تحریر : مدثر اسماعیل بھٹی اس امر سے کِس کو انکار ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور پھر موت سے کِس کو رستگاری ہے۔ آدم کے زمین سے اُترنے سے آج تک کتنے ہی انسان ہوں گے کہ جو زمین کی اتھاہ گہرائیوں کی نذر ہو گئے اور دوبارہ واپس نہ آئے۔ اِن میں بڑی بڑی جلیل القدر شخصیات بھی تھیں۔ تبھی تو شاعر نے کہا تھا کہ
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
لیکن بعض اموات ایسی ہوتی ہیں جو قلب و نظر کو ویران اور عقل و دانش کو ایسا حیران کرجاتی ہیں کہ پھر انسان عمر بھر سکتے دماغ و خرد کی بستیاں اجاڑ دکھائی دیتی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ
زندگی وہ تھی جو تیرے ساتھ گئی یہ تو میری حیاتِ ثانی ہے
شفقت رسول ملک کا شمار بھی اُنہی شخصیات میں ہوتا ہے کہ جو گیا تو دوستوں کے حصول کی چاشنی اور دھڑکنیں بھی اپنے ساتھ لے گیا ، شہر کا حسن اُسکے ساتھ چلا گیا، راستوں کی شادابی اور رونق اُس کے ساتھ گئی ۔ اپنے بچوں کے معصوم قہقہے اور قلقاریاں اپنے ساتھ لے گیا ۔ اپنے والدین کے دل کا سکون اور عزیز و اقارب کی آنکھوں سے خوشی کے عکس لے گیا۔ جی ہاں شفقت کیا گیا بقول شاعر
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
شفقت رسول ملک اپنی ذات ایک مکمل انجمن تھا۔ عجب شخص تھا۔ہر پہلو سے حسن و خوبصورتی کا نمونہ۔ شفقت ملک سے یہاں ملاقات کرنے والا شخص چند ہی لمحوں میں یوں محسوس کرنے لگتا جیسے صدیوں سے اُسے جانتا ہو۔۔۔شخصیت کیا تھی —- سحر تھا۔۔۔انکھیں کیا تھیں—- پیار کے پیالے تھے۔۔۔زبان کیا تھی—- موتیوں کی لڑی تھی—- دل کیا تھا —-خلوص کا سرچشمہ تھا۔۔۔ ادا کیا تھی —- کہ سامع یا ملاقاتی کا دِل نکال لاتی تھی۔۔۔ دماغ کیا تھا —- صلاحیتوں کا منبع تھا۔
الغرض شفقت رسول ملک میں قدرت نے اتنی خوبیاں رکھی تھیں کہ کم ہی انسانوں کو نصیب ہوتی ہیں۔ شفقت رسول ملک صحافی تھا، مقرر تھا یا دانشور ! جو لوگ موصوف کو جانتے ہیں یا جن کو اُسکے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کا اتفاق ہوا یا جو لوگ اسکی محبت اور خلوص بھری دوستی کے ہالے میں رہے وہ بخوبی جانتے ہیں مندرجہ بالا تینوں خوبیاں ہی دیگر خوبیوں کے ساتھ شفقت رسول ملک کی شخصیت کا حصہ تھیں۔ شفقت رسول ملک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ تھا ۔ آج جب بھی کہیں چینل کا کیمرہ دیکھتا ہوں ۔ اُس کی یاد ستانے لگتی ہے کیونکہ مجھے شفقت رسول ملک کے ساتھ ایک عرصہ تک صحافتی فرائض کی بجا آوری کا موقع ملا ۔ میں نے ملک شفقت کو اس پہلو سے بھی ایک الگ اور معتبر شخصیت پایا۔جھنگ کے شعبہ صحافت میں چند اعلی تعلیم یافتہ صحافیوں میں شفقت رسول ملک کا نام واضح نظر آتا ہے۔
Journalism
تھوڑی سی عمر میں ہی اس نے اپنے تجربے اور قابلیت سے صحافت کے شعبہ میں وہ مقام بنا لیا تھا جس کی برسوں خواہش کی جاتی رہے گی شایدشفقت رسول ملک کو معلوم تھا کہ عمر اس کے ساتھ وفا نہ کریگی ۔یہ اس کی قابلیت ہی تھی کہ اتنی کم عمری میں ہی استاد کے لفظ سے پکارہ جاتا تھا میرے جیسے متعدد صحافی اپنے مسائل اور مشوروں کیلئے استاد کی راہ دیکھ رہے ہوتے تھے اور ہنستے ہنستے بہت ہی گھمبیر مسائل کا حل نکال دیتا ۔شفقت رسول ملک میرے استاد تھے میری ملاقات بھائی قمر عباس بھٹی نے استاد شفقت رسول ملک سے اس وقت کروائی جب استاد شفقت رسول ملک روزنامہ اوصاف ملتان کے ساتھ کام کرتے تھے میں نے سب سے زیادہ استاد شفقت رسول ملک سے صحافت سیکھی ہے لیکن میرے دوستوں میں شیخ محمد فاروق ،عارف خان،عارف سرفراز،پرویز ہاشمی ،سلیم ہاشمی،شفقت اللہ سیال ،عمران بلوچ،ڈاکٹر طلعت حسین،ملک شوکت علی،اصغر مغل،ایم عرفان چوہدری ،ناصر گجر،آصف علی چوہان ،مبشر نقوی اور وحید احمد ملک کے ساتھ وقت گزرہ ہے لیکن سینئر صحافیوں میں شیخ توصیف حسین ،لیاقت علی شام ،لیاقت علی انجم ،چوہدری وحید اختراور شیخ غلام اکبرکے ساتھ بھی اچھا وقت گزراہے میں نے ایک سال ایک اور نجی ٹی وی چینل بطور کیمرہ مین(لیاقت علی شام کے ساتھ مل کر جھنگ میںکام کیا ہے) ۔