تحریر : م ا بٹ ایوان اقتدار کی روز شب کی سرگرمیوں کو اخبارات کے حوالے سے اگاہی ہوئی ۔ اور درمیان سطور بعض معاملات تک رسائی۔ افسوس ہوتا ہے دنیا کدھر جا رہی ہے اور ہم ابھی تک وہیں کھڑے ہیں ۔ دنیا میں الیکشن کے بعد بغیر وقت ضائع کیے ہوئے ۔ ایک طے شدہ فارمولے پر کام شروع ہو جاتا ہے۔ شیڈو حکومت کو من وعن تسلیم کر کے ہر ایک اپنی دی ہوئی ذمہ داری پر پہلے سے ترتیب دئیے ہوئے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیتا ہے۔
شیڈو حکومتیں ہر ایک کی تعلیمی اور صلاحیتی استعداد کو سامنے رکھ کر مشاورت سے تشکیل پاتی ہیں ۔ اور اس پر کسی کو اعتراز بھی نہیں ہوتا ۔ اور جب تک ہر کل پرزہ مناسب اور موزوں جگہ پر نہ ہو تو کار گزاری میں فرق کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں سائے اتنا پیچھا کرتے ہیں کہ دل کی بات کو زبان پر لانے سے بیشمار خطرات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ اور ہر ایک کو اسکی مانگ کے مطابق حصہ دینا پڑتا ہے ۔ اور بسا اوقات ایک ہی عہدہ کو دو تین لوگوں پسند فرما کر آخری حد تک جانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
Criticism
کیا ہمارا خواہشات پر کنٹرول نہیں یا ہمیں اپنی قابلیت کا اندازہ نہیں ؟ جو بھی ہے ایک تماشا سجا دیا جاتا ہے جس پر ہر آدمی اپنے ذہن کے مطابق خیالات کو جوڑ دیتا ہے ۔ ہمارے ہاں اپوزیشن کا کام بھی بنے بنائے کھیل میں روڑے اٹکانا ہے نہ کے کام پر مثبت تنقید اور تجویز کرنا ۔ حکومت سازی میں نفس و نفسی کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ اور ذمہ دار افراد کی پریشانیوں میں اتنا اضافہ کر دیا جاتا ہے کہ اسکی کارکردگی اور امیج متاثر ہونے لگتا ہے ۔ ہمارے ہاں حکومت سازی سے پہلے صدر کے عہدہ کے لئے جو اگاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے ۔ حیران کن ہے ۔ جناب خالد ابراہیم صاحب کی انکاری اور سردار سکندر حیات خان صاحب کا مشاورتی عمل میں عدم شرکت کا بظاہر کوئی نتیجہ نکالنا تو مناسب نہیں ۔ لیکن جس گھر کو آپ اتنی محنت اور جتن سے ترتیب دیتے ہیں اسکو منطقی انجام پر پہنچانے سے پہلے ہی علیہدگی سمجھ سے بالا تر ہے۔
جو بھی ہو بھر پور شرکت اور جزبہ سے معاملات کو حل کرنا ہی بہتر مستقبل کی نشاندھی کرے گا ۔ خالد ابراہیم صاحب کا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کے پیچھے کیا محرکات ہیں ۔ کا کھوج لگانا ضروری ہے ۔ کیا ایک سیٹ والا اپنے وزن کو بڑھانے کے لئے سب کچھ کر رہا ہے یا اتحاد کی مدت ہی اتنی تھی جسکا پہلے کسی کو علم نہیں تھا ۔ سردار صاحب کا بڑوں کا رول مناسب رہے گا کیونکہ انکی صحت اب اسطرح کی مصروفیات کی اجازت نہیں دیتی ۔ اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جہاں آپ اپنے تجربات سے دوسروں کو استوار کرتے ہیں ۔ اور ذاتی عہدوں کی خواہش ہیچ ہو جاتی ہیں ۔ مشتاق منہاس صاحب نے تو سب کو حیران کر دیا ۔ جو شنید تھا انکے رد عمل کو دیکھ کر حقیقت نظر آتی ہے۔
Consultation
مشاورت اور پھر مرکزی وزیر کے عہدہ کو انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اس جگہ رہ کر میں اپنے وؤٹر کی مدد کو نہیں پہنچ سکیں گے ۔ اور اب حکومت میں کسی بڑے عہدہ کے خواہش مند نظر آتے ہیں ۔ اگرانکی منطق کو مان لیا جائے تو باقی ممبران بھی عوام سے وؤٹ لے کر آئے ہیں اور انکو کوئی وزارت بھی نہیں مل رہی تو وہ انکا کام کیسے کریں گے ؟ صحافت میں آپکی زبان چلتی تھی ۔ یہاں آپ نے حکومت کے چلانے میں مدد دینی ہے ۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔
جس عہدہ پر آپکو موزوں سمجھا جائے قبول ہونا چاہیے۔ نہ کہ اعتراضات اور خدشات پیدا کر کے الجھاؤ یا تناؤ پیدا کریں ۔ اپوزیشن کی نظر کو آپ ایوانوں میں بیٹھے نہیں پہنچ سکتے ۔ انکی چالوں ، خیالات اور خواہشات کے پھیلاؤ کا احاطہ کرنا آپ کے بس میں نہیں رہا ۔ انکا گھوڑا بے لگام ہو کر اصطبل کا پابند نہیں رہا ۔ پس وہ کہاں ٹھہرتا ہے ۔ کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ جو بھی وزارتوں کا فیصلہ ہو اور صدارت کے مسند پر جس کو بھی بٹھایا جائے کسی کو اعتراض نہیں ہونا چائیے ۔ جو بھی وہاں پہنچا ہر کام کو بخوبی انجام دے سکتا ہے ۔ فیصلہ سازی کے عمل کو شفاف اور موثر بنائیں ۔ اور سینیر قیادت کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آگے بڑھیں تاکہ عوام کے مسائل کے حل میں پیش رفت نظر آئے نہ کہ اندروں خانہ سازشوں کا شکار ہو کر غیر یقینی کی کیفیت سے عوام کو دوچار کریں ۔ اس سے بڑا مینڈیٹ کوئی نہیں ہو سکتا ۔ عوام نے آپ پر اعتماد کیا اور اب اپنے عمل سے ان کے دل جیتیں اور پریشانیوں کا ازالہ کریں ۔ افراد ہیں غلط یا غلط ہیں تصوراتیا اس معاشرے ہی کو ڈھالا گیا غلط