حضرت لعل شہباز قلندر

Lal Shahbaz Qalandar

Lal Shahbaz Qalandar

تحریر : رشید احمد نعیم
حضرت لعل شہباز قلندر کا شمار ان عظیم اولیائے کرام میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی راہ میں وقف کر دیں۔آپ کا اصل نام حضرت عثمان مروندی تھا۔ آپ کے والدِگرامی کا نام سید ابراہیم کبیرالدین شمس الدین تھاFamily Tree:

Hazrat Syed Shah Hussain a.k.a. Hazrat Lal Shahbaz Qalandar ibne Hazrat Syed Ibrahim Kabir u Din Mujab ibne Hazrat Syed Shams-ud-Din ibne Hazrat Syed Noor Shah ibne Hazrat Syed Muhammad Shah ibne Hazrat Syed Ahmed Shah ibne Hazrat Syed Hadi Shah ibne Hazrat Syed Mehdi Shah ibne Hazrat Syed Muntakhib Shah ibne Hazrat Syed Ghalib Shah ibne Hazrat Syed Mansoor Shah ibne Hazrat Syed Ismail Shah ibne Imam – e – Jafer – e – Sadiq (A.S.)
“ibne” means “Son Of”

Birth:

Hazrat Syed Shah Hussain a.k.a. Hazrat Lal Shahbaz Qalandar was born late in the twelfth century in 1177 in Marwand (Iran), now Afghanistan, to a noble Makhdum, Syed Ibrahim Kabir-ud-Din Mujab, and his mother was a high-ranking princess. He was born in the month of Sha’aban, 8th month in Islamic calendar.

آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا اور تھوڑے عرصے بعد عربی اور فارسی میں بھی دسترس حاصل کر لی۔ آپ کو سیر و سیاحت کا بہت شوق تھا۔آپ نے سیروسیاحت کے ساتھ ساتھ تبلیغ ِ اسلام کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔آپ کا تبلیغ کرنے کا انداز بہت متاثر کن تھا اسی لیے بے شمارلوگ آپ کے ہاتھ پہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔بابا ابراہیم نے آپ کو ایک پتھر اور ایک بادام کا عصا عطا فرمایا جو آج بھی آپ کے مزار شریف میں رکھے ہوئے ہیں وہ پتھر ہمیشہ آپ نے اپنے گلے میںپہنے رکھا اس لیے اس کو گلو بند کہتے ہیں۔آپ سندھ تشریف لائے تو آپ نے سیہون شریف میں قیام کرنا مناسب سمجھا۔اور اسی شہر کو سکونت کے لیے پسند فرمایا۔آپ بہت ہی عبادت گزار تھے۔

دنیاوی خواہشات سے دور رہتے تھے۔آپ کی شخصیت سے لوگ بہت متاثر ہوتے تھے۔ آپ بہت ہی صاحبِ کرامات بزرگ تھے۔ بے شمار لوگ آپ کے ہاتھ سے فیض یاب ہوتے تھے۔ایک بار سیہون شریف کے اردگرد کے علاقوں میں شدید قحط پڑ گیا۔ بارشیں ہونا بند ہو گئیں۔نہریں سُوکھ گئیں۔ کنویں بھی سوکھ گئے اور کھانے پینے کی چیزیں ختم ہو گئیں۔ لوگ بے حد پریشان ہو گئے ۔کسی کے زندہ بچنے کی اُمید نہ تھی۔ اس مصیبت سے تنگ آ کر لوگ اکٹھے ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اللہ کے حضور دعا کرنے کی درخواست کی۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ تم سب اپنے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور میرے پیچھے کھڑے ہو جائو۔ تمام لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔

ALLAH

ALLAH

آپ نے اللہ کے حضور عاجزی اور انکساری سے دُعا فرمائی۔ابھی آپ دعا مانگ کر اپنے حجرے میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے کہ اللہ نے اُن کی دُعا سُن لی اور بارانِ رحمت برسنے لگی۔جس زمانے میں آپ گرنار میں مقیم تھے، آپ کے گرد حاجت مندوں کا ایک ہجوم سا لگا رہتا تھا۔یہ زمانے بھر کے ستائے ہوئے ، بیمار اور مفلس انسان تھے جنہیں حضرت لعل شہباز قلندر کے تسکین آمیز کلمات جینے کا حوصلہ دیتے تھے۔ گرنار میں ایک دل گرفتہ شخص بھی رہتا تھاجس کا جوان بیٹا گم ہو گیا تھا۔بیٹے کی جدائی میں اس شخص کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ دن رات روتا رہتا تھا۔ عزیز و اقارب اور دوست یار سب اسے صبر کی تلقین کے ساتھ بیٹے کی موت کا یقین دلانے کی کوشش بھی کرتے تھے کہ اگر وہ زندہ ہوتا تو ضرور واپس لوٹ آتا، یا تو کسی نے اسے قتل کر دیا ہے یا پھر جنگلی جانور کھا گئے ہوں گے۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔

غمزدہ باپ بیٹے کی زندگی سے مایوس ہو چکا تھا مگر پھر بھی کبھی کبھی اس کے دل میں اُمید کی لہر اٹھتی تھی اور وہ اپنی بیوی سے کہتا تھا کہ میرا بیٹا زندہ ہے۔ تم دیکھ لینا وہ ایک دن ضرور آئے گااور زندہ درگور باپ کے سینے پر سر رکھ دے گا اور ہمارے تاریک مکانوں میں خوشیوں کے چراغ جل اُٹھیں گے۔شکستہ ماں کیا جواب دیتی َ؟؟ اس کی حلت تو شوہر سے بھی بدتر تھی۔ بس خاموش نظروں سے اپنے شریک حیات کی طرف دیکھتی اور آنسو بہانے لگتی۔ایک دن ایک دوست کے کہنے پر یہ شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا قصہ بیان کیا ۔آپ نے فرمایا تیرے دل کی گواہی سچی ہے۔ تیرا بیٹا زندہ ہے۔آپ نے فرمایا کہ اس کو جا کر لانا پڑے گا۔ اگلے دن آپ غمزدہ باپ کو ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہوئے، طویل سفر کے بعد ایک جنگل میں پہنچے۔

ایک جھونپڑی دیکھی۔ حضرت شہباز قلندرآدمی کو باہرکھڑا کرکے جھونپڑی میں داخل ہوئے ۔کچھ درویش بیٹھے ہوئے تھے۔آپ نے ایک نوجوان درویش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم خود سکون سے بیٹھے ہوے ہو اور آپ کے والدین آپ کے فراق میں مرے جا رے ہیں ، آپ اس نوجوان کو لے کر جھونپڑی سے باہر آے ۔باپ سے ملاقات کروائی۔والدین بہت خوش ہوئے۔ ماں باپ کی اجازت سے وہ نوجوان حضرت لعل شہباز قلندر کی خدمت میں مشغول ہو گیا، اور ایک دن ولایت پر فائز ہو گیا
آپ کا وصال 680 میں ہوا اور آپ کو سیہون شریف میں سپردِخاک کیا گیا۔آپ کا مزار شریف سیہون میں ہے۔ آج بھی آپ کا مزار لاکھوں عقیدت مندونںکی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔Urs
His annual Urs (death anniversary celebration) is held on the 18 Sha’aban – the eighth month of the Muslim lunar calendar. Thousands of devotees flock to the tomb while every Thursday their number stands multiplied especially at the time of his ‘Urs’ being a carnival as well a religious festival and celebrated every year. Sehwan springs to life and becomes the focal point of more than half a million pilgrims from all over Pakistan. On each morning of the three day feast, the narrow lanes of Sewhan are packed to capacity as thousands and thousands of pilgrims, fakirs and devotees make their way to the shrine to commune with the saint, offer their tributes and make a wish. Most of the people present garlands and a green chadar (a cloth used to cover a tomb) with Qur’anic inscriptions in silver or gold threads. Humming of verses, singing and dancing in praise of the saint continues till late at night. A devotional dance known as ‘dhamal’, being a frenzied and ecstatic swirl of the head and body, is a special ritual that is performed at the rhythmic beat of the [dhol] (a big barrel-shaped drum), some of them being of giant size and placed in the courtyard of the shrine. Bells, gongs, cymbals and horns make a thunderous din, and the dervishes, clad in long robes, beads, bracelets and colored head-bands whirl faster and faster in a hypnotic trance, until with a final deafening scream they run wildly through the doors of the shrine to the courtyard beyond.ہر سال شعبان میں آپ کا عرس ہوتا ہے ۔اور لوگ اپنے اپنے انداز میں خراج ِ عقیدت پیش کرتے ہیں

Rasheed Ahmad Naeem

Rasheed Ahmad Naeem

تحریر : رشید احمد نعیم
03014033622
[email protected]
35103 0406892 7