تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری ماہ شعبان کی پندرہویں رات کو شب برأت کہا جاتا ہے شب کے معنی ہیں رات اور برأت کے معنی بری ہونے اور قطع تعلق کرنے کے ہیں، چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لئے اس رات کوشب برأت کہتے ہیں، اس رات کولیلتہ المبارکہ یعنی برکتوں والی رات لیلتہ الصک یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلتہ الرحمتہ رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہاجاتا ہے۔ (لطائف المعارف/ 145) اور جس طرح مسلمانوں کے لئے زمین میں دوعیدیں ہیں اسی طرح فرشتوں کے لئے آسمان میں دو عیدیں ہیں ایک شب برأت اور دوسری شب قدر جس طرح مومنوں کی عیدیں عیدالفطر اور عیدالاضحی ہیں فرشتوں کی عیدیں رات کو اس لئے ہیں کہ وہ رات کوسوتے نہیں جب کہ آدمی سوتے ہیں اس لئے ان کی عیدیں دن کو ہیں (غنیتہ الطالبین) شب برأت کے متعلق سیدہ عائشہ کی روایت : سیدہ عائشہ صدیقہ کی روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک رات رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ کی باری کے موقع پر ان کے حجرے میں آرام فرماتھے ، ام المومنین فرماتی ہیں کہ رات کے کسی حصہ میں میری آنکھ کھلی تو حضور ۖکو موجود نہ پایا، تو گھبراکر آپ ۖ کی تلاش میں نکلی اور ازواجِ مطہرات کے حجروں میں تلاش کرتی ہوئی مدینہ طیبہ کے قبرستان (جنت البقیع) میں پہنچی،جو قریب ہی ہے ، دیکھا تو حضور ۖ اپنی امت کی بخشش کے لیے دعا مانگ رہے تھے ،فراغت کے بعدآپ ۖ نے پوچھا: عائشہ! جانتی بھی ہو آج کونسی رات ہے ؟ فرمایا کہ پندرہویں شعبان (شب برأت ہے )جس میں ربِ کریم قبیلۂ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ گنہگار (مسلمانوں) کی مغفرت فرماتے ہیں، اس قبیلہ میں بکریوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اس لیے آپ ۖ نے مثالاً بیان کر کے فرمایاکہ یہ وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے فیوض و برکات، انوارات و تجلیات، انعامات ونوازشات اور مغفرت و رحمت طلب کرنے کاہے ، اس لیے میں نے چاہا کہ ایسے مبارک اور مقدس وقت میں اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہو کر امت کے گنہگاروں کے لیے بخشش کی دعائیں مانگوں۔
شب ِبرأت کی خصوصیت : اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے بعد حضرت محمدۖ کی دعائوں سے اس رات کی فضیلت میںگویا چار چاند لگ گئے اور عام راتوں کے مقابلہ میں اس کی قدرو عظمت اور منزلت و خصوصیت اور بڑھ گئی، چنانچہ علماء نے کتاب و سنت کی روشنی میں اجمالی طو رپر اس کی دو خصوصیتیں بیان فرمائی ہیں: (١)اللہ تعالیٰ کے (خصوصی)فیصلے کی رات۔ (٢) اللہ تعالیٰ کے (خصوصی)فضل کی رات۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے خصوصی فیصلوں کی بات ہے تو اس سلسلہ میںسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شب برأت میں اہم ترین امور کے فیصلے جو علم الٰہی اور تقدیر الٰہی میں پہلے ہی سے طے شدہ تھے ان کی تنفیذ جن فرشتوں کے واسطہ سے ہوتی ہے(حضرت جبرئیل، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل علیہم السلام) اس رات میں خدائی بجیٹ ان کے سپرد کیا جاتا ہے ، مثلاًکون کون اس سال میں پیدا ہوںگے ؟ کون کون مریں گے ؟ کون اچھے عمل کریں گے اور کون برے عمل کریں گے ؟ کن کو کس قدر رزق دیا جائے گا ؟وغیرہ۔(مشکوٰة/ص:٥١١)
شب ِبرأت میں اللہ تعالیٰ کی پکار :اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ شب برأت میںبھی شب قدر کی طرح شروع سے اخیر تک ربِ کریم کی خصوصی رحمت نازل ہوتی ہے ، چنانچہ ابن ماجہ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(حدیث قدسی)اس حدیث قدسی میں فرمایا:جب شب برأت ہو تو بہتریہی ہے کہ تم اس کی رات میں قیام (یعنی عبادت) کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو کیوںکہ اس رات میں غروبِ آفتاب ہی سے (یعنی عام راتوں کی طرح آخر ِرات میں نہیں بلکہ شروع رات میں) حق تعالیٰ آسمانِ دنیا پراپنی رحمت کا نزول فرماتے ہیںاوربار بار یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا ؟کہ میں اس کی مغفرت کردوں ،اور ہے کوئی رزق کا طلب گار؟ کہ میں اسے رزق دوں، اور ہے کوئی مبتلائے مصیبت ؟کہ میں اسے عافیت دوں، اور ہے کوئی ایسا اور ویسا …یہ آواز صبح تک آتی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس رات میں شروع ہی سے ربِ کریم اپنی رحمت کو عام فرما کر آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں، اور گویا اس کی رحمت گنہگاروں کے دروازوں پرآکر دستک دیتی ہے کہ گنہگارو! آؤ میری رحمت تمہاری منتظر ہے ، کیا چاہتے ہو؟ آج تمہاری ہر جائز مراد پوری کی جائے گی۔
تمہارا رب تمہیں دینے کے لیے آج شروع ہی سے بلاتاہے او روعدہ کرتاہے کہ مجھ سے مانگنے والوںکو سب کچھ دیا جائے گا اور کچھ نہیں لیا جائے گا ۔میرے بندو ! آؤ جلدی کرو میرے دربار کی طرف دوڑ لگاؤ۔ فَفِرُّوْا اِلٰی اللّٰہِ پر عمل کرو،آج تمہارا روٹھا ہوا مولیٰ تم سے راضی ہونا چاہتا ہے ۔ اب جو بندہ شرمندہ ہو کر سر جھکا کر آنسو بہا کر ہاتھ اٹھا کر آئے گا تو مجھے غضب ناک نہیں، مہر بان پائے گا، وہ میری طرف ایک ہاتھ متوجہ ہوگاتومیری رحمت اس کی طرف دو ہاتھ متوجہ ہوگی، وہ چل کر آئے گاتو میری رحمت دوڑ کر اس کا استقبال کرے گی، خواہ وہ کوئی ہو،میں معافی مانگنے والوں کو محروم نہیں کرتا ، بلکہ میں تو معمولی بہانوں سے بھی معاف کر دیتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کی مغفرت کاایک عجیب واقعہ : چنانچہ اس کی عنایت اورمغفرت کاایک عجیب واقعہ منقول ہے ، حضرت عبد الوہاب ثقفی فرماتے ہیں کہ میںنے ایک جنازہ دیکھا جس کو تین مرد اور ایک عورت نے اٹھایا تھا، میںنے فوراً عورت کی جگہ لے لی، او رجنازہ کو قبرستان پہنچا کر دفن کردیا، بعدمیںاس عورت سے (پس پردہ) معاملہ دریافت کیا، تو اس نے کہاکہ مرحوم میرابیٹا تھا، لیکن یہ مخنث (ہیجڑا) تھا اس لیے پاس پڑوس کے سبھی لوگ اسے نہایت حقیر سمجھتے تھے ، جس کی وجہ سے اس کے مرنے کے بعد بھی کسی نے کفن اورکندھادینا پسند نہ کیا۔شیخ فرماتے ہیں کہ میںنے اس رات خواب میں سفید لباس میںملبوس ایک شخص دیکھا جس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمک رہاتھا، اس نے آکر میرا شکر یہ اداکیا اور کہا: میںوہی ہوں جسے آج تم نے دفن کیا،اللہ تعالیٰ نے میری مغفرت اس لیے فرمادی کہ لوگوں نے مجھے حقیر سمجھ کر چھوڑدیا(کتابوں کی درس گاہ میں/ص:٥٦) حدیث قدسی ہے :بلا شبہ اللہ جل شانہ نے اپنی مخلوق کو پیداکرنے سے پہلے یہ تحریر لکھی دی ہے کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے ۔ یہ تحریر اس کے سامنے عرش پر موجو دہے ، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ اکثر اپنے بندوں کے ساتھ رحمت و عنایت ہی کامعاملہ کرتاہے ، جیساکہ خودبھی ارشاد فرمایا :قَالَ عَذَابِیْ أُصِیْبُ بِہِ مَنْ أَشَآئُ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ(الأعراف)اپناعذاب تو میں اسی پر نازل کرتاہوں جس کو عذاب دینا تقاضائے حکمت ہوتا ہے ، رہی بات میری رحمت کی تو وہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے ۔ دنیامیں تو ہر کسی کو اس سے فائدہ ہوتاہے ۔پھر یہ بھی تو اسی رحمت کاایک حصہ ہے کہ وہ اپنے گناہ گار بندوں کو معاف کرنے کے لیے مواقع اور بہانے عطا کرتا ہے۔
شب برأت میں محروم القسمت : چنانچہ شب برأت اللہ تعالیٰ کی طرف سے گنہگاروں کے لیے ایک مہلت اور بہترین موقع ہے ،اگربندہ اسے غنیمت جان کر سچی توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت گنہگاروں کی منتظررہتی ہے ۔ حدیث میں چند ایسے محروم القسمت لوگوں کا ذکر آتا ہے جن کی اس رات بھی مغفرت نہیں ہوتی ،جب تک وہ سبھی توبہ نہ کر لیں ،ان میں (١)مشرک(٢)کینہ رکھنے والا(٣)قاتل (٤)قطع رحمی کرنے والا(٥)والدین کا نا فرمان(٦)شراب کاعادی(٧)زنا کا عادی(٨)ٹخنوں کے نیچے پاجامہ لٹکانے والا مرد(٩)خود کشی کرنے والا (١٠)غیب کی باتیں بتلانے والا۔ نیز کاہن او رنجومی(الترغیب و الترہیب ) یہ وہ محروم القسمت لوگ ہیں جو شب برأت و شب نجات میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہتے ہیں(العیاذ باللہ)روایتوں پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس رات تمام صغائر تو معاف کر دیے جاتے ہیں، البتہ کبائر کی معافی کے لیے سچی توبہ شرط ہے ۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ کسی کو محض اپنے فضل و کرم سے معاف کر دے تو اور بات ہے۔
شب ِبرأت کے اعمال و احکام : علماء نے فرمایا کہ اس رات میں مطلقاًعبادت کرنا اوردن میں روزہ رکھنا بھی مستحب ہوگا،البتہ سنت یہ ہے کہ ہرماہ کے ایامِ بیض کی طرح شعبان میں بھی اللہ تعالیٰ توفیق دیں تو ١٣،١٤ اور ١٥ تاریخ میں روزہ رکھا جائے ، اس کے علاوہ عبادات کا کوئی مخصوص طریقہ منقول نہیں ہے ،لہٰذاجوعبادت آسان ہو انفرادی طور پر اس کو کرے ، بہتر ہے کہ مغرب کے بعدمسجد میں ہو تواعتکاف کی نیت کرکے صلوٰة الاوابین پڑھے ، اس کے بعد تلاوتِ کلام اللہ اور ذکر کرلے ، تا کہ اُتْلُ مَاأُوْحِیَ…الخ میں جو تلاوت ، نمازاو رذکر کی ترغیب آئی ہے اس پر عمل ہوجائے ، پھر رات بھر جاگ کر عبادت کر سکتے ہوںتو فبہا، ورنہ نمازِ عشاء باجماعت پڑھ کر شروع حصہ میں کچھ آرام کرکے آخری حصہ میں اخیر تک ذکر و اذکار اور دعا و مناجات میں مشغول رہے ، جس کے ذمہ قضا باقی ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے قضا کا اہتمام کرے ، اسی کے ساتھ اس رات اپنے لیے او رمرحوموں کے لیے دعائِ مغفرت کرے ، موقع ہوتو قبرستان جاکر مرحومین کے لیے ایصال ثواب اور دعائِ مغفرت کرے ،اگر چہ اس کا بھی اہتمام و التزام ثابت نہیں، کیوںکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شب برأت میں قبرستان جانا اس رات کی خصوصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ عام معمول کی وجہ سے تھا ،ورنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حضرات صحابۂ کرام بھی ہوتے۔
بہر کیف !شب برأت کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا یہی مطلب ہے کہ شریعت وسنت کے مطابق اس رات کو گذاریں، جہالت و بدعت کے ساتھ نہیں، جیسا کہ جہلاء کے یہاں ہوتا ہے۔
حق تعالیٰ ہمیں اپنی توفیق خاص سے اپنی رحمت و عنایت کے مواقع عطا فرماکر مغفرت و کامل رضا عطا فرمائے (آمین )