مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے سندھ میں تنظیم تحلیل کر کے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس وقت پورے سندھ میں مسلم لیگ ن کا شوروغوغا ہے اور یہ کہ سندھ بھر سے لوگ بھاگ بھاگ کر جوق درجوق مسلم لیگ ن میں شامل ہورہے ہیں ، شہباز شریف سے اگر پوچھا جائے کہ موجودہ تنظیم توڑنے کے مقاصد کیاہے تو شاید وہ اس کا بات کا جواب بھی ٹھیک طرح سے نہیں دے پائینگے ویسے بھی اگر انہیں سندھ میں اس تنظیمی ڈھانچے کو توڑنا ہی تھا تو بہت پہلے ہی ایساکرلینا چاہیے تھا یعنی انتخابات سے قبل ،اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سندھ میں مسلم لیگ ن اس قدر نحیف دکھائی دے رہی ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں ہے اور ایسے میں ان کے سندھ بھر میں ڈسٹرکٹ کی سطح پر بھی صدور کاملنا مشکل کام ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کو سندھ میں ایک طویل عرصے سے بے یارومددگا چھوڑ رکھاہے چند ایک رہنما ایسے ہیں جنھوں نے ایک ایک میڈیا کوآرڈینیٹر رکھاہوا ہے جو ماہانہ پیسے لیکر ان رہنماؤں سے پوچھے بغیر کچھ نہ کچھ بیانات چلاتے رہتے ہیں جس کی اخباری کٹنگز مسلم لیگ ن کے قائدین کو واٹس اپ کرنے کے بعد یہ ظاہر کیا جاتاہے کہ مسلم لیگ ن سندھ میں بہت تیزی سے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔
بظاہر ایسا کچھ نہیں ہے لہذاشہباز شریف کو اب بہت سی باتوں کا ادراک کرلینا ہوگا کہ میاں نوازشریف کی نسبت ان کے لیے پارٹی کو لیکر چلنا کسی عذاب سے کم نہیں ہے پھر بھی سندھ میں انہیں تنظیم کو توڑنے کی بجائے پہلے اسی کام کے لیے ایک تنظیمی مہم کو شروع کرنا چاہیے تھاپھر اس کے بعد مسلم لیگ کی نئی تنظیم میں اپنے نام ور اور بااثر لوگ شامل کرتے جو آئندہ آنے والے انتخابات میں میں پارٹی کی موثر نمائندگی کرتے مگر افسوس وہ مسلم لیگ جو سندھ میں پہلے ہی انتہائی غیر موثر اور انتہائی کمزور تھی اسے بھی چلتا کرکے سندھ میں مسلم لیگ ن کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی ہے ۔شہبازشریف نے اپنے مکمل ادوارمیں جس انداز میں پنجاب حکومت میں اپنی کارکردگی دکھائی تھی وہ کسی بھی لحاظ سے بھلانے کے قابل نہیں ہے انہوں نے واقعی بہت سے قابل ستائش کام کیے اور مرکز میں بیٹھے نوازشریف کی حکومت کو نیک نامی دلوائی جس کا بہت سے مقامات پرخود نوازشریف نے بھی اقرار کیا تھا مگر اب شہباز شریف کو بھی یہ بات سمجھ میں آچکی ہوگی کہ کسی صو بے کا وزیراعلیٰ بنناالگ بات ہے اور لیڈر بننا ایک الگ معاملہ ہے یعنی ضروری نہیں کہ جو آدمی اچھا وزیراعلیٰ ہو وہ ایک اچھا لیڈر بھی ثابت ہولہذا حقیقت یہ ہے کہ ایک اتنی بڑی پارٹی جس کا ورکر اس ملک کے کونے میں موجود ہے وہ اس پارٹی کے صدر بننے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔
شایداس بات کا علم اب مسلم لیگ ن کے بہت سے سینئر رہنماؤں کو بھی ہوچکاہے مگر شاید اس بات کا علم میاں نوازشریف کونہیں تھا یاپھر نوازشریف نے بحالت مجبوری ایسا فیصلہ کیاتھا شہبازشریف کی سیاسی بصیرت کا ایک امتحان ملک بھر میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر دیکھنے کو ملا خاص طورپر پنجاب میں بھی انہوں نے امیدواروں کی نامزدگی کے معاملے میں کچھ عجیب وغریب فیصلے کرڈالے تھے،انتخابات کے بعد پارٹی کے لوگوں سے ملاقات میں خود شہباز شریف نے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا اور کہاکہ اس الیکشن میں پرانے اور نظریاتی کارکنوں کو نظراندازکیاگیااور جنھیں باہر ہونا چاہیے تھا انہیں زبردستی اسمبلیوں میں لایا گیا،شہباز شریف نے خود اقرارکیاکہ انہیں چند ایک پرانے لوگوں کی سفارشوں پر ان کے کوٹوں میں سے پارٹی ٹکٹ جاری کیئے جن کی خدمات پارٹی کے لیے جمعہ جمعہ آٹھ دن تھی اور ان لوگوں کو اپوزیشن تو دور کی بات سیاست کا ہی معلوم نہیں ہے۔
