے کے ٣ دن بعد حضرت عمر بھی مسلمان ہو گئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ سے دعا کی تھی اے اللہ ! عمر بن خطاب اور ابو جہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت پہنچا حضرت عمر تند مزاجی اور سخت خوئی کے لیے مشہور تھے ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کی نیت سے گھر سے نکلے کسی شخص سے ملاقات ہوئی اپنا ارادہ اس کو بتایا اس نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو تمہاری بہن اور بہنوئی بھی اپنا دین چھوڑ کر مسلمان ہو گئے ہیں بہن کے گھر گئے تو وہاں سورہ طہٰ پڑھی جا رہی تھی اس کے بعد بہنوئی اور بہن کو زخمی کیا بعد میں ندامت ہوئی کہا مجھے بھی قرآن پڑھنے دو بہن نے کہا آپ ناپاک ہیں پہلے غسل کریں پھر قرآن کو ہاتھ لگائیں سورہ ظہٰ پڑھنے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور اسلام لے آ ے اس سے قبل آپ نے ایک رات خانہ کعبہ میں پردے میں گھس کر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سورہ الحاقہ کی تلاوت سنی تو دل اسلام کی طرف مائل ہو گیاتھا۔
Islam
عتبہ کی سفارت :۔ حضرت حمزہ اور حضرت عمر کے اسلام لانے کے بعد قریش نے ایک نمائندہ عتبہ بن ربیعہ کو رسول ۖ کے پاس بھیجا خانہ کعبہ کے اندر عتبہ نے رسول ۖ سے ملاقات کی اور صلی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے قریش سے منظور شدہ گفتگو رکھی کہا ہماری قوم کے اندر آپۖ کا مرتبہ اور مقام ہے اب آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بڑا معاملہ لے کر آئے ہو جس سے قوم میں تفرقہ پڑھ گیا ہے یہ کام کرنے سے اگر آپ ۖ کو مال کی ضرورت ہے تو ہم آپ ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب اتنا مال دے دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سب سے زیادہ مال دار ہو جاو گے اگر آپ مرتبہ اور اعزاز چاہتے ہو تو ہم سب آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سردار مان لیتے ہیں اگربادشاہ بننا چاہتے ہو تو ہم سب آپ ۖکو بادشاہ بنا دیتے ہیں اگر آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کوئی جن آتا ہے تو ہم علاج کروا دیتے ہیں عتبہ یہ باتیں کرتا رہا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا اب میری سنو آپ ۖ نے سورہ حم السجدہ تلاوت فرمائی عتبہ سنتا گیا اٹھا اور سیدھا ساتھیوں کے پاس گیا انہوں نے کہا جیسے چہرہ لے کر گئے تھے ویسے نہیں رہے عتبہ نے قریش سے کہا میں نے ایسا کلام سنا ہے جیسا پہلے نہیں سناتھاخدا کی قسم وہ نہ شعر ہے نہ جادونہ کہانت اے قریش کے لوگوں میری بات مانو اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو اگر یہ شخص عرب پر غالب آگیا تو اس کی باشاہت تمہاری ،اس کی عزت تمہاری، اس کاوجود تمہارے لیے سعادت ہو گایہ بھی روایت میں آتا ہے
آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب قرآن کے ان الفاظ تک پہنچے تو عتبہ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرابت داری کا واسطہ بس کرو وہ آیات یہ تھیں ”پس اگر وہ رد گردانی کریں تو تم کہدو کہ میں تمہیں عاد وثمود کی کڑک جیسی ایک کڑک کے خطرے سے آگاہ کر رہا ہوں”( حم السجدہ ٣١)۔ بنو عاشم اور بنو مطلب کی میٹنگ :۔ ابو طالب کو مقابلے کی دھمکی ، پھر عمارہ بن ولیدکے عوض قتل کا معاملہ، ابوجہل کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر بھاری پتھر رکھنے، عتبہ بن ابی معیط کا چادر لپیٹ کر گلا گھونٹنے، خطاب کے بیٹے کا تلوار لے کر نکلنے اور قریش کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ یہ سب باتیں سنگین خطرہ محسوس ہو رہی تھیں اس لیے ابو طالب نے جدِاعلیٰ عبدِمناف کے دونوں صاحبزادوں ہاشم اور مطلب سے وجود میں آنے والے خاندان کو جمع کیا اور کہا اب رسول ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب حفاظت کریں ابو طالب کی یہ بات عربی حمیت کے پیش نظر ان دونوں خاندانوں کے سارے مسلم اور کافر افراد نے قبول کی البتہ صرف ابو لہب مشرکین سے جا ملا۔
اس فیصلے کے متعلق اللہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے ”اگر انہوں نے ایک بات کا تہیہ کر رکھا ہے تو ہم بھی تہیہ کئے ہوئے ہیں”(الزخرف٩٧)۔ ولید کی سفارت:۔ ایک دفعہ خانہ کعبہ میں سرداران قریش موجود تھے رسول ? بھی ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ ان ہی دنوں حج کا موسم تھا قریش کو فکر ہوئی کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آنے والے حاجیوں میں اپنے دین کو پھیلائے گا لہذا کو ئی تدبیر کرنی چاہیے انہوں نے سوچا کوئی ایسی بات متفق ہو کر آنے والے حاجیوں سے کریں جس سے ان کے دلوں میں اثر نہ ہوولید بن مغیرہ کو اس کام پر لگایا گیا۔چند لوگوں نے کہا ہم کہیں گے وہ کاہن ہے ولید نے کہا نہیں بخددا وہ کاہن نہیں ہے ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے، لوگوں نے کہا ہم کہیں گے وہ پاگل ہے ولید نے کہا وہ پاگل نہیں ہم نے پاگل بھی دیکھے ہیں ،لوگوں نے کہا ہم کہیں گے وہ شاعر ہے ولید نے کہا وہ شاعر بھی نہیں ہے ہم نے شاعر بھی دیکھے ہیں، لوگوں نے کہا وہ جادوگر ہے ولید نے کہا وہ جادوگر بھی نہیں ہے ہم نے جادوگر بھی دیکھے ہیں لوگوں نے کہا پھر ہم کیا کہیں گے کافی سوچ بچار کے بعد ولید نے مشورہ دیا ہم کہیں گے جادوگر ہے باپ بیٹے بھائی بھائی شوہر بیوی کنبے قبیلے میں پھوٹ ڈالتا ہے اس بارے میں سورہ مدثر میں ذکر آیا ہے”اس نے سوچا اور اندازہ لگایا۔
وہ غارت ہو۔ اس نے کیسا اندازہ لگایا، پھر غارت ہو اس نے کیسا اندازہ لگایا پھر نظر دوڑائی۔ پھر پیشانی سیکٹری اور منہ بسورا۔ پھر پلٹا اور تکبر کیا۔ آخر کار کہا کہ یہ نرالا جادو ہے جو پہلے سے نقل ہوتا آرہا ہے۔وہ محض انسان کا کلام ہے”( مدثر ٨١۔٥٢)اس بات کے بعد سب پھیل گے اور آنے والے حاجیوں میں وہ پروپگنڈا شروع کر دیا اس سے لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ آپ ۖنے دعویٰ نبوت کیا ہے ان کی اس حرکت سے دیار عرب میں آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چرچا ہوگیا اس محاذ آرائی کا اللہ نے قرآن میں یہ نقشہ کھینچا ہے۔ قریش آپ کو پاگل کہتے تھے”ان کفار نے کہا کہ اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہوا تو یقیناً پاگل ہے”(الحجر٦)کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جادوگر ہونے کا الزام لگاتے تھے۔ ”انہیں حیرت ہے کہ خود انہیں میں سے ایک ڈرانے والا آیا اور کافر کہتے ہیں کہ یہ جادوگر جھوٹا ہے”(ص٤) قریش آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے پیچھے پرْ غضب اور بھڑکتے ہوئے جذبات کے ساتھ چلتے اور کہتے تھے کہ پاگل ہے۔ ” اور جب کفار اس قرآن کو سنتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم اکھاڑ دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ یقیناً پاگل ہے”( القلم١٥) آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کمزور صحابہ کو د یکھ کر استہزاکرتے تھے ”اچھا! یہی حضرات ہیں جن پر اللہ نے ہمارے درمیان سے احسان فرمایا ہے”(الانعام٣٥) اللہ نے ان کو ان آیات میں جواب دیا ہے”کیا اللہ شکر گزاروں کو سب سے زیادہ نہیں جانتا”(الانعام ٣٥)عام طور پر مشرکین کی کیفیت وہی تھی جس کا نقشہ اللہ نے کھینچا ہے”جو مجرم تھے وہ ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اور جب ان کے پاس سے گذرتے تو آنکھیں مارتے تھے اور جب اپنے گھروں کو پلٹتے تو لطف اندوز ہوتے ہوئے پلٹتے تھے۔اور انہیں دیکھتے تو کہتے کہ یہی گمراہ ہیں، حا لا نکہ وہ ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے”(المطففین٩٢۔٣٣)۔
