شب برات منانے کا منفرد انداز

Fire Work

Fire Work

تحریر : حفیظ خٹک
شہر قائد کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس شہر کے باسی ہر طرح کی رسم کو دھوم دھام سے گرم جوشی کے ساتھ منفرد اندازمیں مناتے ہیں۔ وہ نئے سال کی آمد ہو یا بانی پاکستان کی تاریخ پیدائش، جو کہ عیسائی برادری کا بھی نہایت اہمیت کا دن ہوتا ہے۔یوم آزادی ہو ، یا عید الضحی ہو یا عید الفطر ، رمضان کی آمد ہو یا شب برائت و شب معراج، ہندووں برادی کی ہولی ہو یا بسنت کا دورانیہ، خوشی کا موقع ہے یا پھر دکھ کا لمحہ۔ کرکٹ ٹیم کی جیت ہو یا کسی بھی اور کھیل میں قومی ٹیم کی کامیابی۔ تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع عام ہو یا کسی اور سیاسی جماعت کا وہ حکومت کی جماعت ہویا حزب اختلاف کی کسی بھی سطح کی جماعت کا جلسہ، دستیاب پارکوں میں صبح کی چہل قدمی ہو یا پھر انہی پارکوں میں شام کی رونقیں۔ اس شہر قائد کے باسی ہر ایسے موقع کو ہاتھ سے خالی نہیں جانے دیتے بلکہ بھرپور انداز میں اپنے ہاتھوں کو رنگوں سے ، پھولوں سے، منہ میں پان پراگوں و پانوں سے اور جیبوں کو پیسوں سے ، چاہے وہ پیسے آنے والے ہوں یا پھر عملی شرکت کے ذریعے خرچ کرنے کے معاملے ہوں ، شہر ی ہر طرح سے اپنی کارکردگیوں کے سبب اپنے منفرد ہونے کا اظہار کرتے ہیںاور کرتے چلے جاتے ہیں۔

شب برائت مذہبی جوش و جذبے اور اطمینان قلب کے ساتھ گذر گئی، عوام نے جس انداز میں مساجد ، بڑے اجتماع گاہوں ، قبرستانوں، کے ساتھ انفرادی طور پر اپنے گھروں میں اس شب کو گذار اوہ انفرادیت کے ساتھ پرجوش کے ان الفاظ کو عملی طور رپر پورا کرتا ہے۔ عبادتیں ہوئیں ، ذکر و اذکار ہوئے ، شب کی افادیت بیان ہوئیں، انفرادی و اجتماعی طور پر خصوصی عبادات کے ساتھ دعائوں کا اہتمام ہوا۔ اپنے لئے اپنے ملک کیلئے ، امت مسلمہ کے ساتھ مرحومین کیلئے خصوصی دعائوں کیں گئیں۔ شہریوں کا یہ سب ایک مثبت عمل تھا ۔ ملک کی موجودہ صورتحال سمیت امت مسلمہ اور دنیا کے دیگر ممالک کی صورتحال کو مدنظر رکھا جائے اور اسی تناظر میں صدق دل سے اللہ کی جانب رجوع کیا جانا احسن اقدام ہے۔ بے شک وہی ذات عظیم ،رحمن بھی ہے اور رحیم بھی۔دعائوں کا قبول کرنے والا وہی ہے۔ اللہ ہی سے یہ دعا ہے کہ وہ شہر قائد سمیت پورے ملک میں مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائے ، جہاں بھی مسلمان مظالم کا شکار ہیں انہیں ان مظالم سے نجات دئے ، امین

اس کے ساتھ یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ گذشتہ چند دنون کے دوران شہر قائد میں جس انداز میں شب برائت کی تیاریاں پٹاخے ، پھوڑیاں ، اور ان ہی جیسی دیگر اشیاء کو فروخت اور ان کے استعمال کو عام کر کے جو بے اطمینانی ، بے سکونی ، تکلیف و درد دیگر انسانوں کو پہنچا یا ، خاص طور شب برائت کی شب میں شاہراہوں ، پر چورنگیوں پر ، رہائشی کالونیوں میں ، اپارٹمنٹس میں غرض ہر جگہ جس انداز میں ماحول کو خراب کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ، دعائوں میں یہ بھی دعا کرتے ہیں اللہ رب العزت انہیں ہدایت نصیب فرمائے ، انہیں معاف فرمائے اور آئندہ انہیں ایسے شیطانی کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔امین

Shab e Barat Fire Work

Shab e Barat Fire Work

شب برائت کے موقع پر اس نقطے کے حوالے سے شہر قائد کے مخصوص جگہوں کا دورہ کیا گیا اور پٹاخوں ، منی بموں ، ہلکے دھماکوں کی اگربتیوں و دیگر اسی طرز کی اشیاء فروخت کرنے والوں ، ان اشیاء کا استعمال کرنے والوں اور ان سے تکلیف زد ہ ہونے والے عوام سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروںکے اہلکاروں سے جمع ہونے والی گفتگو کا خلاصہ یہی ہے کہ جو ہورہا ہے ، وہ غلط تو ہے لیکن اس کو روکنے کیلئے کچھ کرنا ، کوئی عملی اقدامات اٹھانا مناسب نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا یہ کہنا بھی قابل اعتراض ہے کہ شہر کی مجموعی صورتحال تو پرامن ہے اور اس امن کی صورتحال میں عوام اور انہی عوام کے بچے تفریح کیلئے اگر اس طرح کے اقدامات کریں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ تاہم ان ہی پولیس اہلکاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب کسی جانب سے ہمیں عوامی شکایت موصول ہوتی ہے تو ہم فوری کاروائی کرتے ہیں اور اس مقام پر پہنچ کر عوام کو ان وقتی و تفریحی دھماکوں سے نجات دلادیتے ہیں۔

انسپکٹر نے اپنے نام کو پوشیدہ رکھنے کی درخواست کے ساتھ بتایا کہ عوام کی جانب سے کوئی بھی تحریری شکایت تو دور کی بات ہے فون پر بھی شکایت کم ہی آتی ہے جس کے سبب ہم اپنے جوانوں کو مذکورہ علاقے میں بھیجتے ہیں ہمارے جوانوں کے وہاں جاتے ساتھ ہی یہ پٹاخے و منی بم دھماکے کرنے والے وہاں سے بھاگ جاتے ہیں ۔ فوری طور پر اس علاقے میں سکون ہوجاتا ہے۔ تاہم وہ سکون دیرپا نہیں ہوتا قریب ہی کسی اور جگہ سے ویسے ہی دھماکوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔

مستنصر خان نے جو کہ انہی اشیاء کا اسٹال لگائے مصروف عمل تھے ان کا کہنا تھا کہ شہر میں کیا پورے ملک میں پہلے ہی مہنگائی ہے اب اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں کچھ اضافی کام کرنا پڑتا ہے اسی مقصد کیلئے یہ چیزیں بیچ رہے ہیں ۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس کے استعمال کے باعث زور دار دھماکے ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات تو بچے زخمی تک ہوجاتے ہیں ۔باقر حسین نے اسی حوالے سے کہا کہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ بچو ں کو ان اشیاء کی فروخت نہ ہوتاہم بڑے کم ہی اس جانب آتے ہیں ، وہ بڑے اپنے بچوں کو یہ سب پٹاخے خریدنے کیلئے پیسے دیدتے ہیں جس کے بعد یہ بچے آتے ہیں اور پٹاخے خرید کر لیجاتے ہیں۔

Police

Police

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت چاہے تو اس طرح کے کاموں کو پولیس کے ذریعے روک سکتی ہے۔ معراج نے کہا کہ ہمارے محلے میں برسوں سے یہ ہوتا آرہاہے کہ پورے پلازے میں چند اپارٹمنٹس والے اپنے گھروں میں ان اشیاء کا اسٹال لگالیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی کمائی اس اندازمیں بڑھ جاتی ہے کہ انہیں اپنے بچوں کو پلازے سے باہر نہیں بھیجنا پڑتا ہے۔ محلے والے ہی ان سے بڑی مقدار میں یہ اشیاء لے کر انہیں پھوڑتے ہیں اور ان خاندانوں کا کاروبار چلتا ہے۔ امام مسجد نے کہا کہ نماز جمعہ سے قبل اردو کے خطبے میں ، اس حوالے سے عوام کو بتایا کہ یہ کس قدر غلط اقدام ہیں ۔ ہمارے دین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی اس کی اجازت ہے لیکن اس کے باوجود بھی باتوں پر کوئی عمل نہیں ہوا اور جمعے کی نماز سے لیکر شب برائت کے اختتام تک دھماکوں کایہ سلسلہ جاری ہے۔

پلازے کی یونین ، دکانوں و مارکیٹوں کی یونین کے عہدیداران سے ہونے والی گفتگو میں بھی یہی بات سامنے آئی کہہ یہ اقدام نہایت ہی سنگین ہے جس کے صرف نقصانات ہی نتائج ہیں۔ کام حکومت کا ہے کہ وہ ایسے غلط کاموں کو روکنے کیلئے اقدامات کریں۔ جرائم پیشہ افراد کو روکنے انہیں پکڑنے کیلئے شہر قائد میں آپریشن جار ی ہے جس کے باعث شہری سکون کی زندگی گذار رہے ہیں ، اس حوالے سے بھی آپریشن ہونا چاہئے۔

سیاسی جماعت کے معزز رکن نے کہا کہ حکومت کے سربراہ کو پنامہ لیکس سے جان بچانی ہے اسی مقصد کیلئے وہ اس وقت مخص پیپلز پارٹی کے سربراہ سے ملاقات کیلئے اپنے ساتھ ایک اور مذہبی جماعت کے امیر کو لے کر لند ن چلا گیا اسے شہر قائد کے اس مسئلے کی کوئی فکر نہیں ۔ نہ اسے ہے اور نہ ہی اس صوبے کے گورنر و وزیر اعلی کو ۔ ان کے محلات جس جگہ قائم ہیں وہاں تو ان پٹاخوں و دھماکوں کی آوازیں تک نہیں جاتیں ایسی صورتحال میں وہ کیونکر عوامی مفاد کیلئے اقدامات کریں گے۔

Shab e Barat

Shab e Barat

قبرستان سے آنے والے محمد رند نے کہا کہ قبرستان کے باہر بھی بے پناہ رش تھا ایک جانب پھول بیچنے والے تھے تو دوسری جانب اور چادریں ، اگربتیاں بیچنے والے ، انہی میں یہ پٹاخے فروخت کرنے والے بھی تھے اور قریب کے علاقوں میں ان پٹاخوں کاعملی استعمال ہو رہاتھا ۔ چند لمحے بھی قبرستان میں سکون کے میسر نہیں آئے ۔ گئے تھے اپنے پیاروں کی قبروںپر دعا کیلئے لیکن صورتحال دیکھ کر وہاں سے جلد واپس آنا پڑا۔ بچوں کا پٹاخے پھوڑنے اور دھماکے کرنے کا انداز نرالہ تھا ان سے بات کرنے کی اور وجوہات جاننے کی کوشش کی لیکن کم ہی بچے اس موضوع پر بات کرنے کیلئے تیار ہوئے۔ ان بچوں کا یہ کہنا تھا کہ ہم یہ سب اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں مزا آتا ہے۔

ان دنوں میں تو ہم بس یہی کھیلتے ہیں اور کوئی کھیل نہیں کھیلتے ۔ بڑے اگر منع کرتے ہیں تو کچھ دیر کیلئے منع ہوجاتے ہیں لیکن اس کے بعد پھر دھماکے کرنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ شب برائت کو اس منفرد انداز میں منائے جانے کایہ انداز قابل مذمت ہے اس ضمن میں آئندہ کیلئے ان پٹاخوں و دیگر اشیاء کو شہر قائد میں فروخت سے روکنے اور اس طرز میں استعمال کوروکنے کیلئے صوبائی و مرکزی حکومت کو ترجیحی بنیادوں میں اقدامات سرانجام دیں چاہئیں۔

Rehman Malik

Rehman Malik

ماضی میں سابق وزیر داخلہ رخمن ملک نے ایک ڈینگی مچھر پکڑنے پرشہر قائد کے ایک بچے کو انعام و اکرام سے نوازا تھا ،اس کے ساتھ ہی انہوں نے یوم آزادی کے موقع پر مزار قائد ہی میں ایک بچے سے کھلونا نما بندوق لے کر اسے اس طرح کے کھلونوں سے دور رہنے کی بات کی تھی اور اس بچے کو عیدی بھی دی تھی ۔ جب ماضی میں وفاقی وزراء اس طرح کے اقدامات کرسکتے ہیں تو صوبائی و مرکزی حکومتوں کو بھی ایسے مثبت اقدامات میں وقت کو ضائع کئے بغیر عوام کیلئے ایسے اقدامات جلد کرنے چاہئیں۔

تحریر : حفیظ خٹک
hafikht@gmail.com