جج سے جرم تک

Violence on Girl

Violence on Girl

تحریر : ممتاز ملک پیرس
سیشن کورٹ جج راجہ خرم علی خان ….کاش میرا بس چلتا تو میں تمہیں جج کی کرسی سے گھسیٹ کر تمہاری بدمعاش بیوی سمیت تاحیات سڑک پر بھیک مانگ کر پیاز کیساتھ روٹی کھانے کی سزا دیتی . اور ہر آنے جانے والے کو تمہیں ایک لات مار کر جانے کی سزا لازمی قرار دیتی . تمہارے جرائم….دس سال کی معصوم بچی کو گھر میں ملازم رکھنا اسے بھوکا پیاسا رکھنا اس پر جسمانی اور ذہنی تشدد کرنا اس کو حبس بیجا میں رکھنا اس کے ماں باپ سے انسان کے بچے کی خریدوفروخت کرنا ایک انسان کے بچے پر ایک جھاڑو کو قیمتی سمجھ کر اسے فوقیت دینا ملازمہ دس سالہ بچی کو چولہے پر جلانا اور اس کے جسم کو داغنا کیا آپ بھی اہل دل ہیں؟ اس ملک کا ایک بصورت منسٹر اپنے گھر سے70 ارب روپے کا مہا ڈاکو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور دو ارب کی ہڈی منصف یا ججہ بدمعاش کے منہ میں ڈال کر باعزت و باکردار کا سرٹیفیکیٹ جاری کروا لیتا ہے۔

ایک مجبور عورت اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیئے روٹی کا ٹکڑا یا دودہ کے دو گھونٹ کے لیئے چند ٹکے چراتے ہوئے اس ملک کے ججے بدمعاشوں کے منہ پر چانٹے بننے کے بجائے مجرم اعلی بنا کر میڈیا پر پیش کر دی جاتی ہے . اور اس ملک کی عوام تماشے دیکھنے اور بنانے اور بننے کے شوق میں ڈھائی ماہ کی معصوم بچی کا لاشہ اٹھائے سردی اور بھوک سے مرنے والی اور اسکی ماں کو عبرت کا نشان ہونا ہی چاہیئے….???? اے چاند یہاں نہ نکلا کر یہ دیس ہے اندھے “منصفوں ” کا یہ تو ہوئے میرے یا مجھ جیسوں کے ذاتی جذبات۔

لیکن ہمارے ملک میں ہر پیشے کے لوگوں نے اپنی تنظیموں کے نام پر اپنے اپنے مافیاز بنا رکھے ہیں ان میں آج کئی سالوں سے سر فہرست ہے وکیل مافیا اور جج مافیا . کیا کوئی شخص ایسا ہے کہ جس کا واسطہ کبھی بھی قانونی یا عدالتی معاملات سے پڑا ہے وہ ان لوگوں کی کرپشن سے آگاہ نہیں ہے …اور کسی بھی چور بازاری کی صورت میں یہ پولیس گردی کا عملی نمونہ پیش نہیں کرتے۔

Gavel

Gavel

اس خاص کیس سے پہلے بھی ججوں اور وکیلوں کی ایسی ہی گھناؤنی حرکتیں منظر عام پر نہیں آئی ہیں اور وہ سب کیسز کس کے اشارے پر دبا لیئے گیئے؟؟؟ اس کیس میں بچی کو بیچنے والے ماں اور باپ کو گرفتار کر کے دس دس سال کے لیئے جیل کیوں نہیں بھیجا گیا ..ایک نشئی آدمی کو نامرد کر کے اسے بچے پیدا کرنے سے معذور کیوں نہیں کیا گیا .کہ جنہیں وہ پال نہیں سکتا تھا انہیں دنیا میں گھسیٹ کر لا کر ان کا سودا کر کے نشہ کرنے کی عیاشی کا حق اسی کس نے دیا؟ اور بچے پیدا کرنے والی اس ڈائن کو ماں کی فہرست خارج کر کے یہ بچی اب تک کسی اچھے چائلڈ سینٹر کے حوالے کیوں نہیں کی گئی؟۔

اس عورت کو ماں کے درجے کا مذاق اڑانے پر بیس سال قید با مشقت دی جائے . تاکہ یہ باقی عورتوں کے لیئے بچے پیدا کرنے سے پہلے انہیں پالنے والے باپ کی کمائی اور کردار کی گارنٹی بن سکے . کہ آیا اس کا شوہر بننے والا مرد اس کے بچے کا باپ بننے کا بھی حقدار اور اہل ہے یا نہیں ….عدالت عالیہ سے گزارش ہے کہ خود کو بھی اس مقدمے میں پیش کیجیئے اور اپنے “پیٹی بند بھراوں” کو بچانے کی ناپاک کوششوں کا قلعہ قمع کیا جائے .اور مجرم وکیلوں اور ججوں کو قرار واقع سزائیں دیکر عوام کا اعتماد عدالتوں اور قانون کی عملداری پر بحال کیا جائے۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک پیرس