تکالیف:۔مکہ کے ٣١ سال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کو بہت ستایا گیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا دین کے معاملے میں جتنا مجھے ستایا گیا ہے کوئی اور پیغمبر نہیں ستایا گیا۔ بازار کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کودعوت دیتے پیچھے ابو لہب لوگوں کو کہتا یہ میرا بھتیجا ہے یہ جھوٹ کہتا ہے، خانہ کعبہ میں سجدے کی حالت میں سر پر اونٹ کی اوجھ ڈالی گئی، گردن میں چادر ڈال کرختم کر دینے کی کوشش کی گئی، دو بیٹیوں رقیہ اور ام کلثوم کوچچا ابولہب کے بیٹوں نے طلاق دی،طائف میں لہو لہان کیا گیا، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا عبداللہ فوت ہوا تو ابولہب خوش ہوا دوستوں کو خوشخبری دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابتر ہو گیا ہے،ابو لہب کی بیوی جو ابو سفیان کی بہن تھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے میں کانٹے ڈالتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کافر پڑوسی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں نماز پڑھ رہے ہوتے تو وہ آپ کے سرپر بکری کی بچہ دانی ڈال دیتے، چولھے پر ہانڈی چڑھائی جاتی تو بچہ دانی اس طرح پھینکتے کہ سیدھے ہانڈی میں جا گرتی،امیہ بن خلف کا وطیرہ تھا جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا تو لعن طعن کرتااس پرآیت ”اتری ہر لعن طعن اور برائیاں کرنے والے کے لیے تباہی ہے ”(الھمز ١)اخنس بن شریق ثقفی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ستاتا تھا
اس پر یہ آیت اتری ”تم بات نہ مانو کسی قسم کھانے والے ذلیل کی جو لعن طعن کرتا ہے ،چغلیاں کھاتا ہے۔ بھلائی سے روکتا ہے، حد درجہ ظالم، بد عمل اور جفا کار ہے۔ اوراس کے بعد بداصل بھی ہے”(القلم٠١۔٣١)ابوجہل بھی آپ ۖ کو تکلیفیں پہنچاتا تھا ایک دفعہ آپ پر نماز کی حالت میں تھے کہ مٹی ڈالنے آیا مگر اللہ کے حکم سے درمیان میں آگ اسے آگے نہیں جانے دے رہی تھی اس پر رسولۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قریب آتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو اچک لیتے۔ ٣ سال تک شعب ابوطا لب میں محصور رکھا گیا،قتل کرنے کی اور ملک بدر کرنے کی سازش کی گئی مخالفت میں کیا کچھ نہ کیا گیا ابو جہل نے سمیہ کو برچھی مار کر شہید کیا گیا،حضرت مصعب بن عمیر کا دانہ پانی بند کیا گیا، حضرت عثمان بن عفان کو چٹائی میں لپیٹ کردھواں دیا گیا، آل یاسر کو تکلیفیں دی گئیں، بلال کو گرم ریت میں لٹایا گیا گھسیٹا گیا ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھے گئے،خبیب کو گرم کوئلوں پر لٹایا گیا۔
ہجرت حبشہ:۔ صحابہ کو اتنا پریشان کیا گیا کہ وہ دو دفع حبشہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ حبشہ میں بھی پیچھا کیا گیامگر بادشاہ نجاشی جو نیک انسان تھا، نے قریش کی ایک نہ سنی اور مہا جرین حبشہ میں سکون سے رہے پہلی ہجرت میں ٢١ مرد اور ٤ عورتیں تھیں دوسری ہجرت ٢٨ یا٣٨ مرد اور ٨١یا٩١ عورتیں تھیں۔ قریش کی آخری سفارت:۔