کچھ عرصہ قبل گمنام شعراء کی حالاتِ زندگی اورفکر وفن پر تحقیق شروع کی تھی اورا س سلسلے میں شائع شدہ مضامین قارئین نے بے حدپسند کئے تھے۔اس دوران مشعلِ اردو کی ترتیب وتدوین اوراشاعت اورپھر کتاب کی فروخت میں ایسے منہمک ہوگئے کہ گمنام شعراء کاسلسلہ بہ امر مجبوری منقطع کرناپڑا۔الحمدللہ مشعلِ اردو کاپہلاایڈیشن چھپ چکا اور ہاتھوں ہاتھ بِک گیاجبکہ مشعلِ اردو (جدید) کامسودہ ابھی برائے نظرثانی اساتذہ ٔ ادب کے ہاتھوں میں ہے اورہمیں فرصت کے لمحات میسرہوئے۔گمنام شعراء کے لئے سماجی ذرائع اِبلاغ پرگاہے گاہے قارئین کی طرف سے دادوتحسین کاسلسلہ جاری رہا۔اس لئے ہم نے اپنے کتب خانے کارخ کیا اورتحقیق کے لئے شاہ نصیر دہلوی کو تختۂ مشق بنایا۔
شاہ نصیر دہلوی اگرچہ اتنے گمنام نہیں ہیں اورادب کے طالب علم انکے نام ، عہد اورفکروفن سے تھوڑی بہت شناسائی رکھتے ہیں مگر نصیر کماحقہ ادب کی دنیا میں اپنی پہچان نہ بناسکے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ اکثرمحققین اورناقدین نے انکی سیرت ، فن اورکارناموں کو درخور اعتنانہ سمجھا اوراکثر انکو محض بہادرشاہ ظفر اورابراہیم ذوق کے استادکی حیثیت سے پہچاناگیایا ادب کے طالب علموں نے نصاب میں موجود دبستانوں اور انکے محدود شعراء کے مطالعہ سے آگے بڑھنے کی زحمت گوارانہ کی۔
شاہ نصیرکی پیدائش سن 1756ء میں دہلی میں ہوئی۔شاہ نصیر کاپورانام محمدنصیرالدین اورمیاں کلّو عرف تھا۔بقول محمدحسین آزاد وہ رنگ کے سیاہ فام تھے ، اس لئے گھرکے لوگ اسے میاں کلّو کہتے تھے۔انکے والد شاہ غریب دہلی کے ایک بزرگ تھے، جنہوں نے اپنے فرزند کو نازونعم سے پالا اورانکی تعلیم وتربیت کے لئے اساتذہ اورادبیوں کی خدمات حاصل کرلیں۔شاہ نصیر کتابی علم میں کچھ زیادہ مہارت حاصل نہ کرسکے البتہ طبیعت موزوں تھی اورشعر وشاعر ی کاایساذوق و شوق پیداہواکہ بہت کم عرصے میں انکی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ جب کسی مشاعرے میں اپناکلام سناتے توبڑے بڑے ذی استعداد اورمشتاق شاعر بے ساختہ داددینے پر مجبورہوجاتے ۔ نصیر شاہ محمدی مائل کے شاگردتھے جنہوں نے مرزرفیع سودا اورخواجہ میر دردسے فیض حاصل کیاتھا ۔ اسی طرح شاہ نصیر کاسلسلہ تلمذ بھی دوواسطوں سے بڑے اساتذہ یعنی سودا اوردرد تک پہنچتاہے۔
شاہ نصیراپنے عہد کے ممتاز شعراء اوردہلی کے ناموراساتذہ میں تھے۔باوجودیکہ ایک خانوادۂ تصوف سے تعلق رکھتے تھے مگر انہیں تصوف سے زیادہ شعر وشاعری میں دلچسپی رہی اورانکی زندگی کازیادہ حصہ شعروسخن اورمعرکہ آرائیو ں میں گزرا۔اس سلسلے میں انہوں نے لکھنؤ ، حیدرآباد اوردوسرے مقامات کے سفربھی کئے۔اُس دور میں شعروشاعر ی میں معنی سے زیادہ صورت اورمعیارسے زیادہ مقدارکی اہمیت تھی ۔یہی وجہ ہے کہ انکی شاعری میں ایک خانقاہ کاباقاعدہ سجادہ نشین ہوتے ہوئے بھی ، تصوف کاعنصربہت کم اوررویتی ہے ۔شاہ نصیر زبان وبیان کے شاعرہیں اوریہی وجہ ہے کہ انکی زبان اپنے ہم عصرشعراء کے مقابلے میں بہت ترقی یافتہ ہے۔نہایت مشکل اورسنگلاخ زمینوں میں شعرکہنا انہیں بہت پسند تھا اوراس فنِ خاص میں انکاجواب نہیں، مشکل قوافی اورلمبی لمبی ردیفوں میں طویل غزلیں کہتے تھے ۔انکی غزلوں میں تشبیہ اوراستعارے کا لطف ،الفاظ کاشکوہ اورلہجے کاطنطنہ موجودہے۔
یہ مجنوں ہے نہیں آہوہے لیلیٰ پہن کر پوستیں نکلاہے گھرسے جنہیں توسینگ سمجھے ہے یہ ہیں خار لگے ہیں پائوں میں نکلے ہے سرسے
