تحریر : محمد شاہد محمود سعودی عرب کے فرماں رواشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے روس کا دورہ کیا جس میں دونوں ممالک میں متعدد معاہدوں پر دستخط ہوئے۔انھیں روسی صدر ولادی میر پوتین نے اس دورے کی دعوت دی تھی۔ماسکو کے ہوائی اڈے پر شاہ سلمان اور ان کے وفد کا شاندار استقبال کیا گیا اور روسی فوج کے ایک چاق چوبند دستے نے انھیں سلامی دی۔ خادم الحرمین الشریفین روسی صدر سے ملاقات میں دو طرفہ تعلقات ، مشرق وسطیٰ کے خطے کی صورت حال اور باہمی دلچسپی کے عالمی امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔ سعودی عرب اور روس ہی نے تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک اور غیر اوپیک ممالک کے درمیان خام تیل کی پیداوار میں کمی سے متعلق سمجھوتا طے کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ان کی کوششوں کی بدولت اوپیک اور غیر اوپیک ممالک نے مارچ 2018ء تک تیل کی پیداوار میں کمی سے اتفاق کیا تھا تاکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کو مزید گرنے سے روکا جاسکے اور ان میں استحکام لایا جا سکے۔
روسی حکومت نے کہا تھا کہ سعودی شاہ کے دورے کے موقع پر ” دو طرفہ تجارت ،توانائی ،زراعت ، اقتصادی اور صنعتی شعبے میں دو طرفہ تعاون بڑھانے سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔اس کے علاوہ انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں پر عمل درآمد کی رفتار کا جائزہ لیا جائے گا۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف کا کہنا ہے کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا ماسکو کا دورہ مشرق وسطی کے خطے میں امن و استحکام کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ دورہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک حقیقی موڑ ثابت ہو گا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ریاض اور ماسکو کے درمیان تعاون ایک یکسر نئی سطح پر منتقل ہو گا۔ لاؤروف کے مطابق مملکت اور روس کے درمیان اعلی ترین سطح پر سیاسی بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا جہاں دونوں جانب تجارتی تعاون اور مشترکہ انسانی روابط کو مضبوط بنانے کے لیے کوششوں کو وسیع کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ سعودی فرماں روا نے جدہ میں کابینہ کے اجلاس کے دوران اس امید کا اظہار کیا کہ ان کے روس کے آئندہ دورے اور ماسکو میں صدر ولادیمر پیوتن اور دیگر روسی عہدے داروں سے بات چیت کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تمام شعبوں میں تعلقات مضبوط ہوں گے اور یہ دورہ مشترکہ مفادات اور بین الاقوامی سطح پر امن اور استحکام کو یقینی بنانے میں کارآمد ہو گا۔سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور روسی صدر ولادی میر پوتین نے ماسکو میں اپنی سربراہ ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔شاہ سلمان نے صدر پوتین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم عالمی استحکام کے لیے روس کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چا ہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے اور ان کے مالی وسائل کی روک تھام کے لیے کوششوں کو مربوط بنانا چاہتا ہے۔انھوں نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک مرکز کے قیام کی ضرورت پر زوردیا ہے۔شاہ سلمان نے کہا کہ ہم تیل کی قیمتوں میں استحکام کے لیے روس کے ساتھ مل جل کر کام جاری رکھیں گے۔سعودی فرماں روا نے فلسطینی عوام کے مصائب کے خاتمے ، ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور خطے کے ملکوں کے داخلی امور میں ایران کی مداخلت کو روکنے کی ضرورت پر زوردیا ہے۔انھوں نے یمن اور شام میں جاری بحرانوں کے سیاسی حل اور عراق کی وحدت کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی زوردیا ہے۔شاہ سلمان نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف سکیورٹی فورسز اور بدھ مت انتہا پسندوں کی ظالمانہ کارروائیوں کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ روہنگیا کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے،دنیا کو اس کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔روسی صدر ولادی میر پوتین نے شاہ سلمان سے ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تاریخی تعلقات کو سراہا ہے۔
انھوں نے کہا:” مجھے امید ہے آپ کے دورے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید تقویت ملے گی”۔شاہ سلمان نے اس موقع پر روسی صدر کو سعودی عرب کے دورے کی دعوت دی ہے تاکہ باہمی مفاد سے متعلق امور پر مشاورت کے عمل کو مکمل کیا جاسکے۔ خادم الحرمین الشریفین کے دورے کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالرز مالیت کے معاہدے طے پائے ہیں۔ان میں دفاعی شعبے میں تعاون کا ایک سمجھوتا بھی شامل ہے جس کے تحت سعودی عرب روس سے اس کا مشہور زمانہ ایس 400 میزائل دفاعی نظام خرید کرے گا۔ اس کے علاوہ روس کے سرکاری سرمایہ کاری فنڈ ( پی آئی ایف) اور سعودی مبادلہ کے درمیان شراکت داری کا ایک سمجھوتا طے پایا ہے۔اس کے تحت انفرااسٹرکچر کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔دونوں ممالک نے ایک ارب ڈالرز مالیت کے مشترکہ سرمایہ کاری فنڈ کے قیام سے بھی اتفاق کیا ہے۔خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کے دورہ روس کے دوران روسی صدر ولادی میر پوتین نے مہمان نوازی کا حق ادا کیا ہے۔ انہوں نے تمام سرکاری پروٹوکول اور صدارتی روایات سے ہٹ کر کریملین صدارتی محل میں شاہ سلمان کو خود اپنے ہاتھ سے چائے پیش کی۔کریملین ہاؤس کی دیگر پیچیدگیوں میں مہمانوں کے ساتھ برتاؤ بھی شامل ہے۔ مگر صدر پوتین نے سرکاری پروٹوکول کو نظرانداز کرتے ہوئے شاہ سلمان کا خصوصی استقبال کیا۔ ایک چھوٹی میز پرشاہ سلمان، صدر پوتین اور ان دونوں کے درمیان ان کا مترجم ہی موجود تھا۔ شاہ سلمان گذشتہ روز روس کے سرکاری دورے پر ماسکو پہنچے تھے جہاں انہوں نے روسی صدر ولادی میر پوتین سمیت ملک کی اعلیٰ قیادت سیملاقات کی۔ دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر کے معاہدوں کی منظوری دی گئی ہے۔روس اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں سنہ 1990ء کے بعد سے گرم جوشی آئی ہے۔ سنہ انیس سو نویکیبعد دونوں ملکوں کی قیادت کے دوروں نے دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کیا ہے۔کریملین محل دنیا کے مشہور صدارتی محلات میں روس کا ‘کریملین محل’ بھی اپنی خاص شہرت رکھتا ہے۔ روسی زبان مین ‘کریملین’ کا قلعہ یا انتہائی محفوظ مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
کریملین محل کئی پرانے اورلکڑری محلات موجود ہیں۔ ایک پرانے محل کو اب میوزیم میں بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔اسی کریملین محل میں روسی صدر نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے ہمراہ آئے وفد کا استقبال کیا۔کریملین محل دارالحکومت ماسکو کے وسط میں تل بورفیٹسکی کے مقام پر واقع ہے۔ محل کے بائیں طرف دریائے موسکوا بہتا ہے۔سابق روسی بادشادہ آنجہانی ایون سوئم نے سنہ 1440ء سے 1505ء کے دوران روس پر حکومت کی۔ اس نے اس محل کی تیاری کے لیے روسی اور اطالوی معماروں کی خدمات حاصل کیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ محل روسی اور اٹلی دونوں تہذیبوں کے فن تعمیر کی ایک یادگار سمجھا جاتا ہے۔خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے پیروکاروں کے درمیان مکالمہ جاری رکھنے کے لیے کام کرنے کی اہمیت کو باور کرایا ہے جس کا مقصد رواداری کے بنیادی اصولوں کو مضبوط کرنا ، غْلو اور شدت پسندی کا انسداد عمل میں لانا اور بین الاقوامی سطح پر امن و سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ سعودی فرماں روا نے یہ بات روسی مسلمانوں کی مرکزی مذہبی انتظامیہ کے سربراہ مفتی اعظم شیخ طلعت تاج الدین سے ملاقات کے دوران کہی۔ روسی مفتی اعظم اور ان کے ساتھیوں نے شاہ سلمان کے تاریخی دورے کے دوران سعودی فرماں روا سے ملاقات پر اپنی گہری مسرّت کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس بات کی بھی خواہش ظاہر کی کہ مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے پیروکاروں کے بیچ اعتدال اور رواداری کو پھیلایا جائے اور ساتھ ہی دہشت گردی اور شدت پسندی کے انسداد کے لیے مل کر کام کیا جائے۔