تحریر : شاہ بانو میر موجودہ حبس زدہ سیاسی ماحول میں تازہ ہوا کا خوشگوار جھونکا اس وقت محسوس ہوا جب کچھ روز قبل شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کی مایہ ناز خواتین میری دعوت پر گھر تشریف لائیں عمدہ سوچ وطن عزیز کیلیئے شور شرابے سے قدرے ہٹ کر پرسکون ماحول میں فلاحی دینی دنیاوی تحریروں سے اصلاحِ معاشرہ میں اپنا بہترین حصہ ڈالتے ہوئے ہمہ وقت کچھ بہتر کرنے کے جذبے سے سرشار یہ روشن دماغ کچھ عرصہ دکھائی نہ دیں تو ایک کمی سی محسوس ہوتی ہے۔
ان کے سادہ چہرے ہنستے مسکراتے انداز گفتگو کو بھی معیار عطا کرتے ہیں۔ اکیڈمی کی ہردلعزیز اور سینئیر رکن محترمہ وقار النسا محترمہ نگہت سہیل محترمہ شازیہ شاہ محترمہ شاز ملک اور نویدہ احمد یہ ذہین چہرے اکیڈمی کی اب حتمی پہچان بن چکے ہیں۔
ظہرانے کا اہتمام تھا الحمدللہ بہت خوبصورت ماحول میں اللہ کی نعمتوں کے شکر کے ساتھ کھانا کھایا گیاکھانے کے بعد نشست ہوئی جس میں ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی اتار چڑہا اور اس سے متاثرہ غریب افراد کیلئیسب کی فکر لہجے سے محسوس ہو رہی تھی۔
وقار جی نے سیاسی حالات کے تناظر میں بہت پیاری نظم لکھی جس کو پڑھ کر دعا نکلی کہ اے میرے پیارے رب اس ملک و قوم کی بھلائی کیلئے یہ تکلیف دہ مرحلہ گو بہت ناگوار ہے مگر اس کو جھِیلنے کی طاقت اس ملک و قوم کو عطا فرما اور اس کے بعد ترقی کی ایسی شاہراہ پے گامزن کر کہ پھر کوئی وہاں سے اس کو واپس موڑ نہ سکے آمین۔
نگہت سہیل صاحبہ نے اپنے گزشتہ ایک سال سے جاری ناول کی بابت بیان کیا کہ گھریلو بے پناہ مصروفیات کی وجہ سے تاحال وہ اپنے اختتام تک نہیں پہنچ پایا شاز ملک نے اپنی نئی کتاب اکیڈمی ممبران کو دکھائی اور بتایا کہ ان کی سی ڈی بھی عنقریب تیار ہو کر آنے والی ہے یاد رہے شاز ملک کی یہ تیسری کتاب ہے اس سے قبل ان کاایک معاشرتی اصلاحی ناول اور ایک شاعری کی کتاب منظر عام پر آ چکی ہے
شازیہ شاہ کا منفرد میگزین میں سیکشن جس کی پزیرائی خواتین کی جانب سے دیکھنے کو ملی مزید کام پر توجہ دے رہی ہیںنویدہ احمد حال ہی میں عمرہ کی سعادت سے فیضیاب ہوئی ہیں اور اکیڈمی ممبران کیلئے قابل قدر تحائف کے ساتھ آئیں در مکنون میگزین پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
14 اگست کو انشااللہ عوام کیلئے مزید کاپیاں فرانس پہنچیں گی در مکنون 3 کی منفرد بات یہ رہی کہ اسے پڑھ کر سفیر پاکستان اور بیگم سفیر پاکستان نے خواتین کے قلم کی صلاحیت کا کھلے دل سے اعتراف کیا اور انہیں سراہا۔
اللہ پاک ہم سب سے اپنے دین اور دنیا ملک کیلیئے خاص طور سے کوئی اعلی درجے کی کوشش کروا لے۔ اس ملک کو آپ کے قلم کے نشتر کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہےوطن عزیز کے حالات پر مایوس نہیں ہونا بلکہ قلم کا جہاد ہمیشہ جاری و ساری رکھنا ہے۔
مختصر سی ملاقات میں جو حرف جس نے ادا کیا وہ شفاف سوچ پر مشتمل آبدار موتی رہا وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا اور سب کے جانے کا وقت ہوا ان سب سے ملاقات کر کے جیسے وہ ذہن کاکونا جو قدرے مضطرب سا تھا یا اداس تھا اسے گویا کہ سکون ملا ان کے جانے کے بعد بھی ان کی پر مغز باتیں اور نگہت سہیل کے گاہے بگاہے چٹکلے ذہن کو جیسے سر سبز و شاداب رکھتے ہیں۔
پیاری خواتین
آپ سب کا آنا جیسے بہار اور جانے کے بعد گویا خوشبو کا مستقل احساس