جب ابو طلب بیمار ہوئے تو قریش کو فکر ہوئی کہ ان کی زندگی میں ہی کچھ معاملہ ہو جانا چا ہیے چنا نچے قریش ایک بڑا وفد جس میں عتبہ بن ر بیعہ ،شیبہ بن ر بیعہ ،ابو جہل بن ہشام، امیہ بن خلف، ابو سفیان بن حرب اور دیگر تقریباً ٥٢ افراد آئے اور ابو طالب سے کہا آپ رتبہ اور مقام رکھتے ہیں آپ سے گزارش ہے کہ اپنے بھتیجے اور ہمارے درمیاں عہد وپیمان کروا دیں کہ وہ اپنے دین پر رہے اور ہم اپنے دین پر رہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی باتیں سن کر کہا آپ لوگوں کو میں ایک ایسا کلمہ نہ بتاوں جس کو اگر آپ مان لیں تو آپ عرب کے بادشاہ بن جائیں اور عجم آپ کے زیر نگیں آ جائے تو آپ کی کیارائے ہو گی قریش یہ سن کر حیران تھے آخر ابو جہل نے کہا اچھا بتاو ہم ایسی دس باتیں ماننے کے لیے تیار ہیں آپ ۖ نے فرمایا”آپ لوگ لا الٰہ الا اللہ کہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اسے چھوڑ دو اس پر انہوں نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر کہا ”محمد ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !تم یہ چاہتے ہو کہ سارے خداوء ں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالو؟ واقعی تمہارا معاملہ عجیب ہے” اس کے بعد انہوں نے اپنی اپنی راہ لی اس بارے قرآن کی یہ آیت نازل ہوئیں ”ص قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی بلکہ یہی لوگ جنہوں نے ماننے سے انکار کیا ہے
سخت تکبر اور ضد میں مبتلا ہیں۔ان سے پہلے ہم ایسی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں تو وہ چیخ اٹھے مگر وہ وقت بچنے کا نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود انہی میں سے آگیا۔ منکرین کہنے لگے کہ یہ ساحر ہے، سخت جھوٹا ہے،کیا اس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا؟یہ تو بڑی عجیب بات ہے اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عباد ت پر یہ کچھ نہیں مگر ایک من گھڑت بات پر یہبات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جا رہی ہے یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی ” (ص ا۔٧)۔
غم کا سال اور بشارتیں:۔ اس کے بعد ابو طالب اور حضرت خدیجہ کا انتقال ہو گیا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشکلوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔باوجود مشکلات ابتدائی مسلمان اس لیے ثابت قدم رہے کہ اللہ کا وعدہ تھا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرکشش قیادت تھی اور بار بار اللہ کی طرف سے کامیابی کی بشارتیں تھیں۔ طا ئف کا سفر :۔ ١ ھ نبوت میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طائف دعوت کی غرض سے تشریف لے گئے مگر انہوں نے شریر لڑکے آپ کے پیچھے لگا دیے آپ پر پتھروں کی بارش کی گئی آپ لہو لہان ہو گئے پہاڑوں کے فرشتے نے آکر کہا مجھے اللہ نے بھیجا ہے آپ ۖ کہیں تو ان کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں مگر پھر بھی آپ ۖ نے ان کے ایمان لانے کی دعاء کی۔
معراج :۔اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج کرائی ، دوسری باتوں کے علاوہ پانچ وقتہ نماز فرض کی گئی۔دوسرے پیغمبروں ملاقات کرائی،جنت دوزخ کا مشاہدہ کرایا،پھر اسی رات بیت المقدس سے مکہ تشریف لے آئے۔ بیعت عقبہ:۔ جب رسول ۖ طائف سے واپس آئے کچھ دن بعد یثرب کے سات لوگوں نے منیٰ کی گھاٹی میں آپ کی دعوت پر مسلمان ہو گئے اس کے بعد دوسری بیعت عقبہ میں پچھترافراد شریک ہوئے اس سے اسلام کی قوت میں اضافہ ہوا رسول ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینے آنے کی دعوت دی گئی۔ ان حضرات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک معاہدے کے تحت مدینے میں بلایا اس سے قبل اسلام کے پہلے سفیر حضرت مصعب بن عمیر کی محنت کی وجہ سے مدینے کے سردار اور انصار کے ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد مسلمان ہو گیاتھا .
