تحریر : وقار النساء اللہ تعالی نے سال کے مہینوں میں سے چار مہینہ برگزیدہ فرمائے ان میں سے ایک شعبان ہے جس کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ رسلم کا مہینہ قرار دیا- لہذا شعبان المکرم وہ برگزیدہ مہینہ ہے جس میں بھلائیوں کے تمام دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور برائیاں مٹا دی جاتی ہیں آسمان سے برکات کا نزول ہوتا ہیگناہگار بخشش پاتے ہیں اسی لئے اسے گناہوں کی بحشش کا ذریعہ بننے والا مہینہ یعنی المکفر بھی کہا جاتا ہے۔
برات کے معنی ہیں نجات شب برات یعنی گناہوں سے نجات کی رات – اور گناہوں سے نجات توبہ سے ملتی ہے- اس لئے اس رات کثرت سے توبہ اور استغفار کرنی چاہیے حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ ماہ رجب کی آمد پر حضور پر نور یوں فرمایا کرتے اے اللہ ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکتیں نازل فرما اور رمضان ہمیں نصیب فرما رسول اللہ کو تمام مہینوں میں سے شعبان کے روزے رکھنا زیادہ محبوب تھا اس لئے سنت رسول کی اتباع میں اس ماہ روزے کثرت سے رکھنے چاہییں آپ سے افضل روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا شعبان کے روزے رمضان کی تعظیم وقدر کے لئے ہیں۔
یہی وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں بندوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں -اس لئے اپنی زندگی میں جب یہ مہینہ آئے تو زیادہ عبادت اور نیک اعمال کا اہتمام کیا جائے حضور پر نور پر درودو سلام کثرت سے بھیجا جائے – جو شخص اس مہینہ میں جتنے اعمال صالحہ بجا لاتا ہے عبادات کثرت سے کرتا ہے اور روزہ رکھتا اور صدقات اور خیرات کرتا ہے اسے اتنی اللہ کی رحمت اور مغفرت نصیب ہوتی ہے اس شب کی عبادت اللہ تعالی سے اپنی بخشش طلب کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی ہے – لہذا اس رات کو رو رو کر اپنے رب سے گناہوں کی بخشش اور مغفرت طلب کریں اس رات اللہ کی رحمت اپنے جوبن پر ہوتی ہے اور ہر مانگنے والے کو ملتی ہے بد قسمتی ہے اگر مسلمان اس رات کی رحمتوں کو نہ سمیٹ سکے اور غفلت میں رات گزار دے۔
حضرت اسامہ بن زید نے بیان کیا – کہ میں نے رسول اللہ کو اس ماہ کثرت سے روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ کی خدمت اقدس میں عرض کیا رسول اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل اور سست ہیں رجب اور رمضان کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کے حضورلائے جاتے ہیں میں چاہتا ہوں کہ کہ میرے اعمال اس حال میں اٹھائے جائیں کہ میں روزہ سے ہوں۔
حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ حضور صلعم نے ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے اے عائشہ تمہیں معلوم ہے کہ شعبان کی پندرہویں رات کیا ہوتا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا یا رسرل اللہ کیا ہوتا ہے ؟
آپ نے فرمایا اس رات سال میں جتنے بھی لوگ پیدا ہونے والے ہوتے ہیں سب کے نام لکھ دئیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ فوت ہونے والے ہیں ان سب کے نام بھی لکھ دئیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کے (سارے سال کے )اعمال اٹھا لئے جاتے ہیں اور اسی رات لوگوں کی روزی مقرر کی جاتی ہے امام بہیقی شعب الایمان مین حضرت عائشہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جبریل میرے پاس آئے اور مجھے کہا یہ رات پندرہویں شعبان کی رات ہے اس رات اللہ تعالی قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم کی آگ سے نجات عطا فرماتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالی اس رات سورج غروب ہوتے ہی آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور فرماتا ہے کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں-کیا کوئی رزق طلب کرنے والا نہیں کہ اس کو رزق عطا کروں ؟ کیا کوئی مبتلائے مصیبت نہیں کہ اس کو عافیت عطا کروں ؟ – ساری رات اسی طرح ارشاد ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں سچے دل سے حاضر ہو کر توبہ کے خواستگار کے لئے رب کی مغفرت اور رحمت کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں اللہ کے نبی نے فرمایا سچے دل سے توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں اس کریم اور مہربان کا کتنا احسان ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اپنے گناہ دھونے کا موقع دیتا ہے وہ رب اپنی مخلوق سے ستر ماں سے زیادہ پیار کرتا ہے اس لئے ہمیں برے انجام سے بچانے کے لئے اپنی مغفرت اور بخشش کو عام کرتے ہوئے توبہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور توبہ کرنے والوں کو وہ ایسے معاف کرے گا گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں بلکہ اس کو درجہ محبوبیت میں رکھے گا۔
یہ رات ایسی نہیں کہ اس کو آتش بازی اور کھیل کود میں گزار دیا جائے بلکہ یہ رحمتیں سمیٹنے اور بخشش طلب کرنے کی رات ہے اس لئے اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں سے شرمندہ ہوکر ندامت کے آنسو بہائیں اپنی خالی جھولیاں اس کے حضور پھیلائیں اور سچے دل سے تائب ہوں- کیونکہ وہ رحمان اور رحیم ہے وہ کریم ہے اس کی ذات ہی بخشنے والی ہے- آئیں سب اپنی غلطیوں کوتاہیوں پر شرمسار ہو کر ندامت کے آنسو بہائیں- اور ان خزانوں سے اپنی جھولیاں بھر لیں۔