تحریر: شفقت اللہ خاں سیال آج میں نے سوچا کہ شہر میں جا کر چکر لگا کردیکھوں کہ ہر بندہ کہتا ہے ۔کہ مہنگائی بہت ہے ۔مگر میرے پھرنے پر یہ معلوم ہوا کہ مہنگائی جو حکومت کی طرف سے ہے ۔وہ تو ہے ہی سہی لیکن ہمارے مسلمان دوکانداروں بھائیوں نے جو ان کو حکومت کی طرف سے ریٹ لسٹ ملتی ہے۔ وہ اس سے بھی زیادہ ریٹ وصول کر رہے ہے۔ان ہمارئے مسلمان بھائیوں نے مہنگائی پر مہنگائی کر رکھی ہے ۔ریٹ لسٹ ان دوکاندار حضرات کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ دودھ 60 سے 70 روپے کلو اور دودھ بھی وہ وہ جو گوالے دیہی علاقوں سے گوالے دودھ لا کر اس کو ڈیری کرواتے ہیں ۔اور وہ دودھ جو یہ گوالے دوکانداروں اور گھروں میں یہ دودھ دے کر آتے ہے۔یہ دودھ تو وہ ہی ہے جس میں سے کریم نکل لی جاتی ہے۔
اس کو یہ گوالے ڈیری والے کو دیئے جاتے ہے۔وہ دودھ ہی 60 سے 70 روپے فروخت کر رہے ہے۔یہ دودھ ہمارے بچے پی رہے ہے ۔ان کو اس دودھ سے کیا کوئی طاقت ملے گئی ۔کہ بس وہ صرف پیٹ بھرئے گا۔کیا بات ہے ہمارئے مسلمان بھائیوں کی پیسے خالص دودھ کے لیتے ہے ۔اور دودھ ڈیری والا۔اور ان دودھ والوں نے جو دودھ کی کے ناپ کے لیے پیمانے رکھے ہوتے ہے ۔وہ پیمانے بھی ایک لٹر کا مکمل نہیں ہوتا۔آج تک نہ تو ان لوگوں کے کسی نے پیمانے چیک کیے اور نہ ہی کوئی ان کو یہ پوچھنے والا ہے ۔کہ تم لوگ سرکاری ریٹ لسٹ سے زیادہ پیسے وصول کیوں کرتے ہے۔اور وہ دودھ جو محکمہ ہیلتھ والوں کو چیک کرنا چاہیے ۔مگر یہ تینوں محکمے نمبر ایک ۔پیمانے جات چیک کرنے والے۔نمبردو۔ریٹ لسٹ والے۔
Cheese Makers
نمبر تین محکمہ ہیلتھ جس کو روزانہ سب کا دودھ چیک کرنا چاہئے ۔مگر آج تک وہ کسی جگہ نظر نہیں آتے۔اندھا راجا بے دارنگری۔آج جگہ جگہ دودھ سیل پوائیٹ بنے ہوئے ہے۔آج میلاد چوک جھنگ شہر پر دودھ کے پوائنٹ بنے ہوئے ہے۔موتیا مسجد۔محلہ گادھیاں والہ۔جوڑے کھوہ۔پکہ ریلوئے روڈ نذد پرانی چونگی وغیرہ جگہ جگہ سیل پوائنٹ بنے ہوئے ہے ۔مگر کیا ان کو کوئی ہیلتھ آفیسر ۔ریٹ لسٹ والے یا محکمہ پیمانے جات والے کوئی ان کوچیک کیوں نہیں کرنے جاتا۔آج جو دیہی علاقوں میں یہ لوگ کھویابنا رہے ہے ۔اس کو کبھی کسی نے کسی نے چیک کیا کہ وہ کسے بنایا جاتاہے۔
محکمہ ہیلتھ کے لوگوں نے آنکھوں پر کیوں پٹی باندھ رکھی ہے۔ تقریبا ایک دوماہ قبل منڈی شاہ جیونہ کے علاقہ میں بھی کھویا بننے والی فیکٹری پر صحافیوں نے چھاپا مارا اس کی نیوز چینل پر خبریں بھی چلتی رہی مگر نہ جانے اس کا کیابنا۔ایسے ہی نہ جانے کتنی کھویا بننے والے کٹرہا لگے ہوئے۔ وہ بھی دیہی علاقوں میں جو کھوا بناتے ۔وہ کھوا کیسا ہوتا ہے ۔کیسے بناتے ہے۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے ۔کہ یہ کھویااسلام آباد وغیرہ بھیجا جاتا ہے۔یہ جو کھویابناتے ہیں۔
Department of Health
کیا ان کے پاس اس کی کوئی ہیلتھ رپوٹ بھی ہوتی ہے کے نہیں ۔کیا ان کوکو ئی پوچھنے والا نہیں یا پھرتینوں محکموے خاص کر محکمہ ہیلتھ اور ریٹ لسٹ والے ۔پیمانہ جات والے انہوں نے آنکھوں پر پٹی کیوں باندھ رکھی ہے۔محکمہ ہیلتھ والے دیہی علاقوں میں جاکر ان جگوں پر چھاپے کیوں نہیں مارتے جہاں یہ کھوا بنانے والے کڑاہے لگے ہوئے ہے۔ہاں میں بات کر رہا تھا مہنگائی کی آج کے اس دور میں مہنگائی تو ہے جو سو ہے ۔مگر ہمارئے مسلمان دوکاندارں نے جو ریٹ لسٹ سے بھی زیادہ پیسے وصول کر رہے ہے۔
مثلا سبزیاں ۔گوشت چھوٹا بڑا۔یہ جو بھی روز مرہ کی تمام چیزیں خاص کر وہ دوکاندار جو محلوں اور دیہی علاقوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ریٹ تو یہاں شہر میں بھی زیادہ وصول کررہے ہے۔ان لوگوں کو نہ تو کوئی خدا کا خوف ہے اور نہ ہی یہاں کسی محکمہ کا ۔اور نہ ہی ان کو کوئی پوچھنے والا ہے ۔اندھا راجا بے دار نگری