ہجرت:۔رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ نے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت فرمائی کہ وہ اپنے اس نئے وطن مدینہ کو ہجرت کر جائیں سب سے پہلے حضرت ابو سلمہ ،حضرت صہیب ،حضرت عمر ،عیاش ،وغیرہ مدینہ تشریف لے گئے۔رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ نے حضرت ابوبکر اور حضرت علی کو روکا ہوا تھا جب مسلمان ہجرت کرنے لگے تو قریش نے دارالندوہ میں مشورے کے لیے میٹینگ کی اور رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے قتل کا منصوبہ طے ہوا اور ہر قبیلے کے لوگوں کو اس سازش میں شریک کیا اس پر للہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے اطلاع کر دی اور ہجرت کی اجازت دے دی قریش نے اس سازش کے لیے آدھی رات کا وقت مقرر کیا تھا
قریش نے اپنی سازش کی اور اللہ نے اس موقعے پر وہ کام کیا جسے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا ”وہ موقع یاد کرو جب کفار تمہارے خلاف سازش کر رہے تھے۔تاکہ تمہیں قید کر دیں یا قتل کر دیں یا نکال باہر کریں او لوگ داؤ چل رہے تھے اور اللہ بھی داؤ چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر داؤ والا ہے” (الانفال٠٣)حضرت علی کو اپنے بستر پر لٹا کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی صفیں چیریں اور ایک مٹھی سنگریزوں والی مٹی لے کر ان کے سروں پر ڈالی اور یہ آیت تلاوت فرما تے نکل گئے ”ہم نے ان کے آگے رکاوٹ کھٹری کر دی اور ان کے پیچھے رکاوٹ کھٹری کردی پس ہم نے انہیں ڈھانک لیا ہے اور وہ دیکھ نہیں رہے ہیں(لےٰس٩) دو شنبہ ٨ ربیع الاول ٤١ ?نبوت یعنی ١ ہجری مطابق ٣٢ ستمبر ٢٢٦ ء کو رسولۖاللہ قباء میں دارد ہوئے مسلمانانِ مدینہ رسول ۖ اللہ کے انتظار میں تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کے لیے سارا مدینہ امنڈ آیایہ ایک تاریخی دن تھا جس کی نظیر سر زمینِ مدینہ نے کبھی نہ دیکھی تھی رسول ۖ نے قباء میں کلثوم بن ہدم کے مکان میں قیام فرمایا۔اسی دوران مسجد قباء کی بنیاد رکھی اور نماز ادا کی اس کے بعد رسول اللہ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے رسول اللہ کی اوٹنی آپ ۖ کے ننہیال والوں بنو نجار کے محلے میں بیٹھ گئی ابوایوب انصاری نے لپک کر کجاوہ اٹھا لیا اور اپنے گھر لے چلے۔ یہود سے معاہدہ:رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مسلمانوں کے درمیان اخوت وبھائی چارہ قائم کر دیا تو اس کے بعد مدینے کے قریب ترین پڑوسی یہود کے ساتھ بھی میثاق مدینہ کے نام سے معاہدہ کیا بنو عوف اور دوسرے یہوداپنے دین پر عمل کریں اور مسلمان اپنے دین پر،دونوں اپنے اپنے اخراجات کے ذمہ دار ہونگے،کسی بھی فریق کے جنگ کی صورت میں تعاون کریں گے،قریش اور اس کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی یثرب پر حملے کی صورت میں سب مل کر دفاع کریں گے اختلاف کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول ۖ کی بات آخری ہو گی مگر پھر بھی یہودی دل میں عداوت رکھتے تھے۔
مدینے میں مشکلات :۔رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینے میں بھی آرام سے اللہ کے دین کوپھیلانے کے لیے نہ چھوڑا گیا طرح طرح سے رکاوٹیں ڈالی گئیں بدر، احد اور خندق کی جنگ کی،جنگ خندق کے موقعے پرتمام عرب کے مشرکوں نے مدینے کا محاصرہ کیا بنو قریظہ نے معاہدے کے باوجود مشرکین سے ساز باز کی یہود نے دین کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں عبداللہ بن ابی منافق اعظم نے اپنی ہر کوشش کی مگر اللہ نے اپنے دین کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے قائم کرنا تھا چاہے مشرکوں کو کتنا بھی ناگوار ہو۔اللہ کے رسول ۖ نے مکہ میں صحابہکی جان نثار ٹیم تیار کی ان کی اور انصارِمدینہ کی مدد سے عرب میں اللہ کے دین کو قائم کیا اللہ نے دین کے تمام احکامات کو مختصر سی مدت ٣٢ سال کے عرصے میں نازل فرمایا۔
فتح مکہ:۔جب مشرکین مکہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو رسولۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ پر چڑھائی کا پروگرام بنایامگر اس کو اخفا رکھا قریش نے ابو سفیان کو صلح کا سفیر بنا کر رسول ۖ کے پاس مدینہ بھیجا وہ اپنی بیٹی ام حبیبہ ام المومنین کے پاس گیا مگر اس نے ابو سفیان کو بنی کے بستر پر نہیں بیٹھنے دیا۔ رسول ۖ کے پاس حاضر ہوا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیاابو بکر کے پاس گیا انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات کرنے کو کہا عمر کے پاس گیا انہوں نے سختی کا اظہار کیا آخر میں علی کے پاس گیا انہوں نے کہا لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر امان کا اعلان کر دو۔چنانچے مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کیا ”میں لوگوں کے درمیان امان کا اعلان کر رہا ہوں” پھر مکہ چلا گیا۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ٠١ رمضان ٨ ھ ٠١ ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ کا رخ کیا۔اسی دوران حضرت عباس اسلام لائے عباس ابوسفیان کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لیکر گئے اور ابو سفیان بھی اسلام لے آئے حضرت عباس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہاابوسفیان اعزاز پسند ہیں ان کو کوئی اعزاز دے دیں چنانچے رسولۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اسے امان ہے جو اپنے گھر اندر سے بند کر لے اسے امان ہے جو خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے اسے امان ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر کو مختلف راستوں کی طرف سے مکہ داخل ہونے کا حکم دیا جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لشکر مکہ میں داخل ہوا تو قریش مقابلہ نہ کر سکے آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا خانہ کعبہ میں داخل ہو کر سب بتوں کو توڑ ڈالا حضرت بلال نے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی رسول اللہ نے شکرانے کے نفل اداکئے صرف ٩ دشمانان اسلام کو قتل کا حکم ہوا جس میں سے ٥ کی جان بخشی ہوئی انہوں نے اسلام قبول کیا ٤ کو قتل کر دیا گیا۔بت پرستی کا کام تمام کر دیا گیا اس کے بعد لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے خطبہ حجة الوداع:۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اللہ کی کبریائی بیان کی پھرفرمایا جاہلیت کے تمام دستور میرے پائوں کے نیچے ہیں
عربی کو عجمی سفید کو سیاہ پر کوئی فضلیت نہیں مگر تقویٰ،مسلمان بھائی بھائی ہیں،جو خود کھاو? غلاموں کو کھلائو ،جاہلیت کے تمام خون معاف،سود پر پابندی،عورتوں کے حقوق،ایک دوسرے کا خون اور مال حرام،کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کی تاکید،حقدار کو حق،لڑکا اس کا جس کے بستر پر پیدا ہوا، اس کے بعد ایک لاکھ چالیس ہزار انسانوں کے سمندر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میر ے بعد کوئی بنی نہیں ہے اللہ کی عبادت کرنا پانچ وقت کی نماز رمضان کے روزے زکواة اللہ کے گھر کا حج اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا جنت میں داخل ہو گے۔تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے صحابہ نے کہا آپ نے تبلیغ کر دی، پیغام پہنچا دیا حق ادا کر دیا۔یہ سن کر شہادت کی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا اے اللہ آپ بھی گواہ رہیئے۔
دین یعنی دستور عمل مکمل ہو گیا:۔اس خطبے، کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا” (المائدہ٣)اب رہتی دنیا تک یہ ہی دین غالب رہے گا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے آخری پیغمبر ہیں اور یہ دین آخری دین ہے قیامت تک نہ کوئی نیا نبی آئے گا نہ نیا دین آئے گا اب اس دین کو دوسری قوموں تک پہنچانے کا کام امت محمدیہ کرے گی لہذا ہمارے لیے سبق ہے کہ ہم اپنے اعمال ٹھیک کریں اسلام کے دستور میں جتنی بھی انسانوں کی خواہشات داخل کر دی گئیں ہیں انہیں ایک ایک کر کے اپنے دستو ر عمل سے نکال دیں اور اپنے ملک میں اسلامی نظام، نظام مصطفےٰ، حکومت الہیہ( جو بھی نام ہو) اس کو قائم کریں او ر پھر اس دستور کو دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچائیں جنت کے حق دار بنیں اور جہنم کی آگ سے نجات پائیں جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے اپنی آخری منزل جنت میں داخل ہوں جہاں ہمیشہ رہنا ہے جہاں نہ موت ہو گی نہ تکلیف ہو گی اللہ مومنوں سے راضی ہو گا اور یہی کامیابی ہے۔