تحریر: پروفیسر رفعت مظہر پچھلے دنوں گھریلو مصروفیات میںایسا الجھے کہ سر کھجانے تک کی فرصت نہ ملی ۔موسم کی تبدیلی سے پروفیسر مظہر تو باقاعدہ ”بمارشمار” ہوکر بستر کے ہورہے اور تاحال انکا قلم ،کالم سے دورہے ،ویسے بھی وہ ”موڈ” کے بندے ہیںاِس لیے ان کا ”کَکھ” پتہ نہیں ہوتا کہ کب کالم لکھیںگے اورکب نہیں۔ وہ مردم بیزارتو ہرگز نہں لیکن تقریبات میں جانا بھی اُن کے موڈپر ہی منحصر ہوتاہے البتہ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کی طرف سے یوایم ٹی میں پُرتکلف ناشتے کی دعوت ملی توجانے کاپکّا ارادہ کرلیا کہ ناشتے کے ”پائے” بہت اعلیٰ پائے کے ہوتے ہیں اورپروفیسر صاحب ”پایوں” کے کچھ زیادہ ہی شوقین، لیکن بُراہو بخارکا جس نے نہ صرف پروفیسرصاحب بلکہ ہمارابھی ایسا گھیراؤ کیاکہ اُٹھنے کی ہمت تک نہ رہی۔ لوجی ! ہم بھی کیا ذاتی دُکھڑے لے بیٹھے حالانکہ ذاتی زندگی پر تو ہمارے ”رہنمائ” کافرمان ہے کہ کچھ شرم ہوتی ہے۔
کچھ حیاہوتی ہے ،کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں، یہ الگ بات کہ ہمارے ”مُنہ پھَٹ ”تجزیہ نگار پتہ نہیں کہاں کہاںسے مثالیںڈھونڈ کریہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیںکہ دُنیا بھر میں سیاستدانوں کی ذاتی زندگی ذاتی نہیں رہتی اور اقوامِ عالم کا میڈیا کسی رہنماء کی لغزش پرانتہائی بے رحم ہوجاتا ہے۔ دُنیا بھر میں اصول یہی ہے کہ عوامی مفادمیں رہنماؤں کی نجی زندگی کے بارے میںبھی اطلاعات بہم پہنچائی جائیں۔ فرانس کے سابق صدرنکولاس سرکوزی ، امریکہ کے سابق صدربل کلنٹن ،صدرفرانسوامتراں، سابق امریکی صدرکی جان ایف کینیڈی کی بیوہ جیکولین ،روسی صدرپوتن، اٹلی کے سابق وزیرِ اعظم برلسکونے، نیلسن منڈیلا، ہوگوشاویز ،یونانی وزیرِاعظم آندرے ،پایاندریو سمیت بہت سے سربراہانِ مملکت اوروزرائے اعظم ایسے تھے۔
Private Lives
جن کی نجی وذاتی زندگیوں کو میڈیانے اُدھیڑ کے رکھ دیا لیکن کسی نے اُف تک نہ کی۔ اِس کے علاوہ کھلاڑیوں اور سیاستدانوں کی نجی زندگیوں کے بارے میںبھی بہت کچھ لکھاجا چکااور لکھاجا رہاہے۔وجہ یہ کہ اِن لوگوںکا عوام کے جذبات ،احساسات اور مفادات سے براہِ راست تعلق ہوتاہے اوراِن کے کسی اچھے کام کی اگرکھُل کرتعریف کی جاتی ہے توجذبات کوٹھیس پہنچنے پرغُصّے کااظہار بھی اِن کاحق ہے۔ اگرکسی رہنماء کویہ منظورنہیں کہ اُس کا خاندان حرفِ تنقیدہو توپھر اُسے اپنے خاندان کو سیاست سے دورہی رکھناچاہیے ۔میاںبرادران کے خاندان کے کسی فرد کانام کبھی میڈیاپر نہیںآیا سوائے حمزہ شہبازاور محترمہ مریم نوازکے ،جوپاکستانی سیاست میں”اِن” ہیںجبکہ دوسری طرف کپتان صاحب نے ریحام خاںسے شادی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ ریحام خاںبھرپور سیاسی شعوررکھتی ہیں۔
قوم نے اُنہیں جلسے جلوسوں میں بھرپور شرکت کرتے اور اپنے جذبات کااظہارکرتے ہوئے بھی دیکھا۔مح ترمہ تو پاکستان کی ”خاتونِ اوّل”بننے کاخواب لے کر آئی تھی۔ اُس نے ایک صحافی کے سوال کاجواب دیتے ہوئے برملاکہا ”اگر کل عام انتخابات ہوجائیں تومیںخاتونِ اوّل بن جاؤںگی”۔ شنیدہے کہ کپتان صاحب کاطرزِ سیاست دیکھ کروہ مایوس ہوئی اورجب اُسے اپنے خواب ادھورے رہتے نظرآنے لگے تواُس نے سیاست میںاپنے آپ کواتنازیادہ نمایاں کرنے کی کوشش کی کہ کل کلاںتحریکِ انصاف کی قیادت سنبھال کراپنے تشنہ خوابوںکی تکمیل کرسکے ۔اُس کایہ رویہ عمران خاں کو پسندآیا نہ پارٹی کے دیگر رہنماؤںکو ۔اگرکپتان صاحب کوزہر دے کرراستے سے ہٹانے کامعاملہ محض افسانہ طرازی بھی سمجھ لیاجائے تو پھربھی یہ توبہرحال طے ہے کہ وہ سیاست میںکپتان صاحب سے آگے نکلنے کی کوشش کررہی تھی اورتحریکِ انصاف کے کچھ رہنماء عمران خاںسے اپنی بات منوانے کے لیے ریحام خاںسے براہِ راست رابطے بھی کررہے تھے ہ