شاہ نصیر نہایت زندہ دل اورشگفتہ مزاج آدمی تھے ۔ ان کی خوش پوشاکی اورنفاست طبع مشہورہے ۔ انکے شاگردوں کی تعدادبہت زیادہ تھی ، جن میں ابراہیم ذوق سرفہرست ہے ، جوبعدمیں خود استادذوق کے نام سے مشہورہوئے ۔ دراصل نصیر کی شہرت اورمقبولیت میں انکے عظیم شاگرد ذوق کا بڑاحصہ ہے، مگر استادی اورشاگردی کایہ سلسلہ بہت زیادہ دیرتک چل نہ سکااورجلدی ختم ہوگیا۔ذوق جس جذبے اوراشتیاق کے ساتھ شاہ نصیر کی خدمت میں حاضرہوئے تھے وہ یہاں پورانہ ہوسکا۔محققین نے دونوں عظیم شعراء کے تعلقات خراب ہونے کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔
آبِ حیات میں محمدحسین آزاد نے لکھاہے کہ نصیر اکثرذوق کی غزلوں کو دیکھ کر بغیر اصلاح کے واپس کردیتے تھے اورکہتے تھے کہ طبیعت پر زورڈال کرکہو۔ادھرذوق کو کچھ دوستوں نے مشورہ دیا اورکچھ اپنی غریبی نے یہ آزردگی پیدا کی کہ شاہ صاحب انکی غزلوں کی اصلاح میں بے توجہی یاپہلوتہی برتتے ہیں۔دوسری طرف شاہ صاحب کے صاحبزادے شاہ وجیہہ الدین منیرتھے جواپنے والد کی طرح طبیعت کے بہت تیز تھے اورشعروشاعری میں اپنے والد کے خلف الرشید تھے۔ وہ بھی اپنے علاوہ کسی کو خاطرمیں نہیں لاتے تھے ۔ اتفاقا ًذوق کی ایک غزل میں انکامضمون پایاگیا ،جس سے انہیں بہت رنج ہوا اورتکرار اورمباحثے کاسلسلہ شرو ع ہوا۔شاید اسی وجہ سے شاہ نصیر اورذوق کے تعلقات میں تنائو پیداہواہو۔ مزیدیہ کہ ایک دن ذوق نے سودا کی غزل پر غزل کہی ۔شاہ نصیرکے پاس جب غزل لے گئے توانہوں نے طیش میں آکر غزل پھینک دی اورکہا” استاد کی غزل پر غزل کہتاہے اورمرزا رفیع سے بھی اونچااڑنے لگاہے”۔اس سلسلے میں بقول ڈاکٹرمحمدیعقوب عامرکہتاہے کہ شاہ نصیر میں ذوق کی ترقی ٔ کلام سے رشک پیداہواتھا اوراصلاح سے بے پرواہوگئے تھے جبکہ ذوق کو بوجہ اپنی غربت استاد کی عدم توجہی گراں گزری ۔ مزید شاہ نصیرکے صاحبزادے منیر دہلوی سے مقابلہ کی وجہ سے استادکی طرف سے اوربھی مورد عتاب ٹہرے۔
تنویر احمدعلوی اس اختلا ف کاایک اورسبب بھی بتاتے ہیں کہ شاہ صاحب فرمائشی طبیعت رکھتے تھے اوراکثر شاگردوں سے کسی نہ کسی چیز کی فرمائش کرتے تھے ۔اس وجہ سے بھی شاید ذوق کی طبیعت متاثرہوگئی ہوگی۔بہرحال ذوق اپنی فطری صلاحیتوں کے بل بوتے پر دربارتک پہنچے اورخاقانی ٔ ہند اورملک الشعراء کے خطابات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ انہیں بہادرشاہ ظفر ،محمدحسین آزاد اورداغ دہلوی جیسے شاگردنصیب ہوئے ۔ جنہوں نے ذوقکو فکر ِ معاش سے آزادرکھنے کے ساتھ ساتھ انکی شہرت اورمقبولیت کو چارچاند لگادئے جبکہ شاہ نصیر دہلوی رفتہ رفتہ گوشہ گمنامی میں چلے گئے ۔یہ شاہ نصیر کی بدنصیبی تھی کہ بہادرشاہ ظفرجیسے بادشاہ اورادب پرور اور سخن فہم شخصیت کی استادی نصیب ہوئی، مگرانہوںنے ذوق اورغالبکی طرح مصلحت اندیشی سے کام نہ لیا اورزمانے کے تقاضوں کوسامنے نہ رکھا ۔یہی وجہ ہے کہ اپنی تیزی ٔ طبیعت اورسیروسیاحت کے سبب دربارسے کماحقہ ُ فائدہ حاصل نہ کرسکے اورذوق اورغالب کی طرح شہرت اورمقبولیت سے محروم رہے۔شاہ نصیر سال 1838ء میں حیدرآباد میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے اورقاضی مخدوم موسیٰ کی خانقاہ میں دفن ہوئے۔ انکی زندگی میں انکادیوان مرتب نہیں ہواحالانکہ شعر وشاعری میں بہت بڑااثاثہ اپنے پیچھے چھوڑا ہے۔انکی زیادہ تر شاعری بکھری ہوئی حالت میں پڑی تھی ۔ انکاپہلامجموعہ ”انتخاب ِ کلیاتِ شاہ نصیر” کے عنوان سے 1878ء میں محمداکبرنے میرٹھ میں شائع کیاجبکہ چمنستان سخن کے نام سے ایک شعری مجموعہ بھی موجودہے۔ انکے جملہ کلام کو ڈاکٹرتنویراحمدعلوی نے 1971ء میں’ ‘ کلیات ِ شاہ نصیر” کے نام سے چارجلدوں میں مرتب کرکے مجلس ترقئی ادب لاہور سے شائع کروایا،جس کے پہلے جلدمیں شاہ نصیرکی حیات اورفن پر تفصیلی بحث موجود ہے۔
کعبے سے غرض اس کو نہ بت خانے سے مطلب عاشق جو تراہے نہ ادھرکا نہ ادھر کا