شہبازشریف کی خواتین کے ساتھ ہونے والی ایک میٹنگ میں شائستہ پرویزملک ،نزہت صادق سمیت بہت سی خاتون ورکر اپنی صفائیاں دیتی رہی ہیں، یہاں تک ایک رکن صوبائی اسمبلی عظمیٰ بخاری نے جب بولنا چاہا تو میاں شہباز شریف نے کہاکہ جی آپ ضرور بولیئے آپ کے تومیاں صاحب بھی رکن اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں ۔ فی الحال یہ تمام باتیں ایک طرف مگر کیا شہبازشریف کو بھی اسی وقت جاگنا تھا جب وہ ٹکٹوں کی تقسیم کرچکے تھے ، جب ہوش آیا تو اس وقت چڑیاہی کھیت کو چگ چکی تھی ، اس کے علاوہ وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر بھی ان کی سیاسی بصیرت کسی کام نہ آئی اس کے علاوہ ایک بڑاامتحان صدارتی انتخاب کے موقع پر دیکھنے کو ملا جب شہباز شریف پیپلزپارٹی سے زیادہ اکثریت رکھنے کے باوجود انہیں اپنے ساتھ ملانے میں ناکام رہے اس کی نسبت مجھے یقین ہے کہ اگر نوازشریف اس موقع پر ہوتے تو ماحول کچھ اور ہوتا اور یقینی طور پر صدارتی انتخاب کے موقع پر اپوزیشن جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر حکومتی امیدوار کا مقابلہ کرتی ،یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری کی کچھ سیاسی مجبوریاں ہو جس کی وجہ سے وہ اعتزازاحسن کے معاملے میں اڑے رہے مگر اس کے باوجود مجھے یقین ہے کہ آخری روز ہی سہی مگر اپوزیشن جماعتیں ہرحال میں اکھٹی ہو جاتی۔
علاوہ ازیں ایک امتحان اور بھی تھاجب نوازشریف لندن سے واپس آرہے تھے اس وقت اگر شہباز شریف صرف لاہور کی عوام کو ہی ائیرپورٹ پر استقبال کے لیے لے آتے تو اس کااثر لازماً انتخابات پر پڑتا اور مسلم لیگ ن اپنے ہی گھر میں اس قدر کمزور دکھائی نہ دیتی اسے نوازشریف کے خلاف سازش کہیں یا پھر کوئی مصلحت مگر کچھ نہ کچھ گڑ بڑضرور ہے ،اور اس راز کو تاریخ خود ہی ایک نہ ایک دن فاش کردے گی ان تمام کمزوریوں کے باوجود میں یہ نہیں کہتا کہ مسلم لیگ ن اپنی بقاکی جنگ لڑ رہی ہے کیونکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن ابھی بھی زندہ ہے جس کامظاہرہ آنے والے دنوں میں ہوتارہے گا،لیکن یہ طے ہے کہ مسلم لیگ ن مرکزی سطح پر نوازشریف کے بغیر ادھوری جماعت بن چکی ہے، ممکن ہے کہ نوازشریف کی موجودہ سزاؤں پر بیل ہوجائے اور وہ باہر آجائیں مگر کچھ کیسز العزیزیہ سٹیل مل جیسے ابھی ان پر اور بھی چل رہے ہیں۔
مطلب ان کا اب جیل میں آنا جانا لگا رہ سکتاہے اس ساری صورتحال میں اگر نوازشریف کی بیل ہوگئی تو وہ تمام تر پابندیوں کے باوجود پیچھے بیٹھ کر اپنی پارٹی کو چلا سکتے ہیں اور اس طرح شہباز شریف کو سیاسی یتیمی کا سامناکرناپڑسکتاہے یعنی ان کو نوازشریف کے تمام فیصلوں کو پارٹی کے صدر ہونے کے باوجود من وعن قبول کرنا ہوگا اس عمل سے بھی شہباز شریف کی مشکلات بڑھیں گی کیونکہ پارٹی کا اصل کنٹرول نوازشریف کے ہاتھوں میں ہی ہوگامگر کام اور بھاگ دوڑ میاں شہباز شریف کو ہی کرنا ہوگی جس سے وہ ایک بے اختیار صدر کی حیثیت سے اپنا کرداراداکرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،یہ بھی حقیقت ہے کہ نوازشریف نے بھی 2013کے الیکشن میں کامیابی کے بعد بے پناہ غلطیاں کی تھی جس کا غمیازہ بھی وہ آج بھگت رہے ہیں نئے نئے لوگوں کو لاکر پرانے اور نظریاتی لوگوں کے سروں پر بٹھانا ہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی مگر اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح سے پارٹی کو تو لیکر چل رہی رہے تھے جو شہبازشریف کے صدر بننے کے بعد بلکل ہی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