Imran khan and Reham
میں اِس سے کچھ غرض نہیں کہ طلاق کی صورت میں کپتان صاحب اور ریحام خاںکے مابین لین دین کے کیامعاملات طے ہوئے کہ یہ خالصتاََ اُن کانجی معاملہ ہے لیکن عمران خاں کی شادی اورپھر طلاق دونوںہی کسی بھی صورت میںنجی نہیں کہلائے جاسکتے کیونکہ اِن کابراہِ راست سیاست اورعوامی جذبات سے تعلق تھا۔ ایک عام سی غیرمعروف خاتون کاعمران خاںکی زندگی میںداخل ہوتے ہی لاکھوںکروڑوں لوگوںکی ”بھابی” بن جانا”نجی” نہیںکہلاسکتا۔ میاں برادران کے خاندان میںجب شادی کی کوئی تقریب ہوتی ہے توکسی کوکانوں کان خبرتک نہیں ہوتی لیکن خان صاحب نے تو کنٹینرپر کھڑے ہوکر اپنی شادی کی خوہش کااظہار کیا پھرتحریکِ انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے طلاق کااعلان کیا حالانکہ طلاق نامے پرفریقین کے دستخط سات ،آٹھ روزبعد ہوئے ۔اِس لیے کپتان صاحب اورتحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے میڈیا تنقیدپر چیںبہ چیں ہوناچہ معنی دارد۔
طلاق کامعاملہ توتقریباََ اختتام کوپہنچااور اگلے چنددنوں کے بعد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاکے ہاںیہ قصّۂ پارینہ بھی بن جائے گالیکن خاںصاحب نے پاکستانی سیاست میںجونئی ”طرح” ڈالی ہے وہ توبہرحال میڈیاکو مرغوب ہی رہے گی ۔شاید یہ خاںصاحب کاواحد سچ ہوکہ”میں کبھی شکست تسلیم نہیںکرتا”کیونکہ عملی طور پر بھی ایسا ہی کررہے ہیں۔لاہور کے حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب میںایازصادق کی دوبارہ جیت کوقبول نہیں کیا گیا۔ عمران خاں کہتے ہیں کہ لگتاہے کہ حلقہ 122 میںایک دفعہ پھرضمنی انتخاب ہوگا۔ دراصل خاں صاحب کو الیکشن ،الیکشن کھیلنے کاشوق ہی بہت ہے ۔ چالیس سال تک انگلینڈمیں رہنے کے بعد پاکستانی سیاست میںطبع آزمائی کے شوقین سرور چودھری نے دورکی کوڑی لاتے ہوئے کہہ دیاکہ الیکشن کمیشن نے دھاندلی کرتے ہوئے ہمارے ووٹردوسرے حلقوںمیں بھیج دیئے۔
ثبوت وہ ایک بھی پیش نہیںکر سکے۔ ایک حلقے سے دوسرے حلقے میںووٹ کی منتقلی کاایک مخصوص طریقِ کارہے اور الیکشن کمیشن کے مطابق کوئی ایک ووٹ بھی ایسانہیں جسے مخصوص طریقِ کاراپنائے اورووٹرکی مرضی کے بغیر کسی دوسرے حلقے میںمنتقل کیاگیا ہو۔ پھر پتہ نہیںکس بنیادپر دھاندلی کاشور مچایاجا رہاہے ۔کیاپاکستان میں صرف تحریکِ انصاف ہی ایسی جماعت ہے جومتقیوں اورپرہیزگاروں پرمشتمل ہے؟۔ کیازبانِ خلق نقارۂ خُدانہیں ہوتی؟ ۔ کیا اکابرینِ تحریکِ انصاف کوادراک نہیںکہ وہ میدانِ سیاست میںتنہا ہوتے جارہے ہیں؟۔ سپیکرکے انتخاب میں ایاز صادق کو 300 میںسے 268 ووٹ ملے اورشفقت محمودکو صرف 31 ۔ایازصادق کی جیت توطے تھی لیکن شفقت محمود کو تو تحریکِ انصاف کے اتحادیوں نے بھی ووٹ نہیںدیئے۔ ہم توتحریکِ انصاف کوقومی دھارے میںشامل ہونے کی استدعا ہی کرسکتے ہیںکہ اگرایسا نہ ہوا تو تحریکِ انصاف کاانجام بھی تحریکِ استقلال کی طرح ہونا اظہرمن الشمس ہے۔