ویٹیکن (اصل میڈیا ڈیسک) کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کلیسائے روم میں نابالغ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات کے حوالے سے چند اہم اصلاحات کا اعلان کیا ہے۔
پاپائے روم نے وہ قانون ختم کر دیا ہے، جس کے تحت اب تک نابالغ بچوں سے کی جانے والی جنسی زیادتیوں کے واقعات کی چھان بین کے عمل کو ’کلیسائی طور پر خفیہ‘ رکھا جاتا تھا۔ پوپ فرانسس کے اس فیصلے کے مطابق کلیسائی نمائندوں یا عہدیداروں کی طرف سے جنسی زیادتی کے واقعات کے بارے میں آئندہ مختلف رویہ اپنایا جائے گا۔
ویٹیکن کی جانب سے پاپائے روم کی 83 ویں سالگرہ کے موقع پر نئے قوانین کے دستاویزت جاری کیے گئے۔ ان دستاویزات کے مطابق اب جنسی زیادتی کے واقعات کی اطلاع دینے والوں یا ایسے جرائم کا نشانہ بننے والوں کے لیے خاموش رہنے کی کلیسائی پابندی بھی ختم کر دی گئی ہے۔
ماضی قریب میں متعدد ممالک میں کليسا سے منسلک پادریوں پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مبینہ واقعات سامنے آنے کے بعد عالمی رائے عامہ میں اٹھنے والے سوالات کے نتیجے میں پوپ فرانسس نے نئے اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔ نئے اصلاحات کے ذریعے متاثرہ افراد، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عام کیتھولک افراد کے ساتھ ویٹیکن سے منسلک عہدیداران کی جانب سے ذمہ داری، احتساب اور شفافيت کے حوالے سے تعاون کو یقینی بنانا بھی شامل ہے۔
رواں برس فروری میں روم میں کليسا سے منسلک پادريوں کے ہاتھوں بچوں کے جنسی استحصال کے مسئلے سے نمٹنے کے ليے منعقد ہونے والے اجلاس میں پوپ فرانسس نے کلیسائی شخصیات کی طرف سے ایسے جرائم کو ’بہت شدید نوعیت کے جرائم‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے ان جرائم کی مرتکب کلیسائی شخصیات کو ’خونخوار بھیڑیوں‘ سے تعبیر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایسا کرنے والے ’شیطان کے آلہٴ کار‘ ہیں۔
پاپائے روم کی جانب سے جنسی زیادتیوں کی تفتیش خفیہ نہ رکھے جانے کا فیصلہ کلیسائے روم کی طرف سے ایسے واقعات کو چھپانے کی کوششوں اور طاقت کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ایک اہم اقدام سمجھا جا رہا ہے۔