تحریر: شاہ بانو میر توکل اللہ پر نتیجہ انعامات آج ترجمہ تفسیر میں سورہ المائدہ کی یات مبارکہ سنیں اللہ اکبر ہم لوگ کس قدر احمق اور کمزور نفس کے مالک ہیں ـ اس دنیا کی تباہی اور روز بروز بڑہتی ہوئی بے ضمیری اور بے حسی کا برملا اظہار اللہ پاک کر رہے تھے ان آیات کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ جب انسان اتنا نفسانی طور پے کمزور ہو اور دنیا کو فتح کرنا چاہتا ہو تو وہ کیا کرتا ہے ؟ وہ طاقتور انسان کے سامنے دوزانو ہو کر بھیک مانگتا ہے سودے بازی کرتا ہے ـ اور سستے میں اپنے قیمتی ایمان کو بیچ کر دنیا کے گھاٹے کا سودا کر لیتا ہے ـ
اللہ پاک فرما رہے کہ ان اللہ کے بنائے ہوئے لوگوں کو کمزور لوگ طاقتور سمجھ کر ان سے فائدہ لیتے جو بے شعور یہ تک نہیں جانتے کہ ان کو طاقتور کس ہستی نے بنایا؟ کس نے انہیں مال و اکرام سے نواز کر لوگوں میں بارعب بنایا؟ حضرت عمر فاروق کے دور کی بات ہے کہ اتنا شدید قحط پڑا کہ لوگ بلبلا اٹھے بھوک سے نڈھال لوگوں کو دیکھ کر عمرفاروق نے ہمسایہ ملک کے کافر بادشاہ سے مدد طلب کی اس نے اس زعم میں کہ اسلام کے دعویدار نے مجھ سے مدد طلب کی اس نے خوراک کا اتنا بڑا قافلہ بھیجا کہ دیکھنے والوں نے بتایا کہ قافلے کا ایک اونٹ اگر عمرؓ کے ملک میں تھا تو آخری اونٹ اس بادشاہ کی سرحد پر تھاـ
لیکن ہوا کیا؟ قحط اتنا شدید اللہ پاک نے بھیجا کہ چند ہی دنوں یا ہفتوں میں وہ خوراک ختم ہو گئی اور پھر سے وہی کسمپرسی طاری ہو رہی ـ ایسے میں ایک بدری صحابی خواب میں آپﷺ کو دیکھتے ہیں کہ آپﷺ فرما رہے ہیں کہ یہ عمر کو کیا ہوگیا؟ دوسرے روز وہ صحابی حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپکو خواب سنایا ـ عمرِ فاروق سخت متذبذب ہوئے کہ آخر ایسی کیا خطا مجھ سے سرزد ہوگئی جو آپ ﷺ نے ایسی تنبیہہ میرا نام لے کر کہی ـ
Hazrat Umar Farooq
فوری طور پے مجلس شوری کو طلب کیا اور ان کے سامنے معاملہ رکھ کر درخواست کی کہ خوب اچھی طرح معاملے کا سراغ لگایا جائے ـ طویل بحث تمحیث کے بعد مجلس شوری کے تمام اراکین کا متفقہ فیصلہ تھا کہ کہ عمر فاروق نے اللہ پاک پر بھروسہ کر کے نمازِ استسقی پڑھوا کر بارش کی دعا کرنے کی بجائے عام آسان راستہ تلاش کیا اور ایک کافر ملک کے بادشاہ سے مدد طلب کی ـ یہی بات آپ ﷺ کو انتہائی ناگوار گزری ـ حضرت عمر فاروق نے اسی وقت نمازِ استسقیٰ کا اعلان کروا کر دعا کی ـ
لکھنے والے راوی لکھتے ہیں کہ ایسی بارش کا نزول ہوا کہ بنجر زمین ہری بھری ہو گئی اور قحط کا خاتمہ ہوگیاـ یہ دنیا کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں لیکن اکثر انسان سستی شہرت اپنے احساس محرومی پر مبنی مایوس زندگی کو بڑے طاقتور ملکوں اداروں انسانوں کے آگے گِروی رکھ کر مصنوعی مقام اور نام حاصل کرتے دکھائی دیتے ـ اللہ پاک کو ایسے افراد کبھی پسند نہیں آتے ـ جو اس پر یقین کی بجائے انسانوں کو اپنی کامیابی کا ذریعہ بناتے ـ قرآنی تعلیمات پر مبنی یہ نظام حیات ایک عام انسان کو مومن بنا کر اللہ کے قرب سے نوازتا ہے تب جب وہ تقویٰ یعنی اللہ پاک کی مرضی کی زندگی گزارتا ہے اور وہ ز،ندگی علمِ نافع سے ملتی ہے جو آپ کے ذہن دل پر لگے زنگ کو کھرچ کر بڑی آہستہ رفتار سے اتار کر آپ کو نئی شخصیت نئی سوچ نئے عمل کے ساتھ عطا کرتا ہےـ
مضبوط انسان صرف اللہ کی مدد سے اللہ پر مکمل توکل سے بنتا ہے اور یہی انسان ہے جو دنیا کے پیچھے بھاگتے لوگوں کو بونوں کی مانند اچھل کود کرتے دیکھ کر ان کیلیۓ افسوس کرتا ہے اور دل میں کہتا ہے کاش یہ جان سکیں کہ یہ کس قدر قیمتی زندگی کو کس تیزی سے ضائع کر کے آخرت میں گھاٹے کا سودا کر رہے ـ اللہ کی ذات پر آنکھیں بند کر کے اس سے ہر حاجت پوری کرنے کی ہر دکھ کے درد کی دعا کر کے آزما لیں اس تقویٰ کے سفر میں جو نوازشات جو مقبولیت اور انعامات کا دراز سلسلہ اللہ کی رحمتوں کا شروع ہوتا ہے اس وقت انسان ہر ہر پل صرف ماضی کی جہالت اور لوگوں پر اپنے یقین پر افسردہ ہوتا ہے اور اب شعور کے ساتھ ذہنی سکون گھریلو کامیابی مع اشرتی مثبت کردار کے ساتھ اللہ پاک کا خاص کرم فضل اس کے انعامات کی بھرمار کی صورت عملی نتائج دکھائی دینے پر ہر ہر لمحہ صرف ایک کلمہ مبارک اس کے ہونٹوں پے جاری و ساری رہتا ہے