لیکن جو مزہ استاد شفقت رسول ملک کے ساتھ کام کرنے کاآیا وہ کسی صحافی کے ساتھ نہیں ۔ لیکن جب میں نے اپنا اخبارشائع کرنا شروع کیا استاد شفقت نے بہت ساتھ دیا شفقت رسول ملک کی شخصیت ملنساری اور عاجزی کی واضح مثال تھی دوستوں میں ایسی بے تکلفی کہ جس کی مثا ل نہیں ملتی۔زندگی میں جیسے بھی حالات گزرے ہر حال میں اس کے چہرے ہر شائستگی اور مسکراہٹ ہی نظر آئی ۔اور خدا وند تعالی کے امعامات پر شکر ادا کیا۔
صحافت کو فرض سمجھ کر سرانجام دیتے اس شخص کو میں نے کبھی جھکتے یا خم کھاتے نہیں دیکھا۔ خبر لی ہے تو پھر چلائی ہے، خبر چلی ہے تو پھر سامنا بھی کیا ہے تو دلیری کے ساتھ ، عزم باالجز م کے ساتھ اپنے موقف پر رہتے ہوئے اپنی ورکنگ کی سچائی پر یقین رکھتے ہوئے کیونکہ ملک شفقت غلط خبر دینا جانتا ہی نہ تھا۔ اگر شفقت زندہ رہتا تو کہکشاں صحافت میں ستارہ بن کر چمکتا اور دُنیا میں مثال بنتی۔
Truth
موت کے بے رحم ہاتھوں نے ملک شفقت کو اُس وقت دبوچا جب وہ عین حالت شباب میں تھا۔ اُس کی صحت ، اُس کی سرگرمی اور اُس کی تگ ودو کو دیکھ کر بھلا کون کہہ سکتا تھا ۔ کہ یہ شخص ہم سے اتنی جلدی جدُا ہوسکتا ہے۔ لیکن ملک شفقت رسول ہم سے جُدا ہوگیا ۔ اور اِس بے بسی سے کہ تمام دوست دیکھتے رہ گئے، ہر آنکھ اشکبار ہو گئی ، عزیزواقارب کی ہچکیاں بندھ گئیں، بچے حسرت و یاس بھری آنکھوں سے باپ کو جنازے کی چارپائی پر کچھ اس بے بسی سے دیکھتے رہ گئے کہ اپنے ننھے ہاتھوں سے الوداع بھی نہ کہہ سکے اور بیوہ وہ قدرت کے اِ س فیصلہ پر ایسی انگشت بدنداں ہوئی کہ شکوہ بھی نہ کر سکی۔
بچھڑے ہوئوں کی یاد میں رہنے دے بے قرار اے چشم اشکبار مُجھے تنہا نہ کر کبھی
آج تک یقین نہیں آتا کہ وہ شخص ہم میں نہیں جس سے ہمارے دلوں کی دھڑکنیں جُڑی تھیں ۔ اُس کی موت ایک افسانہ اور تدفین کا منظر ایک ڈرامہ لگتا ہے۔ آج بھی یوں لگتا ہے کہ ابھی کہیں سے چھم کرکے ہمارا دوست آجائے گا اور ہمیں حسبِ سابق مسکرا کر شرارتی نگاہوں سے دیکھتا ہو کہے گا کہ لو میں آگیا۔ میں نے تو مذاق کیا تھا۔ آج بھی موبائل کی گھنٹی چونکا دیتی ہے کہ شفقت رسول ملک کا فون ہوگا، آج بھی کیمرہ اُٹھا نے سے پہلے یوں لگتا ہے کہ جیسے ابھی فون کی گھنٹی بجے گی اور شفقت ملک کی چاشنی بھری آواز ہوگی اور وہ کہے گا کہ مدثر بھٹی پریس کلب آجائو مل کر کوریج کے لئے چلیں۔
وائے موت! کہ اب تو یہ سب دلاسے ہیں ۔ موت ایک خوفناک حقیقت ہے اور وہی خوفناک حقیقت شفقت ملک کے وجود کو ابدی حقیقت میں تبدیل کرچکی ہے۔ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں کہ شفقت ملک کا انتقال ہوگیا۔لیکن لکھنا پڑرہا ہے انسان کتنا بے بس ہے، کتنا مجبور ہے، کتنا معذور ہے، کس قدر بے اختیار ہے ، کس قدر بے کس ہے ۔ شفقت ملک کی موت نے احساس دِلادیا ۔ شفقت رسول ملک کو آج ہم سے بچھڑے4سال ہوگئے ہیں مگر اس کی محبت اور بڑے بھائیوں کی سی شفقت کو ہم ترس رہے ہیں اس کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے آج بھی گھر دہلیز کی طرف اس آس پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں کہ پا پا ابھی اندر آئیں گے اور ان کے ہاتھ میں ہمارے لئے کھلونے ہونگے شاید ان کو ابھی اس بات کا احساس نہیں کہ جانے والے لوٹ کر واپس نہیں آتے اللہ میرے مرحوم دوست کو کروٹ کروٹ جنت عطاء فرمائے آمین۔
الہی وہ ہستیاں کِس دیس بستیاں ہیں اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں