تحریر: طارق حسین بٹ چیرمین پیپلز ادبی فورم چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر گرے دونوں صورتوں میں خربوزے نے ہی کاٹا جاناہوتا ہے۔ سعودی عرب اور یمن کی جنگ میں فاتح کوئی بھی ہو نقصان مسلم امہ کا ہی ہونا ہے کیونکہ دونوں جانب مسلم ممالک کھڑے ہیں جو ایک دوسرے پر تلواریں سونت کر ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ان کے باہم دست و گریبان ہونے سے اسلام کو ناقابلِ تلافی ضعف پہنچ رہا ہے اور دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ اسلام انتشار اور باہمی جنگ و جدل کا مذہب ہے لہذا ان کے ہاں ایک خدا،ایک قوم،ایک رسول اور ایک کتاب کا جو پختہ تصور ہے وہ اپنی اہمیت کھوتا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ موجودہ دنیا ان کے وجود سے خطرات میں گر چکی ہے جس کا تدارک کیا جانا ضروری ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب بہار نے پورے مشرقِ وسطی میںبیداری کی ایک لہر پید اکی تھی جس سے کئی طاقتور حکمران تبدیلی کی اس لہر میں خس وخا شاک کی طرح بہہ گئے تھے۔جبر کے ماحول میں میڈیا نے جس طرح عوام کو آزادی اور اظہارِ خیال کے نئے تصور سے لیس کیا اس کا منطقی نتیجہ وہی تھا جس سے مشرقِ وسطی کے عوام ثمر بار ہوئے تھے۔وہ ممالک جہاں پر پہلے ہی جمہوریت یا جمہور ی قدریں ہیں ان کے ہاں تو شائد عرب بہار کی وہ اہمیت نہ ہو لیکن مشرقِ وسطی کے وہ ممالک جہاں پر شہنشائیت اور آمریت نے اپنے پنجے گاڑھے ہوئے تھے اور عوام ان کے آہنی شکنجوں میں تڑپ رہے تھے وہاں پر عرب بہار کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔
آج سے چند سال قبل کسی نے کب سوچا ہو گا کہ مشرقِ وسطی کے کئی مردِ آہن عرب بہار کا شکار ہو کر اقتدار سے بے دخل ہو جائیں گئے؟انٹر نیٹ اور فیس بک نے آزادیوں کی جو نئی دنیا تخلیق کی ہے اس میں شہنشائیتوں کیلئے عرصہِ حیات تنگ سے تنگ تر ہوتا جا رہا ہے جس سے وہ انتہائی پریشان ہیں ۔ انھیں دیر یا بدیر اس دھرتی سے اپنا بستر گول کر کے عوامی حاکمیت کے لئے جگہ چھوڑنی ہے لیکن اس حقیقت وہ ماننے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں ۔ وہ اب بھی عوام کو اپنے جبر کے آہنی پنجوں میں قید رکھناچاہتے ہیں لیکن بدلی ہوئی دنیا کے نوجوان اس جبر کے شکنجے سے آزاد ہو نا چاہتے ہیں ۔ وہ اپنی نئی دنیا بسانا چاہتے ہیں جہاں پر وہ اپنے خیالات و افکار میں آزاد ہوں اور دنیا کی خوبصورتی سے مکمل طور پر متمتع ہو سکیں ۔عرب بہار نئی دنیا میں داخل ہونے کی خوا ہش کا وہ اظہار ہے جس نے کئی تاج اچھالے اورر کئی تاج گرائے۔تیونس سے شروع ہونے والا یہ طوفان چلتے چلتے یمن میں آ کر رکا تو اس کے ہمسائے کو یہ فکر دامن گیر ہو گئی کہ آزادی کی یہ کرنیں اگر یمنی سرحدوں کو عبور کر کے ان کے ملک میں داخل ہو گئیں تو پھر ان کی بنائی ہوئی لنکا کی خیر نہیں لہذا وہ ان کرنوں کو ہر حال یں قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن کرنیں بھی کیا کبھی قتل ہوئی ہیں؟۔
یمن سعودی عرب کا ہمسایہ ہے اور یمن میں بد امنی کا مطلب سعودی عرب میں بد امنی کو دعوت دینا ہے۔ہمسائے کا گھر جل رہا ہو تو سمجھ لو کہ یہ آگ کسی وقت بھی آپ کے اپنے گھرکو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے لہذا سیانے سب سے پہلے ہمسائے کے گھر میں لگی ہوئی آگ کو بجھانے میں لگ جاتے ہیں تا کہ ان کا اپنا گھر آگ سے محفوظ ہو جائے ۔یمن میں عرب بہار کے رنگ اس وقت بڑے نمایاں ہو گئے جب یمنی عوام نے عبداللہ صالح کے ٢٠ سالہ طویل آمرانہ اقتدار کے خلاف بغاوت کر دی۔عبداللہ صالح کے بارے میں سب کو علم ہے کہ وہ کسی زمانے میںوہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو ئے تھے لیکن اس کے بعد انھوں نے آمرانہ اندازِ حکومت اپنا لیا جس سے عوام ان کے خلاف ہوگئے اور ان کی بے دخلی کیلئے ایک تحریک شروع کر دی ۔اس تحریک کے نتیجے میں صالح عبداللہ کو اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا اور یمن کے نائب صدر منصور ہادی کو اقتدار منتقل کرنا پڑا لیکن عوام کا غصہ پھر بھی فرو نہ ہو اکیونکہ وہ اس پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے لہذا صدرِ یمن منصور ہادی کو بھی اقتدار چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔
Houthi Tribes
حکومت مخالف حوثی قبائل نے اپنے لائو لشکر کے ساتھ صناء پر قبضہ کر لیا اور اپنے مخالفین کو چن چن کر ہلاک کرنا شروع کر دیا جس سے پوری دنیا میں خو ف و ہراس کی فضا پیدا ہو گئی۔ حو ثی قبائل کا تعلق شیعہ فرقے سے جوڑا جاتا ہے لہذا ان کے متشدد اندازِ حکوت کو شیعہ اور سنی کی جنگ قرار دے دیا گیا حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔حو ثی قبائل کو شیعہ سنی جنگ کا شاخسانہ نہیں کہا جا سکتا ۔ان کی جنگ در اصل اس کرپٹ نظام کے خلاف ہیں جس سے حکمران اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور اس طرح عوام کا جینا دو بھر کردیتے ہیں ۔اس سے تو اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ ان کا اندازِ حکمرانی پر امن نہیں ہے لیکن اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ ملک پر جاری آمر انہ اطوار نے ہی حوثیوں کو شہ دی تھی اور انھوں نے بزور بازو اقتدار پر قبضہ کر لیاتھا۔اسے حسنِ اتفاق کہہ لیجئے کہ یمن کی سرحدیں سعودی عرب سے ملتی ہیں اور سعودی عرب میں سنیوں کی حکومت ہے ۔اب سعودی حکمرانوں کا حو ثیوں کی فتح سے تشویش میں مبتلا ہونابالکل فطری تھا کیونکہ حوثی شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان دونوں فرقوں میں جنگ و جدل کی جو صورتِ حال ہے اس سے دنیا بخوبی آگا ہ ہے۔شام،عراق اور لیبیا میں ان دونوں فرقوں کے درمیان جو کچھ ہو رہا ہے اس نے پوری دنیا کا من و امان تہہ و بالا کر رکھا ہوا ہے۔شام میں بشار الاسد علوی(شیعہ فرقے) سے تعلق رکھتے ہیں جن کی حمائت ایران اور حزب ا للہ کر رہے ہیں جبکہ سعودی عرب اور امریکہ بشارالاسد کی حکومت کے مخالفین میں شمار ہوتے ہیں۔اسی طرح کی صور تِ حا ل عراق میں بھی ہے ۔ایران عراق کی شیعہ حکومت کی کھلی حمائت کر رہا ہے جبکہ سعودی عرب اور امریکہ داعش کی پشت پر کھڑے ہیں اور انھیں ہر ممکن امداد بہم پنچا رہے ہیں ۔اسی خانہ جنگی میں القاعدہ سب کی نگاہوں سے اوجھل ہو چکی ہے اور امریکہ نے اس کی جانب سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہی۔
شیعہ اور سنی فرقوں کی حالیہ جنگیں جنگ جو مختلف ممالک میں اپنی اپنی جیت کیلئے برپا کی گئی ہوئی ہیں اسی فروارانہ جنگ کو یمن میں دہرانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اقتدار کی اس چھینا جپٹی میں یمن کے ہمسائے سعودی عرب کو خطرہ تھا کہ حوثی قبائل کسی وقت سعو دی عرب پر حملہ آور ہو کر مقدس مقامات پر قابض ہو سکتے ہیں لہذا اس نے یمنی صدر منصور ہادی کی درخواست پر حوثیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔اکثر عرب ممالک نے سعودی عرب کی حمائت کا اعلان کیا اور ایک مشترکہ فوج بنانے کا وعدہ کر دیا جسے جلد ہی حقیقت کا جامہ پہنا دیا جائیگا جو سعودی دفاع کی خاطر اپنی توانائیاں صرف کر یگا ۔ اس مشترکہ فوج کا پہلا ہد ف حو ثیوں کو اقتدار سے بے دخل کرنا اور منصور ہاد ی کا اقتدار اسے وا پس لوٹانا ہو گا۔مشترکہ فوج کی کامیابی سے مشرقِ وسطی پر جنگ کے جو بادل منڈلا رہے ہیں ان سے نجات مل سکتی ہے ۔کسی زمانے میں صدام حسین بھی کوئت پر حملہ آور ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس پر قبضہ بھی جما لیا تھا۔اس پر امریکہ نے عراقی صدر صدام حسین کو دھمکی دی تھی کہ وہ کوئت صبا خاندان کو واپس لوٹا دے اور اپنی فوجیں کوئت سے نکال لے لیکن صدام حسین نے امریکہ کی دھمکی کو سنجیدہ لینے سے انکار کر دیاتھا۔
اس نے امریکہ کو للکارا کہ اگر اس میں طاقت ہے تو وہ کوئت کو خالی کروا لے۔کوئت عراق کا حصہ ہے اور عراق نے اپنے علاقے پر دوبارہ اپنی حاکمیت قائم کی ہے ۔صدام حسین کی اس جرات پر پاکستان میں اسے ہیرو کا درجہ دیا گیا اور پورے ملک میں اس کی قدِ آدم تصاویر ہر جگہ آویزاں کی گئیں اور جو کوئی بھی اپنی گاڑی پر صدام حسین کی تصویر لگانے سے انکار کرتا اس کی گاڑی ٹوڑ دی جاتی تھی۔امریکہ نے صدام حسین کے انکار کے بعد عراق پر چڑھائی کر دی ۔عراق میں اتنی قوت نہیں تھی کہ وہ امریکہ جیسے ملک کا مقابلہ کر سکتا لہذا امریکی مداخلت پر صدام حسین کو کوئت خالی کرنا پڑا اور یوں ا مریکی دبائوپر صبا خاندان کو کوئت کی واپسی ممکن ہو ئی ۔یہ اپنی نوعیت کاانوکھا واقعہ تھا کہ کسی جارح سے اس طرح مفتوح ملک کو واپس دلوایا گیا ہو ۔یہی امریکی قوت تھی جس کا اب ادراک سب کو ہو چکا ہے لہذا امریکہ کے سامنے کھڑا ہونے کی کوئی بھی حکمران جرات نہیں کر رہا بلکہ جو کچھ امریکہ کہتا ہے اس پر بلا چو ن وچرا اس کی غلامی کا طوق گلے میں سجا لیتا ہے۔یمنی جنگ بھی امریکی سازش کا حصہ ہے ۔امریکہ اس جنگ سے مسلمانوں میں باہمی انتشار کو مزید ہوا دینا چاہتا ہے تا کہ اسرائیل کی بالادستی یقینی ہو جائے اور کوئی اسکی جانب میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔،