ایک عام شخص بھی اپنی زندگی میں کم از کم تین مواقع پر VIP ضرور ہوتا ہے اوّل پیدائش دوم شادی اور آخرمیں اپنی موت پرمگر کرونا کی سب سے بڑی ہولناکی یہ ہے کہ اسنے موت کے رومانس کو فقط گنتی میں بدل کر رکھ دیا ہے اور ایسے مریض کی جسمانی تکلیف تو ایک طرف ذرا ذہنی اذیّت کا تصوّر کیجئے کہ جسے اچھوت سمجھ کر الگ تھلگ کردیا گیا ہو اور وہ موت سے قبل اپنے پیاروں کو ملنا، چھونا یا چُومنا چاہتا ہو مگر شدید خواہش کے باوجود ایسا ممکن نہ ہو اور ایسے ہی حالات میں جب ہر طرف لاشوں کے انبار لگے ہوں نفسانفسی کا عالم ہو فیس بک اور سوشل میڈیا پر ہزاروں دوست اور فالورز رکھنے والا بھی گمنام موت کا شکار ہوجائے لپٹ کر رونا تو کُجا کوئی میّت کو ہاتھ لگانے کو بھی تیار نہ ہوگا اور ہوگا بھی تو اجازت نہ ہوگی لاشوں سے اٹا ایک ٹرک آئے گا جس میں وہ لاش بھی اچھال دی جائے گی جنازہ نہ اعلان، قبر نہ کتبہ لہٰذا تاریک راہوں میں مرنے کے بجائے اس پروگرام کو فی الحال مؤخر کرکے کسی مناسب وقت پہ ٹال دیجئے اور تمام تر احتیاطی تدابیر پہ پوری ذمہ داری سے عمل کیجئے تاکہ آپ بیماری سے بچ جائیں ابھی آپکی بہت ضرورت ہے کیونکہ اس ووقت پاکستان اسٹیج 3 میں داخل ہو رہا ہے، جہاں لوگوں سے لوگوں میں وائرس کی منتقلی شروع ہوتی ہے۔
480 میں سے کم از کم 59 کیسز ایسے ہیں، جن میں مقامی طور پر کرونا وائرس پھیل چکا ہے اس لیے آپ سب کو اللہ کا واسطہ ہے کہ اس چیز کو سمجھیں اگر ہم احتیاط نہیں کرتے تو اگلے دو سے تین ہفتوں میں کرونا وائرس کا طوفان آنے والا ہے، جسے ہمارا ہیلتھ سسٹم برداشت نہیں کر پائے گا یہ کوئی سازش یا افواہ نہیں کرونا بد قسمتی سے حقیقت ہے اس لئے احتیاط کریں ہم ایک غریب ملک کے شہری ہیں، یہاں بھوک کی وجہ سے صورتحال دوسرے ممالک سے بھی بدتر ہو سکتی ہے۔
ہمارا پورا نظام زمین بوس ہوجائے گا ہم دوراہے پر کھڑے ہیں، تھوڑی سی احتیاط سے ہم اس امتحان سے نکل جائیں گے اور لاپرواہی سے ہمارا سب کچھ ڈوب جائے گا احتیاط سے خود کو، اپنے پیاروں اور پاکستانیوں کو بچا لیجیے اگرخدانخواستہ ہم نے یونہی لاپرواہی کا ثبوت دیا اور مورخ اس وبا سے بچ گیا تو حالات کی سنگینی کو جوتے کی نوک پر رکھنے والی پاکستانی قوم کا ذکر ضرور کرے گا اور یہ بھی لکھے گا چین اور ایران کے پڑوس میں بسنے والی قوم نے موت کے لیے اپنے دروازے خود کھولے تھے مورخ لکھے گا کہ جب کراچی سے ڈیرہ غازی خان تک لاعلاج وبا اپنے شکار ڈھونڈ رہی تھی، ہم محفوظ آشیانوں سے نکل کر اس کے سامنے دست بدست کھڑے ہو گیے تھے، وہ یہ بھی لکھے گا کہ اس وقت بھی تھڑے، بیٹھکیں، گلیاں،چوک اور بازار آباد رہے جب اعتکافِ بقا واجب تھا، ایک قوم نے اصول بقا سے اس وقت انحراف کیا تھا جب اتفاق لازم تھا اب بھی وقت ہے کہ اپنے آپ کو اپنے گھروں تک محفوظ کرلیں کرونا کیا کسی بھی موذی بیماری سے بچنے کا یہی ایک واحد حل ہے یہ بیماریاں آج سے ہم پر مسلط نہیں بلکہ وقفہ وقفہ سے پہلے بیکٹیریا کی شکل میں اور اب وائرس کی شکل میں ہم پر حملہ آور ہیں جب زمین سات حصوں میں تقسیم ہو ئی توبراعظموں کے درمیان سمندر تھے اور ہر سمندر نے ایک تہذیب کو دوسری تہذیب سے الگ رکھا ہوا تھا۔
