تحریر: ڈاکٹر محبوب حسین جراح سمجھ نہیں آرہی بات کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں آج جس موضوع پر لکھ رہا ہوں لکھتے ہوئے بڑے دکھ اور غم میں مبتلا ہوں آئے روز ایسے مریض آرہے ہیں جن کے حالات سن کر میں مجبور ہو گیا کہ اس اہم موضوع پر بھی لکھوں اگر کسی قاری کو کوئی بات ناگوار گذرے تو پیشگی معذرت خواہ ہوں اور اگر اچھا لگے تو تجاویز فرما دیں تاکہ آئیندہ کے کالم میں ان کو ہائی لائٹ کرسکوں۔ میں نے جب سے آنکھ کھولی تو اپنے اردگرد دیسی ادویات کی کوٹا کاٹی ہاون دستے کی ٹن ٹن کانوں میں گونجتے دیکھی جب میرے دادا حضوراوروالد صاحب دوا سازی اور مریضوں کا علاج معالجہ مفت کرتے تھے دادا حضور تو میرے بچپن میں ہی دنیا سے رحلت فرما گئے تھے۔
البتہ والد صاحب کے ساتھ کافی وقت گذرا جن کا پچھلے سال نومبر میں انتقال ہو گیا تھا (اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین) اس وقت میں دیکھتا تھا کہ والد صاحب مریض کی تشخیص کرتے ہوئے سختی سے غذا پر توجہ دیتے تھے کہ ان چیزوں سے پرہیز کرنی ہے اور یہ چیز کھا نی ہے اللہ کے کرم سے مریض ہدیات کے مطابق علاج کرواتے تھے جس سے انہیں اللہ کی طرف سے شفا مل جاتی تھی ۔بے اولادی میرے کالم کا موضوع ہے کیونکہ یہ آج کا اہم مسئلہ ہے جس میں کوئی نا کوئی خاندان، دوست احباب ،رشتہ دار اس نعمت سے محروم ہیں ان کی آنکھیں معصوم بچوں کی شرارتیںدیکھنے کو ترس گئی ہیںجب میںنے ہوش سنبھالا تو دیکھتا کہ اس وقت بھی والد صاحب کے پاس بے اولادی کے کیس آتے تھے ،لیکن دور جدیدمیں ایسے مریضوں میں شدید اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ہرروزایسے مریضوں سے واسطہ پڑتا ہے جو اولاد کی نعمت کے لئے دربدر کی ٹھوکریںکھا رہے ہیں ۔ ٢٠ سال پہلے بے اولاد جوڑے میں صرف مرد کا مادہ حیات چیک کرواتے تھے جبکہ خواتین کے اتنے پیچیدہ مسائل نہیں ہوتے تھے اگر ہوتے بھی تھے تو ان کی تشخیص اور علاج مشکل نہیں ہوتا تھا جتنااب علاج معالجے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
Children
آج بڑے افسوس سے میں یہ کالم لکھ رہا ہوں کہ آج جب میں سماج میں دیکھتا ہوں کہ بیٹی کی شادی کر دی لیکن داماد اولاد پیدا کرنے قابل ہی نہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اولاد کے نہ ہونے میں عورت کو قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے اس وجہ سے ہماری بچیوں کو سسرال میں طعنوں کی زد میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں پچھلے دنوں ایک نوجوان لڑکے کو اس کا والد لے کر آیا کہ اس کی ہم نے شادی کرنی ہے بچے کی عمر ٢١ سال ہوگی میں نے جب بچے کے عادات و اطوار دیکھے تو اس کو ہارمونز ٹیسٹ کا مشورہ دیا جب رپورٹس آئیں تو میں انہیں منع کیا کہ اس بچے کی شادی آپ نے نہیں کرنی کیونکہ یہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں لیکن انہوں نے میری بات کو سنی آن سنی کردیا بلکہ انکشاف کیا کہ یہ اس کی دوسری شادی ہے میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ آپ کسی کی بیٹی کے ساتھ ظلم کررہے ہیں لیکن ان کے سر پر بس بچے کی شادی کا بھوت سوار تھا ۔آج کل کی نوجوان نسل اپنے کیرئیر بنانے کے چکر میں شادی کی عمر گذار دیتی ہے اور جب شادی کرلی تو پتہ چلا کہ اولاد والے جراثیم ہی نہیں ۔اگر ہم حضو ر ۖ کی تعلیمات کا جائزہ لیں تو ہمیں بچوں کی جلد شاد ی کر دینے چاہئے کیونکہ اول تو بچوںاور بچیوں کی شادی آسانی سے ہوتی ہی نہیں اوراگر ہو بھی جائے تو پھر ایسی رپورٹس سامنے آتی ہیں تو پھر گھر کیسے آباد ہوں ؟۔
