معاشرہ اپنے روز مرہ کے واقعات سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ واقعات اس معاشرے کی تہذیب، تمدن اور سوچ کا پتا دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے کی ترجمانی ایسے سانحے کرتے ہیں جن کا انسانی قدروں سے دور پار کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔ ایک طرف ہم تہذیبی نرگسیت کا شکار ہیں اور یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ اسلام ہمارے لیے نظام حیات ہے تو دوسری جانب ہر روز ان گنت ایسے واقعات ہمارے معاشرے ہی میں جنم لیتے ہیں جن کا تعلق اسلام تو کیا دنیا کے کسی بھی مہذب مذہب کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ حال ہی میں مغلپورہ میں پیش آنے والا انسانیت سوز واقعہ بھی ہماری تہذیبی نرگسیت کی نفی کرتا ہے۔
یہ واقعہ ہمیں آئینہ دکھانے کے لیے بہت ہے کہ ہم جو مشرقی تہذیب کا ڈھونڈرا پیٹتے نہیں تھکتے، انہیں اب اس مشرقی تہذیب کے لبادے میں ہونے والی المناکیوں پر شرمسار بھی ہونا چاہیے۔ پانچ سال کی سنبل کو گھر سے باہر کھیلتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا۔ اس معصوم بچی جس کے ابھی گڑیوں کے ساتھ کھیلنے کے دن تھے اس بے دردی کے ساتھ بے حرمت کیا گیا کہ شاید ہی کوئی آنکھ ہو جس میں شرمندگی کے اشک نہ بھر آئے ہوں۔ بدقسمتی ملاحظہ فرمائیے کہ اس پھول سی بچی کو بے حرمت کرکے ہسپتال کی سیڑھیوں پر پھینکنے وا لا درندہ ایک لمحے کے لیے بھی گھبرایا نہیں کہ شاید اس دنیا میں وہ سزا سے بچ نکلے لیکن ایک ایسی عدالت بھی ہے۔
جہاں سے سزا پانے کے بعد انسان دونوں جہان میں رسوا وملعون قرار پاتا ہے۔ مغلپورہ میں پیش آنے والا یہ سانحہ بظاہر ایک عام سا واقعہ ہے، ایسا واقعہ جیسا ہمارے معاشرے میں ہر روز رونما ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس واقعے کو ایک غیرت مند اور مہذب قوم کے دعویدار ہونے کے ناتے دیکھیں تو پھر نہ ہمارے دامن میں اسلام بچتا ہے اور نہ ہی وہ تہذیب جسے ہم کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں جرم کی نوعیت سے معاشرے کی سوچ کا پتا چلایا جاتا ہے۔ مغرب کے مادر پدر آزاد معاشروں میں بھی جرم رونما ہوتے ہیں لیکن ان کی تعداد اتنی نہیں ہوتی جتنی ہمارے ہاں پیش آنے والے جنسی جرائم کی۔
Cemetery Of Karachi
مغرب میں بھی بچیوں کے ساتھ بے حرمتی کے واقعات اخبارات کا حصہ بنتے ہیں لیکن ان کی تعداد اتنی نہیں ہوتی جتنی ہمارے نام نہاد اسلامی یا مشرقی معاشرے میں۔ ہمارے لیے یہ کسی المیے سے کم نہیں کہ ہم جو مذہبی اور معاشرتی حوالے سے عورت کو عزت اور غیرت قرار دیتے ہیں، اسے قبر اور گھر دونوں جگہ پر محفوظ نہیں رکھ پاتے۔ ہمیں اس سے بڑھ کر کیا شرمندگی ہوسکتی ہے کہ ہماری بہو بیٹیاں اپنے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک غیر محفوظ ہیں۔ ابھی کراچی کے قبرستان میں خواتین کی لاشوں کے ساتھ ایسے ہی درندہ صفت جانور نما انسان کی شیطانی درندگی فراموش نہیں ہوئی تھی کہ مغلپورہ کے اسی کے ہم جنس نے معصوم سے پھول کو مسل دیا۔
اب یہ بچی سروسز ہسپتال میں زیر علاج ہے، یہ جان سے تو نہیں گئی البتہ اس بدنصیب اور بے حس معاشرے سے آباد دنیا میں رہنے کے قابل بھی نہیں رہی۔ یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اسے زندہ تو بچا لیا جائے گا لیکن زندہ رکھتے ہوئے معاشرے کے غلیظ طعنوں اور حریص نظروں سے کس طرح محفوظ رکھا جائے گا۔ پاکستان میں پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی ننھے معصوم بچوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ فہرست طویل ہے لیکن فی الحال یہی کہہ دینا بہت ہے کہ یہ ایسے المیے ہیں جنہیں تعداد سے نہیں بلکہ ان کی تلخی سے پہچانا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ چند روز قبل لاہور میں خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد مٹی کاتیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔
زیادتی کا نشانہ بننے والی 26 سالہ مقدس بکر منڈی کی رہائشی تھی، جس کے ساتھ شوہر کے دوستوں نے اجتماعی زیادتی کی اور پھر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔ جس کے نتیجے میں مقدس کا 60 فیصد سے زیادہ جسم جھلس گیا ہے۔ خاتون کو میو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے ۔سکھر میں پندرہ روز تک زیادتی کے بعد قتل کی گئی تیرہ سالہ بچی کے بااثر قاتلوں کو تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔ مقتولہ کا والد تاحال انصاف کیلئے در در کی ٹھو کریں کھانے پر مجبور ہے۔ بدین میں پینتیس سالہ ذہنی بیمار خاتون کے ساتھ گیارہ افراد نے اجتماعی زیادتی کی۔ میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد پولیس حرکت میں آگئی۔
Police
میڈیکل اور مقدمے کے اندراج کے بعد ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس نے کوششیں تیز کردیں ہیں۔ گزشتہ ہفتے تھرپارکر کے علاقے مٹھی میں پانچ ملزمان نے خاتون کو مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا نوٹس لیا اور آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ پانچ ملزمان گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ علی پور میں 13 سالہ حافظہ قرآن سے زمیندار نے اغوا کے بعد زیادتی کی اور تشویشناک حالت میں نہر کے کنارے پھینک دیا۔ مقدمہ درج نہ ہونے پر متاثرہ بچی کے اہلخانہ اب تک انصاف کے منتظر ہیں۔ پاکستان جہاں پر دن بہ دن مختلف اقسام کی نوعیت کے جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔
وہیں پر خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں حوا کی بیٹیاں مسلسل ہوس کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، درندوں کو قانون کا ڈر ہے اور نہ ہی کوئی انسانیت ان میں ہے۔ اور واقعات تاریخ کا حصہ بنتے گئے۔ حکومت کے خواتین کے حقوق اور تحفظ فراہم کرنے دعووں کے باوجود گزشتہ تین سال خواتین پر بھاری رہے۔ مختلف واقعات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے 4706 واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں پنجاب میں 1873 سب پہلے نمبر پر اور بلوچستان میں 112 واقعات ہوئے جو سب کم تعداد میں ہیں۔یہ وہ واقعات ہیں جو انسانی حقوق ڈویژن کے علم میں آئے ہیں جبکہ رجسٹرڈ نہ ہونے والے واقعات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق تین سالوں میں عورتوں پر تشدد کے 7066 اورتیزاب سے جلانے کے 102 واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اسی طرح غیرت کے نام پر 1705 خواتین کو موت کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ ملک بھر میں اجتماعی زیادتی کے 595 واقعات رجسٹرڈ ہوئے ہیں اور غیر رجسٹرڈ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا کہ مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی یہ بات پچاس سال پرانی ہے۔ اب حوا کی بیٹی کو مدد نہیں رحم چاہئے، وہ درندے کو کبھی کسی کوکھ سے جنم اور کسی آغوش میں پرورش پاتے ہیں وہ اسی کی حرمت کے درپے ہیں۔ معاشرہ اگر عورت کی حرمت کا تحفظ نہ کر پایا تو خدا نخواستہ وہ وقت دور نہیں جب ہماری تہذیب خود اپنے ہی خنجر سے خود کشی کرے گی۔
کیونکہ ہم اس معاشرے کی حقیقت سے اتنادور نکل آئے ہیں کہ اب رسوائی اور بربادی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر کچھ سننے بیٹھیں تو اسی معصوم بچی کی چیخیں سنائی دیتی جسے چند روز قبل حوا زادوں نے اپنی بے حیائی کی بھینٹ چڑھا دیا۔جس کا سوگ مناتے ہوئے آج ہماری پلکیں ندامت اور شرمندگی کا بوجھ نہیں اٹھا رہیں، مجھے اپنے وجود سے گھن آرہی ہے کہ میں اس معاشرے میں سانس لے رہا ہوں جس نے ان درندوں کو جنم دیا جن کی رگوں میں لہو کہ جگہ جنسی ہوس دوڑتی ہے۔