سمندروں کی وجہ سے تہذیبیں دوسری تہذیبوں کی بیماریوں سے محفوظ تھیں لیکن پھر انسان نے سفر کے سمندری ذریعے ایجاد کر لیے بحری جہاز بنائے اور براعظم براعظموں سے رابطے میں آ گئے یہ بحری رابطے ایک خطے کی بیماریاں دوسرے خطوں تک پہنچانے لگے یورپ میں طاعون پھیلا تو اس نے ایشیا اور افریقہ کو بھی لپیٹ میں لے لیا ٹی بی آئی تو یہ میڈی ٹیرین سی تک پوری دنیا میں لاشیں بچھاتی چلی گئی اور چیچک، خناق،کالی کھانسی اور خسرہ آیا تو یہ بھی چند ماہ میں پوری دنیا میں پھیل گیا انسان نے ان اموات سے سیکھا ہر شخص کو فوری طور پر اپنے شہر اور اپنے ملک میں داخل نہ ہونے دیاگیا چناں چہ سمندروں کے کنارے احاطے بنا دیے گئے اور بحری جہازوں سے اترنے والے لوگوں اور عملے کے لیے40 دن ان احاطوں میں رہنا لازم قرار دے دیا گیا یہ 40 دن کیوں؟ انسان نے تجربوں سے سیکھا تھا ہمارے جسم میں چالیس دن بعد ہرچیز تبدیل ہو جاتی ہے صرف انسان کے دل و دماغ اور آنکھوں کے خلیے مستقل ہوتے ہیں یہ نئے نہیں بنتے باقی سارا جسم خود کو بناتا اور توڑتا رہتا ہے یہ شکست وریخت زیادہ سے زیادہ چالیس دن میں مکمل ہو جاتی ہے اگر انسان کے جسم میں کوئی بیماری موجود ہے تو یہ چالیس دن میں سامنے آ جاتی ہے۔
لہٰذا سمندروں کے کنارے آباد شہروں کی انتظامیہ مسافروں اور عملے کو 40 دن تک احاطے میں رکھتی تھی جس کے بعدصحت مند لوگوں کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی تھی اور بیمار لوگوں کو واپس بھجوا دیا جاتا تھا چالیس دن کا یہ سلسلہ فرانس میں شروع ہوا تھا فرنچ زبان میں چالیس کو قروئین اور دن کو ٹائین کہا جاتا ہے چناں چہ اس مناسبت سے چالیس دن کے اس قیام کو قوارنٹائین (قرنطینہ) کہا جانے لگا۔فرانس کا یہ تجربہ کام یاب ہو گیا پوری دنیا نے اسے کاپی کیااور متعدی امراض کنٹرول ہو گئے لیکن پھر کولمبس نے 1492 میں امریکا دریافت کر لیا جس کے ساتھ ہی وہ لوگ دنیا سے مل گئے کولمبس جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس لوٹا تویہ ماضی کی تمام بیماریاں ساتھ لے آیا۔ 16 ویں اور17ویں صدی میں فرنچ، پرتگالی،ڈینش،برٹش اور ڈچ جہاز ران بھی امریکا پہنچ گئے یہ بھی واپسی پر بیماریوں کے تحفے لے آئے چناں چہ ایک ایسا وقت آ گیا جب پورا یورپ بیمار ہو چکا تھااور یہ بیماریوں سے بچنے کے لیے فرانس کی طرح ہر پورٹ پر قرنطینہ بنا نے پر مجبور ہو گیا تھا۔
بحری سفر کرنے والا ہر شخص اس قرنطینہ میں چالیس دن پورے کیے بغیر ملک میں داخل نہیں ہو سکتا تھا 1928 میں اینٹی بائیوٹک ایجاد ہو گئیں بیماریوں کے بیکٹیریاز کا علاج ممکن ہو گیاجس کے بعد قرنطینہ ختم ہوتا چلا گیا آج آپ کو کسی پورٹ پر 40 دن انتظار نہیں کرنا پڑتا کیونکہ بلڈ ٹیسٹ اور اینٹی بائیوٹک ہیں ڈاکٹر کسی بھی انسان کا خون ٹیسٹ کرتے ہیں اگر بیماری نکل آئے تو اینٹی بائیوٹک کے ذریعے اس کا علاج شروع کر دیا جاتا ہے اور یہ چند گھنٹے بعد محفوظ ہو جاتا ہے یوں انسان نے بیماریوں کا تدارک کر لیا لیکن قدرت انسان اور انسانی تدبیر سے لاکھوں کروڑوں گنا تگڑی ہے چناں چہ اس نے نئے انداز سے حملے شروع کر دیے بیکٹیریا کے بعد وائرس شروع ہو گئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے بیکٹیریا اور وائرس میں کیا فرق ہے؟۔ ہم انسانوں میں 37 ٹریلین باڈی سیلز ہوتے ہیں ہمارا پورا وجود ان سیلز (خلیوں) سے بنتا ہے جب کہ ہمارے جسم میں 39 ٹریلین اچھے برے بیکٹیریاز ہوتے ہیں اچھے بیکٹیریاز ہماری زندگی کی گاڑی چلاتے ہیں یہ خوراک ہضم کرتے ہیں ہمارا خون بناتے ہیں اور ہمیں حرکت پر مجبور کرتے ہیں جب کہ برے بیکٹیریا ہمیں بیمار بناتے ہیں یہ ہمیں کمزور اور لاغر کرتے ہیں ہمارے جسم کے برے بیکٹیریا اینٹی بائیوٹک سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
جب کہ وائرس بیکٹیریا سے مختلف ہوتا ہے۔اس پر اینٹی بائیوٹک کا اثر نہیں ہوتا یہ ہمیں بیمار کیے بغیر ختم نہیں ہوتا چناں چہ انسان کو جب بھی وائرل اٹیک ہوتا ہے تو ادویات اس پر بے اثر ہو جاتی ہیں یہ صرف اپنی قوت مدافعت کے ذریعے ہی بیماری سے باہر آتا ہے۔انسان نے وقت کے ساتھ ساتھ سیکھا وائرس زیادہ سے زیادہ 14 دنوں میں اپنا آپ دکھا دیتا ہے یہ بیماری کو ظاہر کر دیتا ہے آپ نے دیکھا ہو گا حکومتیں کورونا سے متاثر ہونے والے علاقوں سے آنے والے لوگوں کو14دن قرنطینہ میں رکھتی ہیں اور اس وقت تک دنیا میں کرونا کا کوئی علاج موجود نہیں مگر اسکے باوجود 97 فیصد مریض ایک یا دو ہفتوں میں صحت مند ہو جاتے ہیں یہ لوگ اپنی قوت مدافعت کے ذریعے ٹھیک ہوتے ہیں آرام کرتے ہیں اچھی خوراک کھاتے ہیں اور ٹینشن فری رہتے ہیں باقی رہ گیا یہ سوال کہ حکومت انہیں ”آئسو لیشن“ میں کیوں رکھتی ہے تو اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے کہ کرونامریض کے وائرس دوسرے لوگوں تک منتقل نہ ہوسکیں اس لیے میری آپ سے درخواست ہے آپ اگر خود اور دوسروں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ اپنے اپنے گھروں میں ایک کمرے کا قرنطینہ بنا لیں۔جس بھی شخص میں کرونا کی علامتیں ظاہر ہوں اسے اس کمرے تک محدود کر دیں اس سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ رکھیں۔
فون پر بات کریں اور خوراک کا ذخیرہ بھی ایک ہی بار اسے دے دیں مریض کمرے میں رہے کتابیں پڑھے ٹی وی دیکھے موبائل فون پر ویڈیوز دیکھے دس دس پندرہ پندرہ گھنٹے سوئے اور ہر دس منٹ بعد دو گھونٹ پانی پیے اور ایسا مریض ان شا االلہ دس دن میں صحت یاب ہو جائے گا ہمیں یہ بات پلے باندھنا ہوگی یہ آسمانی آفت ہے یہ اپنے وقت پر ہی ختم ہو گی آپ اس میں اپنی بداعمالیاں یا گناہ تلاش نہ کریں آفتیں آتی ہیں اور اپنا وقت گزار کر چلی جاتی ہیں اس لیے آپ بھی قرنطینہ میں بیٹھ کر اس کے جانے کا انتظار کریں یہ کم ہو رہی ہے یہ ان شاء اللہ اگلے پندرہ دن میں ختم ہو جائے گی آپ نے صرف 15 دن کا قرنطینہ لینا ہے وہ بھی اپنے گھر میں آخر میں میری ان تمام سیاسی رہنماؤں سے بھی گذارش ہے جنہوں نے ملک کے کسی بھی کونے سے الیکشن میں حصہ لیا ہار گئے ہوں یا جیت گئے ہوں لوگوں نے آپ کو عزت دی آج موذی وبائی مرض کرونا پھیل رہا ہے آپ کے علاقے کے لوگوں کو آپ کی ضرورت ہے، باہر نکلیں اور مشکل کی اس گھڑی میں اپنی عوام کا ساتھ دیں آج اسی طرح سے لسٹ تیار کریں جیسے اپ الیکشن کے دنوں میں کرتے تھے اس گھر میں، اس گلی میں اتنے ووٹرز ہیں اور اب پھر لسٹیں تیار کریں کہ کون لوگ ہیں جن کو اس وقت راشن کی ضرورت ہے ماسک اور ایسی دوسری چیزیں جو اس وبا سے لوگوں کو بچا سکتی ہیں وہ کن لوگوں میں اور کیسے تقسیم کی جا سکتی اب سب سیاسی جماعتوں کا اور خاص طور پر حکمران جماعت کا فرض ہے کہ اس مشکل صورتحال میں اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کا ساتھ دے۔ یقینا اپ نے لاکھوں کروڑوں روپیہ الیکشن کمپین پر اسی وجہ سے خرچ کیا کہ آپ عوام کی خدمت کر سکیں اور میرے خیال سے خدمت کا یہ نادر موقعہ اور بہترین وقت ہے۔