یہ جنسی مسائل آج کے ترقی یافتہ دور میں ہی کیوں زیادہ نظر آرہے ہیں جبکہ میڈیکل کی دنیا میں اتنی ترقی ہو چکی ہے اس مسئلے کی کئی وجوہات ہیں سب سے پہلے ہماری خوراک آج کل جس کو ہم خالص خوراک سمجھ کر کھا رہے کیا وہ واقعی خالص غذا ہے دیسی خوراک تودور کی بات ہمارے دیہاتوں میں بھی خالص خوراک ملنا ناپید ہو گیا ہے چٹ پٹی اور فاسٹ فوڈ،فارمی چکن کا زیادہ استعمال نے ہماری نوجوان نسل کی نشوونما کو بیگاڑ دیا ہے آج بچے سن بلوغت سے بھی پہلے بالغ ہو رہے ہیں وہ مرغی جو سٹیرایڈزاور ہارمونز کی وجہ سے 40دن میں تیار ہوجاتی ہے وہی ہمارے بچے شوق سے کھاتے ہیں ایمیچیوربچے کیسے ملک اور اپنے فیملی کی بھاگ دوڑسنبھالیں گے ۔دوسری وجہ آئی ٹی کی ٹیکنالوجی انٹر نیٹ سمارٹ فونز جنہوں نے ہماری نسل کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،تیسری وجہ دین سے دوری جب ہمارے بچوں کو دین کی تعلیم سے دور رکھا جائے گا ان میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں رہی گی اخلاقیات کی معاشرے میں گراوٹ نے بھی بے اولادی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ایسے آئے روز فیملی سے واسطہ پڑتا رہتا ہے کہ بیٹی کی شادی کی لیکن داماد میں اولاد پیدا کرنے والے جراثیم ہی نہیں ، میاں بیوی کے درمیان ناراضگی نے دونوں خاندان کو سولی پر لٹکایا ہواہے اب یا تو خاوند اپنی بیماری کا علاج کسی مستند ڈاکٹر ،حکیم یا ہومیوپیتھ سے کروائے یا پھر بیوی کو طلاق دے دونوں صورتوں میں خاندانوں کی بدنامی ہے ۔اگر شادی سے پہلے چند سو اپنے میڈیکل چیک آپ پر لگا لئے جاتے تو عدالتوں کے چکروں،بیوی کی ناراضگی کی صورت میں خرچا اور دیگر معاملات سے بچا جا سکتا ہے۔
Treatment
ہونا تو یہ چاہئے کہ ملک میں قانون پاس ہو کہ جس فیملی میں شادی کا عظیم بندھن باندھا جا رہا ہو گورنمنٹ کی طرف مقررکردہ لیبارٹری سے ان کے ٹیسٹ کئے جائیں اگر گڑ بڑہیں تو پھر ان کو پابند کیا جائے کہ وہ مکمل صحت یابی کے بعد شادی کریں۔جب کہ ہمارے پاکستان میں ستم ظریفی ہے کہ صحت کے ایک شعبہ پر سب سے زیادہ خرچ کیا جارہاے وہ بھی مسائل کا شکار ہے وہ بھی ابھی خود کفیل نہیں ہو سکا آئے روز ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالوں نے ڈاکٹرز کی عزت کو ملیا میٹ کر دیایہ ایک ایسے شعبہ کا حال ہے تو قارئین محترم ذرا سوچیں کہ ہمارے ملک میں ایلو پیتھک کے بعد دو شعبے طب اور ہومیوپیتھی ہیں ان کا مستقبل کیا ہوگا؟یہ قدرت کے سہارے پر چل رہی ہیں اور معاشرے میں کسی نہ کسی حد تک اپنا کردار ادا کرنے اور غریب عوام میں صحت یابی کی چھوٹی سی کوشش میں حصہ ڈال رہی ہے افسوس ہمارے معاشرے میں کسی بھی طریقہ علاج کا آپس میں کوئی ریلیشن شپ نہیں ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ملک میں ١٨ کے قریب طریقہ علاج ہیں جو گورنمنٹ کی بھرپور توجہ میں اپنا کام کررہے ہیں اور تمام طریقہ علاج کا آپس میں ریلیشن شپ بہت اعلیٰ ہے۔
یعنی کوئی مریض ایلو پیتھک کے پاس گیا اوروہ سمجھتا ہے کہ اس کا بہترین علاج ہومیوپیتھ کے پاس ھے تو وہ اس کے پاس بھیج دے گا اور اسی طرح کوئی وید، حکیم، سدھا ،ایکوپنکچریسٹ ،ایکوپریشرتھراپسٹ ،میگنیٹو تھراپسٹ ،کلرتھرپسٹ وغیرہ اگر سمجھتا ہے کہ اس کا کسی دوسرے طریقہ علاج میں بہتر رہے گا تو وہ اس کے پاس بھیج دے جبکہ ایسا رواج ہمارے ہاں نہیں ہر کوئی اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر سمجھتا ہے ۔ مقصد میرا یہ کہ کسی بھی طریقہ علاج میں ہمیں خوب سوچ بچار اور مشورہ کرکے اپنا معالج سیلیکٹ کرنا چاہئے افسوس ناک پہلو یہ کہ ہم دو باتوں میں خود ہی سپیشلیسٹ بن جاتے ہیں ایک ڈاکٹر کے معاملے میں اور دوسرا دینی مسئلے میں خودہی مفتی بن جاتے ہیں ۔معذرت خواہ ہوں میں اصل موضوع سے ہٹ گیا ہوں ۔بات ہورہی تھی بے اولاد ی کی تو قارئین محترم آپ سے گذارش ہے کہ اپنے خاندان میں اپنے دوست احباب اور اڑوس پڑوس میں کسی بچے یا بچی کی شادی کا معاملہ چل رہاہے تو ان کو اپنا میڈیکل ٹیسٹ کا مشورہ ضرور دیں اور اگر خدا ناخواستہ کسی میں کوئی مسئلہ آڑے آجائے تو اس کا علاج کسی مستند ڈاکٹر ،حکیم یا ہومیوپیتھ سے کروائے ۔ تاکہ مستقبل کی پریشانی سے بچا جاسکے اور اللہ ان کو اولاد کی نعمت سے نوازسکے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